عرفان اللہ ترین کی یاد میں


یہ جولائی 2002 کی بات ہے۔ میں نے بیکن ہاؤس اسکول سسٹم کا لانچ کردہ فرنچائزڈ پراجیکٹ، ”دی ایجوکیٹرز“ ۔ ملتان میں بطور پرنسپل جوائن کیا۔ ملتان میں دی ایجوکیٹرز کے ڈائریکٹر جناب اقبال چوہدری تھے۔ میں بھی انہیں کے ساتھ منسلک ہوا تھا۔ اقبال چوہدری صاحب نے تین سال کے مختصر عرصے میں ملتان میں تین اسکول، دو کالجز، میلسی میں اسکول اور کالج اور ساہیوال میں کالج بنائے۔ ان میں میری کوشش اور کاوش بھی شامل رہی اور جو اللہ نے مجھے ہمت دی ان اداروں کو بنانے اور سنوارنے میں اپنا کردار ادا کیا۔

جب میں نے گلگشت کیمپس جوائن کیا تو چوہدری صاحب نے کہا کہ ترین صاحب آئیں گے انہیں بلڈنگ وزٹ کروا دینا۔ اگلے دن ایک پروقار شخص سے میرا تعارف ہوا۔ معلوم ہوا یہ ترین صاحب ہیں۔ لمبا قد، گورا بلکہ سرخی مائل گورا رنگ، بڑی بارعب آواز، خوبصورت لباس والی یہ کرشماتی شخصیت عرفان اللہ ترین کی تھی جو دی ایجوکیٹرز کے ریجنل ہیڈ تھے۔ بہت بعد میں معلوم ہوا کہ وہ فوج میں کیپٹن بھی رہے۔ وہ اپنے نام کے ساتھ خود کیپٹن کم ہی لکھتے۔

عرفان ترین صاحب سے 2002 میں جو تعلق بنا اگست 2021 تک ان کی اچانک وفات تک قائم رہا۔ میں نے 2005 میں دی ایجوکیٹرز چھوڑ دیا اور بلوم فیلڈ ہال سکول سسٹم جوائن کر لیا مگر ان سے بنا رشتہ قائم رہا۔ ان سے میرا تعلق پیشہ وارانہ تو تھا ہی، ذاتی تعلق یوں بنا کہ وہ کیپٹن اختر واہلہ کے دوست بھی تھے اور کیپٹن اختر واہلہ کی رہائش گاہ ظفر آباد، جہانیاں میں ہی ہمارا آبائی گھر ہے۔ اختر واہلہ فیملی سے، ان کی اہلیہ، ان کی خوش دامن سے رشتہ نصف صدی سے زیادہ پر محیط ہے۔

اختر واہلہ کا میرے مرحوم ابا جی سید ابراہیم شاہ مشہدی کے ساتھ بڑا پیار تھا اور وہ کہتے ہیں میں شاہ صاحب کا پانچواں بیٹا ہوں۔ اس حوالے سے عرفان ترین صاحب سے رشتہ مزید گہرا ہوا۔ مرحوم ایک انتہائی محنتی، اپنے کام سے پیار کرنے والے، اپنے ساتھ کام کرنے والوں سے محبت کرنے والے، اور کھرے انسان تھے۔ ہم دونوں نے دی ایجوکیٹرز میں اس وقت کام کام شروع کیا جب اس کو کوئی نہیں جانتا تھا۔ اللہ کی مدد شامل حال رہی۔

میں نے تین برس کام کیا، بغیر کسی طالب علم کے جو سکول شروع کیا جس دن چھوڑا تو الحمد للہ 450 طالب علم تھے۔ عرفان ترین صاحب نے 16 برس ایجوکیٹرز کو دیے اور بھرپور کام کیا۔ پاکستان میں بیکن ہاؤس نے اسکولز کے حوالے سے پہلی بار فرنچائزڈ اسکولز کا تصور دیا جو بہت کامیاب ہوا۔ نورالدین صاحب اس کے پراجیکٹ ڈائریکٹر بنے تھے۔ جنوبی پنجاب میں ترین صاحب نے اس کا جال پھیلانے میں اہم ترین کردار ادا کیا۔ وہ غالباً عبدالرحمان کھیتران کے داماد تھے اور ملتان میں دفتر کا آغاز اپنے سسرال کے گھر کے ایک کمرے سے کیا۔

اسی سڑک پر اقبال چوہدری صاحب کا سکول تھا جس میں، میں پرنسپل تھا۔ اقبال چوہدری صاحب بہت محنت کرنے والے اور انتھک انسان ہیں۔ انہوں نے ایجوکیٹرز کو متعارف کروانے میں بھرپور حصہ ڈالا۔ میں نے اپنی زندگی میں چوہدری صاحب کو گنتی کے چند ان لوگوں میں پایا جو وقت کے بہت پابند ہیں۔ وہ ایک سخت گیر ایڈمنسٹریٹر تھے مگر میں نے ان سے سیکھا بھی بہت کچھ۔

میرا؛ ور ترین صاحب کا ایک دکھ سانجھا تھا۔ میرے پاس سکول میں داخلہ نہیں تھا اور ان کے پاس ریجن میں سکول نہیں تھے۔ میں اور ترین صاحب اپنے اپنے بزنس کے لئے ایک دوسرے کے دفتر بیٹھتے اور ڈسکس کرتے۔ میں زیادہ سے زیادہ بچے لانا چاہتا تھا اور وہ زیادہ سے زیادہ سکولز۔ جلد ہی انہوں نے اسی سڑک پر ریجنل آفس بنا لیا تھا۔ آج وہ سڑک ملتان کی آہم ترین کاروباری سڑک میں بدل گئی ہے۔ ترین صاحب نے 16 برس کام کے بعد دی ایجوکیٹرز کو اللہ حافظ کہا، کچھ عرصہ لاہور اپنی فیملی کے ساتھ رہے اور پھر Superior Group کے ساتھ The Spirit School کے ریجنل ہیڈ کے طور پر ملتان آ گئے۔

مگر بہت کم عرصہ کام کیا۔ ان کا گاؤں چوک میتلا کے پاس مقصودہ تھا جہاں آج کل وہ کافی وقت گزارتے تھے۔ مجھے اکثر تصاویر بھیجتے تھے اپنے گاؤں کی، گھر کی اور اپنی وفات سے کچھ دن پہلے اس مسجد کی تصویر بھیجی جس میں انہوں نے قرآن پاک پڑھا تھا۔ انہیں اپنا گاؤں بہت اچھا لگتا تھا۔ میں نے محسوس کیا تھا کہ کچھ عرصہ سے اللہ کے بہت قریب ہو گئے ہیں، جب بھی بات ہوتی تو اللہ اور اس کے بندوں سے بہت پیار کا اظہار کرتے۔

میری اہلیہ عفت کو بھی جانتے تھے۔ ہم دونوں سے بہت پیار کرتے تھے۔ میں کوئی ایک ماہ پہلے بلوم فیلڈ ہال لعل پیر سے ڈی جی خان آنے لگا تو میں نے فون پر ان سے مشورہ کیا تو اپنے بیٹے کے نکاح کے سلسلے میں ایبٹ آباد تھے، مصروف ہونے کی وجہ سے زیادہ بات نہ کرسکے تو کچھ دنوں بعد فون آیا کہ پریشان نہیں ہونا اور تمہیں ڈی جی خان میں کامیاب کریں گے۔ وقت نے وفا نہ کی، اللہ کے ہاں حاضری کا وقت آ گیا اور وہ اچانک اللہ کے حضور پیش ہو گئے۔

مجھے میرے بھائی اسحٰق شاہ صاحب نے بتایا تو یقین نہیں آیا کہ ابھی چند دن پہلے تو بات ہوئی تھی۔ ایسا لگا زندگی کے پیارے ساتھیوں میں سے ایک بہت پیارا ساتھی چلا گیا۔ میں تو انہیں یاد کر کے آنسوؤں سے رویا۔ میری اہلیہ بہت افسردہ ہوئی۔ میں نے اختر واہلہ سے بات کی تو کہنے لگے بہت رویا ہوں اس کی یاد میں۔ ترین صاحب اپنے بہت سے دوستوں کا ذکر کرتے ان میں اختر واہلہ کا میرے ساتھ زیادہ ذکر اس لئے کرتے کہ ان سے میرا تعلق بھی ہے۔

اس کے علاوہ حال ہی میں ریٹائر ہونے والے بلوچستان کے چیف سیکریٹری جناب فضیل اصغر کا ذکر بھی کرتے۔ فضیل صاحب کا ذکر اختر واہلہ سے بھی بہت سنا، ایک بار ملتان ان کے دفتر میں سرسری ملاقات ہوئی تھی۔ مرحوم ترین صاحب کو اپنی امی مرحومہ سے بہت پیار تھا۔ کچھ عرصہ قبل ہی تو ان کی وفات ہوئی تھی۔ کیا معلوم تھا ماں کی محبت اتنی جلدی اپنے پاس بلا لے گی؟ ترین صاحب کے دوست اور ان کی فیملی ان کے بارے میں میرے سے زیادہ جانتے ہیں مگر میرے انیس برس کے تعلق میں، میں نے انہیں ایک بہت اچھا انسان پایا۔

بطور ٹیم لیڈر وہ ایک بہترین ٹیم لیڈر تھے۔ انہوں نے کبھی کسی سے اونچی آواز میں بات نہیں کی۔ کوئی بات بری لگی بھی تو بلا کر، بٹھا کر سمجھا دیا۔ خوش اخلاق، خوش، لباس اور مسکرا کر بات کرنے والے انسان تھے۔ یقیناً اللہ تعالیٰ ان کو اپنے پاس پرسکون رکھے گا۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے اور لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے آمین ثم آمین۔ وہ میرے محسن ہیں، انہوں نے میری پیشہ وارانہ اور ذاتی زندگی میں پیش آنے والی ہر مشکل میں جہاں ممکن ہوا میرا ساتھ دیا اور جہاں مشورے کی ضرورت پڑی، مشورہ دیا۔ وہ میری دعاؤں میں ہمیشہ شامل رہیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments