سید علی گیلانی ایک چراغ اور بجھا


” ہم پاکستانی ہیں اور پاکستان ہمارا ہے۔“ یہ الفاظ بزرگ حریت راہنما اور تحریک آزادی کشمیر کے سرخیل سید علی گیلانی کے ہیں جو ہمیشہ اپنی مضبوط اور توانا آواز کے ساتھ کشمیر کا مقدمہ لڑتے اور پاکستان سے اپنی محبت سمیت وابستگی کا برملا اظہار کرتے تھے۔ 92 سالہ سید علی گیلانی سات دہائیوں تک کشمیر کی آزادی کی جنگ اور بھارتی بربریت کے خلاف اپنی سیاسی جدوجہد سیاسی اور قانونی فریم ورک میں لڑتے رہے۔ یہ ان کی خوبی تھی کہ انہوں نے اپنی جدوجہد میں کہیں بھی کوئی کمزوری نہیں دکھائی۔

بھارت میں سخت گیر ہندو جو سید علی گیلانی کے بارے میں مخالفانہ نقطہ نظر رکھتے تھے ان کے بقول کشمیر کی آزادی کی جنگ اور سید علی گیلانی کو علیحدہ کر کے نہیں دیکھا جاسکتا۔ وہ دنیا سے رخصت ہوئے ہیں تو بھارتی بربریت کے باعث پابند سلاسل تھے، مگر ان کے جسمانی اور سیاسی اعصاب مضبوط تھے اور انہوں نے کسی بھی لمحے خود کو کمزور محسوس نہیں کیا اور خود کو بھی اپنے سیاسی وجود سے قائم رکھا اور دوسروں کے لیے بھی خود کو ایک شمع کے طور پر پیش کیا۔ جب بھی مورخ کشمیر کی جہدوجہد یا مزاحمتی تحریک کی بنیاد پر اپنی تاریخ کو مرتب کرے گا تو سید علی گیلانی کی جدوجہد سب سے نمایاں ہوگی۔

سید علی گیلانی زندگی کے ساتھ ساتھ اپنی موت پر بھی بھارت کے لیے ایک بڑا خطرہ ثابت ہوئے۔ بھارت کے لیے ان کی میت بھی خطرہ بن گئی او راسی بنیاد پر ان کا جسد خاکی چھین کر رات کی تاریکی میں مقامی قبرستان میں خاموشی سے ان کی تدفین کی گئی۔ ان کے اہل خانہ سے ان کی میت زبردستی چھینی گئی او ران کی میت عملی طور پر پاکستان کے پرچم میں لپٹی ہوئی تھی او راسی بنیاد پر ان کو پاکستان کی مضبوط ترین آواز سمجھا جاتا تھا۔

بھارت نے ان کی تدفین کے بعد تعزیتی اجتماعات پر بھی پابندی ظاہر کرتی ہے کہ سید علی گیلانی کی شہادت بھی بھارت کے اعصاب پر سوار ہے اور یہ کیفیت ختم نہیں ہوگی۔ کیونکہ سید علی گیلانی کشمیر کی جدوجہد آزادی میں ایک کیفیت، جذبہ اور جنون کا نام ہے اور ان کے پیچھے نئی نسل میں کئی سید علی گیلانی موجود ہیں اور ان کی جانب سے قربانیوں کی یہ جنگ ختم نہیں ہوگی۔

سید علی گیلانی کو اپنی اس طویل ترین جدوجہد میں کئی بار قید و بند کی صعبوتیں بھی برداشت کیں مگر کہیں بھی سمجھوتے کی سیاست کرنے کو ترجیح دینے کی بجائے اپنی اصولی سیاسی موقف پر قائم رہے۔ وہ ان لوگوں کے بھی ناقد رہے جو کشمیر کے مسئلہ کے حل میں غیر روایتی حل پیش کو پیش کرتے تھے۔ جنرل ) ر (پرویز مشرف سے بھی ان کے اختلافات کی بنیاد بھی یہ ہی وجہ بنی اور بڑی جرات کے ساتھ انہوں نے فوجی سربراہ کے موقف کو قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔

سید علی گیلانی تقریباً مختلف اوقات کار میں 14 برس تک قید رہے اور زندگی کی آخری سانسیں بھی انہوں نے گھر میں نظربندی کے طور پر گزاری۔ بھارت کا مسئلہ یہ تھا کہ وہ سید علی گیلانی تین حوالوں سے اپنے لیے خطرہ سمجھتے تھے اول ان کی کشمیر کی جو جدوجہد تھی اور جیسے انہوں نے اپنی جدوجہد سے نئی نسل کو اپنے ساتھ جوڑا بھارت اسے اپنے لیے خطرہ سمجھتے تھے اور بھارتی سمجھتے تھے ان میں سمجھوتہ کرنے یا دباو میں آنے کی صلاحیت نہیں ہے۔ دوئم ان کی پاکستان سے محبت اور وابستگی سمیت اس کا برملا اظہار بھی کسی بھی طرح بھارت کو پسند نہیں تھا۔ سوئم سید علی گیلانی کی عالم گیر شخصیت اور توانا آواز نے جس انداز سے عالمی دنیا میں بھارتی مظالم اور بربریت کو نمایاں کیا اس نے بھی بھارت کو سفارتی محاذ پر پریشانی دی۔

یہ اعزاز واقعی سید علی گیلانی کو ہی حاصل رہا کہ مشکل حالات، جبر کی کیفیت، پرتشدد ماحول، بدترین انسانی حقوق کی پامالیوں اور معصوم بچوں، بچیوں اور نوجوانوں سمیت بزرگوں کی شہادت کے ماحول میں انہوں نے ان بدترین حالات میں تحریک آزادی کشمیر کے بیانیہ کو زندہ رکھا اور کہیں بھی یہ محسوس نہیں ہوا کہ وہ اس قافلے میں تنہا رہ گئے ہیں۔ سید علی گیلانی کو سیاسی طور پر رام کرنے کی بھارت کی تمام کوششیں ناکام ہوئی اور ان کو واقعی لگا کہ سید علی گیلانی کو کسی دباو، ڈر، تشدد، قید یا کسی بھی قسم کے مالی لالچ سے بھی اپنے ایجنڈے کے ساتھ نہیں جوڑا جاسکتا تھا۔

واقعی سید علی گیلانی کی ساری زندگی اپنی ذاتیات کے مقابلے میں کشمیری قوم کے لیے گزاری او ران ہی کے ساتھ آزادی کی جنگ لڑتے لڑتے آزادی کا یہ عظیم سپاہی بڑی شان و شوکت کے ساتھ دنیا سے رخصت ہوا ہے۔ پتلے دبلے سید علی گیلانی کو دیکھنے والے افراد جب ان سے ملتے تو ان کو واقعی حیرانی ہوتی کہ یہ کمزور سا فرد کیسے اتنی بڑی آزادی کی جنگ لڑ سکتا ہے۔ ساری زندگی ایک نظریاتی اور فکری محاذ پر بڑی جرات سے گزاری اور عملی جدوجہد کے ساتھ ساتھ فکری محاذ پر انہوں نے درجنوں سے زائد کتابیں لکھ کر لوگوں میں جہاں ولولہ پیدا کیا وہیں جوش دے کر ان کو متحرک اور فعال کیا کہ وہ خود کو اس بڑی جنگ سے جوڑیں۔

اگرچہ سید علی گیلانی تین بار رکن اسمبلی بھی منتخب ہوئے اور ان کو ابتدا میں لگتا تھا کہ وہ اسمبلی کے فلور پر بیٹھ کر زیادہ جرات سے کشمیر کا مقدمہ لڑ سکتے ہیں۔ لیکن پھر ان کو احساس ہوا کہ یہ مسئلہ محض اسمبلی سیاست سے نہیں بلکہ ایک کٹھن سیاسی جدوجہد سے جڑی ہوئی ہے او راس میں ہماری اسمبلیاں کوئی بڑا کردار ادا نہیں کرسکیں گی۔ اس کے بعد انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ ان کی جنگ اسمبلی میں نہیں بلکہ کھلے میدان میں ہوگی اور وہ کشمیر کی آزادی کے ایک بڑے سفیر کے طور پر پیش کریں گے۔

سید علی گیلانی نے تحریک آزادی کو اپنا اوڑنا بچھونا بنالیا اور آخری سانس تک اس رشتے کو بڑی جرات کے ساتھ خوب نبھایا۔ کئی لوگ بیچ میدان میں ان کو چھوڑ گئے مگر وہ اپنی مستقل مزاجی کے ساتھ میدان میں خود کو جمائے رکھا اور سب کو تسلی یا امید دیتے کہ ہمارا کام جدوجہد کرنا اور نتائج اللہ تعالی پر چھوڑ دیے جائیں۔

سید علی گیلانی کی موت ایک فرد کی موت نہیں بلکہ یہ ایک عہد کا خاتمہ ہے۔ سید علی گیلانی ان لوگوں میں سے نہیں تھے جو محض طاقت یا اقتدار کی بنیاد پر کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر سمجھوتے کی سیاست کو اپنی حکمت عملی سمجھتے۔ ان کے بقول ان کی منزل اقتدار یا طاقت کا حصول نہیں بلکہ وہ حقیقی معنوں میں کشمیر کی آزادی اور بھارت کی کشمیر میں بربریت کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ جو لوگ بھی اس قافلہ میں شریک ہوں گے اور دیانت داری سے اس جدوجہد کا حصہ بنیں گے میں ان کے پیچھے بھی چلنے کے لیے تیار ہوں۔ کیونکہ میری منزل کشمیر کی آزادی ہے اور میں خود کو کسی شخصی پرستی میں قید کر کے تنہا نہیں ہونا چاہتا۔

ایک بات طے ہے کہ سید علی گیلانی کی شہادت کے بعد بھی کشمیر کی آزادی کی یہ جنگ تھمنے والی نہیں اور یہ جنگ جاری بھی رہے گی اور ایک دن یہ کامیابی سے ہمکنار بھی ہوگی۔ البتہ کشمیری عوام اور بالخصوص نوجوان نسل سید علی گیلانی کی شدت کو محسوس کرے گی کیونکہ ان کے سائے کی موجودگی خود ان کو متحرک اور فعال کرنے کا سبب بنتی تھی۔ لیکن اس نئی نسل کو سید علی گیلانی کا سبق ہی یہ ہے کہ وہ اس جنگ میں ہمت کو کبھی نہیں ہاریں گے۔

یہ جنگ جیتنی ہے تو خود میں بھی حوصلہ پیدا کرو اور دوسروں میں بھی حوصلہ پیدا کرے اس جنگ کی قیادت کرنا اور اس جنگ کو جیتنا ان پر قرض ہے۔ سید علی گیلانی کے لیے شہادت کا لفظ اس لیے استعمال کیا جا رہا ہے کہ وہ عملی طور پر بھارتی بربریت کا مقابلہ کرتے ہوئے اور گھر میں نظربندی کے دوران رب کے حضور پیش ہوئے ہیں۔ سید علی گیلانی کا ایک سبق عالمی طاقت ور حکمران طبقات کو بھی جھنجوڑتا ہے کہ وہ مقبوضہ کشمیر جسے بھارت کی بربریت نے عملی طور پر ایک عقوبت خانہ میں تبدیل کر دیا ہے اس پر نوٹس لے اور اپنے ذمہ دارانہ کردار سے مظلوم کشمیروں کی آواز کو سنے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments