”اٹھو مت بیٹھو“ کا مطلب کیا ہے؟


کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے کہ کہ کسی کے زور بازو پر کچھ لنگر کھولے گئے اور نعرہ مستانہ بلند کیا گیا کہ ”کوئی بھوکا نہ سوئے“ ۔ یار لوگ کہنے لگے کہ آج کے بعد کوئی انسان بھوکا نہیں سوئے گا یعنی سونے سے پہلے سب کو روٹی ملے گی۔ میں گھنگھرو باندھ کر ناچنے ہی لگا تھا کہ بھلا ہو شہابے مستری کا جس نے میرے ہاتھ سے گھنگھرو چھین کر ایک طرف رکھے اور کہنے لگا : اس کا وہ مطلب نہیں جو یار لوگوں نے سمجھا ہوا ہے۔ میں نے پوچھا: تو پھر؟

وہ کہنے لگا : یہ ”اٹھو مت بیٹھو“ کی طرح والا فقرہ ہے۔ ”اٹھو“ کے بعد بعد وقفہ کرو گے تو معنی اور ہو گا اور اگر ”اٹھو مت“ کے بعد وقفہ کرو گے تو معنی اور ہو گا۔ میں نے نادیدہ نظروں سے اسے گھورا تو کہنے لگا : ابھی سمجھاتا ہوں۔ ”کوئی بھوکا نہ سوئے“ سٹیٹ منٹ نہیں بلکہ ریاست کی طرف سے حکم نامہ یا نصیحت ہے جس کا مطلب ہے کہ آج کے بعد کوئی بھوکا نہ سوئے یعنی سب جاگتے رہیں۔ اب ”کوئی بھوکا نہ سوئے“ کا راگ الاپنے والوں کو بھلا کیسا بتایا جائے کہ بھوکا انسان بھوک کے مارے ویسے بھی نہیں سو سکتا۔ یہ ایسے ہی ہے جیسا کہا جائے : ”کوئی گرمی میں سویٹر نہ پہنے“ ۔ جس طرح سخت گرمی میں سویٹر نہیں پہنی جاتی بالکل اسی طرح کسی بھوکے کو نیند بھی نہیں آتی۔

مجھے نہیں معلوم کہ اس کے بعد کوئی بھوکا انسان سویا ہے یا نہیں لیکن کوشش پوری کی جا رہی ہے کہ نہ صرف بھوکوں کی بھوک بڑھائی جائے بلکہ انہیں سونے بھی نہ دیا جائے تا کہ ”کوئی بھوکا نہ سوئے“ کا خواب تعبیر کے سامنے ”شرمندہ“ ہو کر ڈھیر ہو جائے۔ اس سلسلے کو آگے بڑھانے کے لیے ایک تازہ کوشش ڈیزل، پٹرول اور مٹی کے تیل کو پورے ڈیڑھ روپے سستا کر کے کی گئی ہے۔ ہاشو شکاری سوچوں میں گم تھا کہ بچ جانے والے اس ڈیڑھ روپے سے بکرے خریدے یا کٹے اور مرغیوں کا کاروبار کرے کہ ساتھ ہی دوسری خبر موصول ہوئی کہ ایل پی جی پانچ روپے مہنگی نہیں بلکہ مزید مہنگی ہو گئی ہے۔

ہاشو بیچارہ جو ڈیڑھ روپے کی بچت اپنی جیب میں ڈال کر کاروبار کرنے نکلا ہی تھا، اسے الٹا اپنی جیب سے ساڑھے تین روپے نکالنے پڑ گئے۔ میں نے پریشان حال ہاشو کو دیکھا تو مجھے وہ کوے یاد آ گئے جنہیں کہیں سے ایک روٹی ملی تھی۔ چونکہ دونوں کو ایک دوسرے اعتبار نہیں تھا اس لیے تقسیم کرانے ایک بندر کے پاس چلے گئے۔

بندر نے روٹی کے دو برابر حصے کرنے کی بجائے ایک ٹکڑا جان بوجھ کر چھوٹا رکھا۔ جب ترازو میں اس ٹکڑے کا وزن زیادہ نکلا تو بندر نے برابر کرنے کے بہانے اس ٹکڑے سے اتنا بڑا لقمہ لیا کہ وہ چھوٹا ہو گیا اور چھوٹا ٹکڑا بڑا ہو گیا۔ دوبارہ وزن میں جب پھر ایک ٹکڑا بڑا نکلا تو بندر نے برابر کرنے کے بہانے دوبارہ اتنا بڑا لقمہ لیا کہ ایک ٹکڑا پھر چھوٹا ہو گیا۔ انصاف کرتے کرتے وہ روٹی سے انصاف کر گیا اور انصاف کی امید کرنے والے کوے خالی پیٹ رہ گئے۔ جب بھوک کے مارے وہ ساری رات سو نہ سکے تو انہیں ”کوئی بھوکا نہ سوئے“ کی عملی تفسیر سمجھ آ گئی۔

لنگر خانے کھولنا سونا تھا تو کوئی بھوکا نہ سوئے اس پر سہاگا ہے۔ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ پرویز الہی نے امریکی قونصلر کو اتنا بڑا شہ کار دکھانے کی بجائے پنجاب اسمبلی کی نئی عمارت کیوں ”دکھا“ ڈالی؟ میرا خیال تھا کہ پرویز الہی نے حکومت سے اپنا کوئی پرانا حساب چکتا کیا ہے لیکن شہابے مستری کا کہنا ہے کہ حکومت کے پاس اس کے علاوہ دکھانے کو اور ہے بھی کیا؟ اگر انہیں پشاور والا منصوبہ دکھا دیا جاتا اور وہ اس کا ڈیزائن چوری کر لیتے تو دنیا کا آٹھواں عجوبہ پاکستان کی بجائے کسی اور ملک میں دریافت ہوتا۔ دکھانے کو تو تین سالوں میں بننے والے سینکڑوں ڈیم بھی دکھائے جا سکتے تھے لیکن شاید وہ بھی اسی لیے نہیں دکھائے گئے تا کہ پاکستان پر پانی چوری کا الزام نہ لگایا جا سکے۔ جب سے حکومت نے ”کوئی بھوکا نہ سوئے!“ کے پروگرام اندھا دھند آگے بڑھایا ہے اس وقت سے اپوزیشن بھی سونے کی پوزیشن سے باہر نکل چکی ہے۔

اپوزیشن کی اسی کیفیت کو دیکھتے ہوئے ایک بیان داغا گیا ہے کہ نون لیگ کو سمجھ نہیں آ رہی کہ آگے کیسے بڑھیں؟ ”آگے بڑھنے“ کے فارمولے پر نون لیگ اگر عمل کر لیتی تو شاید کنٹینر آج بھی آباد ہوتا۔ اس پر مصدقہ ”بڑوں“ کے بیانات بھی موجود ہیں۔ بڑی سادہ سی بات ہے کہ ”آگے“ والوں سے آگے نہ بڑھیں اور ان کی مرضی کے آگے اپنی مرضی نہ کریں اور آگے بڑھ جائیں۔ ورنہ ”پچھلی سیٹیں“ بھی گدھے کے سینگ۔ اگر آگے بڑھنے کا راز سمجھ آ جائے تو واقعی کمال ہو جاتا ہے۔

اب دیکھیں ناں بائیس سالوں کا سفر کیسے چٹکی بھر ”راتوں میں طے ہو گیا“ حالانکہ زمینی حقائق کے مطابق دن کی روشنی میں بھی ”منزل مراد شاد باد“ تک پہنچنا ممکن نہیں تھا۔ شاید اسی لیے ”نیا پاکستان بن چکا ہے“ کی منزل سے ریورس گیئر لگاتے ہوئے تازہ کلام یوں وارد ہوا ہے کہ ”لوگ ٹیکس نہیں دیتے تو نیا پاکستان کیسے بنے گا؟ کوئی بٹن تھوڑی ہے کہ دبایا اور نیا پاکستان بن گیا؟ اس کے لیے وقت چاہیے“ ۔ جونہی یہ خبر چلی شہابا مستری ہوٹل میں ہی کھڑا ہوا اور چیخ چیخ کر کہنے لگا:کسی اونٹ کو ذبح کیا جانے لگا تو مالک نے پوچھا: کوئی آخری خواہش؟ اونٹ کہنے :مجھے اتنا وقت دے دو کہ میں اڑنا سیکھ لوں!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments