اکتالیس برس اصل میں کتنا عرصہ ہے؟ (مکمل کالم)


” 1980 اور 2021 میں اتنا ہی فرق ہے جتنا 1939 اور 1980 میں!“

یاد نہیں کہ یہ جملہ میں نے کہاں پڑھا تھا مگر اس چھوٹے سے جملے نے میرا نقطہ نظر ہی تبدیل کر دیا، میں نے کبھی اس طرح سوچا ہی نہیں تھا۔ ہماری نسل کے لوگ اسی کی دہائی میں اسکول میں پڑھتے تھے، اس وقت جب کوئی استاد ہمیں دوسری جنگ عظیم کے بارے میں بتاتا کہ دنیا نے ایک عالمی جنگ 1939 میں لڑی تھی جو 1945 تک جاری رہی اور اس میں کروڑوں لوگ مارے گئے تو ہمیں یوں لگتا تھا جیسے قبل از مسیح کی کوئی بات ہو رہی ہو۔ اسی طرح ان دنوں جب ہمیں قیام پاکستان کے بارے میں پڑھایا جاتا، تحریک آزادی کی داستان سنائی جاتی اور سن 47ء کے واقعات بتائے جاتے تو ایسا محسوس ہوتا جیسے یہ باتیں اتنی پرانی ہیں کہ ان کا مستند ریکارڈ بھی دستیاب نہیں ہوگا۔ آزادی کے بعد ایوب خان کا دور، یحییٰ خان کا مارشل لا اور 1971 کا سانحہ مشرقی پاکستان بھی کوئی بھولی بسری یاد ہی لگتی تھی حالانکہ حقیقت میں یہ تمام واقعات اس وقت صرف دس سے تیس برس قبل ہی پیش آئے تھے۔ ان دنوں اگر کوئی شخص ہمیں سہگل کا گانا سنانے کی کوشش کرتا یا کسی پرانی بلیک اینڈ وہائٹ فلم کا حوالہ دیتا تو ہمیں وہ شخص گزشتہ صدی کی کوئی مخلوق لگتا۔ اسی کی دہائی میں ہمیں سنہ چالیس، پچاس، ساٹھ حتیٰ کہ ستر کی دہائی باتیں بھی بہت پرانی معلوم ہوتی تھیں۔ ہمیں ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے مہذب دنیا 1980 کے بعد شروع ہوئی تھی، اس سے پہلے کی تمام تاریخیں ہمیں ایک سی لگتی تھیں۔ ہمیں 1857 کی جنگ آزادی اور 1947 کی جنگ آزادی میں بھی کوئی خاص فرق نہیں لگتا تھا، ہمارے نزدیک دونوں واقعات ایک ہی قسم کے زمانے میں رونما ہوئے تھے، ہم نے ان واقعات کو چالیس یا ایک سو چالیس برس کے فرق سے نہیں دیکھا تھا۔ آج ہماری نسل کے لوگوں کو آج 1980 کا دور یوں لگتا ہے جیسے کل کی بات ہو، بے شک درمیان میں اکتالیس برس کا وقفہ ہے مگر یہ وقفہ ہمیں 1939 اور 1980 کے درمیانی وقفے کے مقابلے میں بہت کم محسوس ہوتا ہے حالانکہ ان دو تواریخ کے درمیان بھی اکتالیس سال ہی ہیں لیکن نہ جانے کیوں ان کا فرق ہمیں ایک صدی جتنا لگتا ہے۔ اب تک میں نے جان بوجھ کر جمع کا صیغہ استعمال کیا ہے کیونکہ مجھے لگتا ہے کہ اسی کی دہائی کے سب لوگ میری طرح ہی سوچتے ہوں گے لیکن اگر کسی کو مجھ سے اتفاق نہیں تو وہ ان باتوں کو صیغہ واحد میں پڑھ کر مصنف کی ذاتی رائے سمجھ لے۔

اب 2021 میں واپس آتے ہیں۔ ہم اکثر اس بات پر پشیمان رہتے ہیں کہ آج کل کی نوجوان نسل ہماری طرح کیوں نہیں سوچتی، انہیں ملکی تاریخ کے بڑے واقعات کیوں یاد نہیں، ان کی اقدار ہم سے اتنی مختلف کیوں ہیں، وغیرہ۔ ان باتوں پر ہم دل ہی دل میں بہت کڑھتے ہیں مگر یہ نہیں سوچتے کہ اس نسل کے نزدیک 1980 وہی ہے جو ہمارے نزدیک 1939 تھا، یعنی قبل از مسیح کی کوئی تاریخ۔ جس طرح ہمارے لیے یہ بات مضحکہ خیز تھی کہ ہم 1939ء کی اقدار اور روایات کو اسی کی دہائی میں اپنا لیں بالکل اسی طرح آج کی نسل کے لیے یہ نا ممکن ہے کہ وہ 2021ء میں ہمیں 1980ء جیسا بن کے دکھائیں۔ اس کے لیے ایک لفظ ’جنریشن گیپ‘ ہے لیکن شاید وہ بھی پوری طرح اس پیچیدہ صورتحال کی تصویر کشی نہیں کرتا۔ ممتاز امریکی لکھاری ایلون ٹافلر نے 1970 میں ’دی فیوچر شاک‘ کے نام سے ایک کتاب لکھی تھی جس میں اس نے اس بات کو ایک مختلف انداز میں یوں سمجھانے کی کوشش کی تھی۔ فرض کریں کہ ایک چار سال کی بچی اپنی ماں سے ضد کرتی ہے کہ اسے چاکلیٹ لے کر دی جائے، جواب میں ماں کہتی ہے کہ اگر وہ دو گھنٹے تک اسے تنگ نہیں کرے گی تو انعام میں اسے چاکلیٹ ملے گی۔ ایسا کہتے وقت ماں یہ بھول جاتی ہے کہ چار سال کے بچی کی زندگی میں دو گھنٹے کا انتظار اس کی اپنی چالیس سالہ زندگی کے دو گھنٹوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔ بچی اور ماں کی عمر کے تناسب سے دیکھا جائے تو یہ دو گھنٹے اصل میں بیس گھنٹوں کے برابر بنتے ہیں لیکن کوئی بھی اس فرق کو محسوس نہیں کرتا۔ والدین اور بچوں کے درمیان زیادہ تر مسائل کی وجہ اس فرق کو نہ سمجھنا ہے۔

ہم میں سے اکثر لوگ اپنے بچوں کی عادات پر رنجیدہ رہتے ہیں کہ بچے ان کی طرح نہیں سوچتے، ان کی طرح نہیں رہتے، ان کی طرح برتاؤ نہیں کرتے حالانکہ اپنی طرف سے ایسے لوگوں نے بچوں کی تربیت میں کوئی کمی نہیں رکھی ہوتی۔ تربیت کا مسئلہ بھی یقیناً ہوتا ہوگا مگر بڑا مسئلہ وہی ہے کہ ہم اپنے دور اور موجودہ دور کے فرق کو اس نظر سے نہیں دیکھتے جیسے ہم سن 80ء اور سن 39ء کے تفاوت کو دیکھتے تھے۔ میں اکثر اس بات پر جزبز ہوتا ہوں جب کوئی بچہ گھر کے ساتھ کریانے کی دکان تک جانے کے لیے گوگل نقشے کا سہارا لیتا ہے، مجھے لگتا ہے کہ ٹیکنالوجی نے جہاں بہت سہولت پیدا کی ہے وہاں بچوں کو اس کا محتاج بھی کر دیا ہے، نہ جانے آگے چل کر یہ بچے کیا گل کھلائیں گے او ر ان بچوں کا کیا بنے گا جو موبائل فون کے بغیر ایک قدم بھی نہیں چل سکتے۔ تاہم بچوں کے بارے میں یہ فتوی ٰ دیتے وقت ہم بھول جاتے ہیں کہ خود ہم بھی اس ٹیکنالوجی کو پیارے ہو چکے ہیں، اگر ہماری نسل کا یہ حال ہو گیا ہے تو آج کل کے بچوں کا کیا قصور جو گوگل نقشے کے ساتھ دنیا میں وارد ہوئے تھے!

بعض اوقات ہم چیزوں کو صرف اپنی نظر سے دیکھتے ہیں اور یہ سوچتے ہی نہیں کہ انہی چیزوں کو دیکھنے کے مزید زاویے بھی ہیں، ہو سکتا ہے کوئی بات ہمیں ایک زاویے سے مناسب نہ لگتی ہو لیکن اسی چیز کو اگر ہم کسی دوسرے زاویے سے دیکھیں تو عین ممکن ہے کہ ہمارا مطمح نظر ہی تبدیل ہو جائے۔ یہ مثال صرف جنریشن گیپ کے معاملے پر ہی منطبق نہیں ہوتی بلکہ یہ ایک عمومی اصول ہے جسے ہر قسم کی صورتحال پر لاگو کر کے دیکھا جا سکتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ کوئی شخص معیشت، سیاست یا مذہب کے بارے میں اپنا کوئی نظریہ رکھتا ہو اور خود کو صدق دل سے درست سمجھتا ہو لیکن اگر وہی شخص محض اپنے موقف کو پرکھنے کے طریقہ کار کو تبدیل کر لے تو ہو سکتا ہے کہ جن نظریات کی حمایت کرتے ہوئے پہلے اس کے منہ سے جھاگ اڑنے لگتی تھی اب وہ نظریات اسے فرسودہ لگیں۔ لیکن یہ کام آسان نہیں۔ جس طرح 2011ء میں پیدا ہونے والے بچے کو یہ سمجھانا مشکل ہے کہ 1970ء کی دنیا کیسی تھی اسی طرح کسی سخت گیر موقف رکھنے والے شخص کو یہ باور کروانا قریباً ناممکن ہے کہ اس کے نظریات کے علاوہ بھی دنیا میں کوئی حقیقت ہو سکتی ہے۔ اس گتھی کو سلجھانے کا کوئی لگا بندھا اصول نہیں ہے، ہم صرف اتنا کر سکتے ہیں کہ ہر معاملے خود درست کہنا اور سمجھنا چھوڑ دیں اور اس بات کو قبول کرنے کے لیے تیار رہیں کہ ہمارے نظریات، چاہے وہ کتنے ہی راسخ کیوں نہ ہوں، غلط بھی ہو سکتے ہیں۔ صرف عینک کا نمبر تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ آج اگر ہم 1980ء کی بجائے 2021ء کے بچے کی عینک لگا لیں تو ہمیں اس بچے کی تمام باتیں ٹھیک لگنے لگیں گے جنہیں ہم پہلے غلط سمجھتے تھے۔ اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ آج کے بچوں کی تمام باتیں درست اور ان کے بزرگوں کی سب باتیں غیر متعلق ہو چکی ہیں، یہ صرف چیزوں کو مختلف زاویے سے دیکھنے کا ایک کلیہ ہے، اس کلیے کا تعویذ بنا کر گلے میں ڈال لینا چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

یاسر پیرزادہ

Yasir Pirzada's columns are published at Daily Jang and HumSub Twitter: @YasirPirzada

yasir-pirzada has 495 posts and counting.See all posts by yasir-pirzada

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments