بابا بھٹ اور شمس پیر جزیروں پر آباد عورتوں کے طبی مسائل


جزیرے کا لفظ سنتے ہی آپ کے تصور میں کیا آتا ہے؟

پام کے درختوں سے گھری چمکتی سنہری ریتلی زمین اور نیلگوں پانی جس میں کوئی گوری پاؤں بھگوئے تو ناخن کا گلابی پن تک صاف دکھائی دے۔

بس کچھ ایسا ہی تصور لئے میں اس سرخ کشتی میں سوار ہوئی تھی جو کیماڑی سے بھٹ جزیرے کو جا رہی تھی۔ ایک فلاحی تنظیم نے فارماسیوٹیکل کمپنی کے تعاون سے بھٹ اور بابا جزیروں کے باشندوں کے لئے مفت علاج معالجے کا ایک روزہ کیمپ کا اہتمام کیا تھا میں اس گروپ میں بصد شوق شامل ہوئی تھی مجھے سی سیکنیس ہوتی ہے لیکن پھر بھی مجھے سمندر سے عشق ہے کیونکہ عشق تو نام ہی محبوب کے جورو ستم کے باوجود چاہنے کا ہے۔ اس لئے چکراتے سر اور الٹتی آنتوں کو نظر انداز کر کے میں ہرے پانی کے اس عظیم مظہر سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔ بچپن کی ایک نظم یاد کے پچھواڑوں سے عود کر زبان پر در آئی تھی۔

ہرا سمندر گوپی چندر
بول میری مچھلی کتنا پانی

بیس منٹ کی کشتی رانی کے بعد ساحلی آبادی کے آثار نظر آئے اور کشتی کو لنگر انداز کر دیا گیا۔ پانی پہ ڈولتی نیا سے ٹوٹے پھوٹے چبوترے نما جیٹی پر چھلانگ لگانے کے لئے اپنے اندر سے ایام رفتہ کی اسپورٹس گرل کو آواز دینا پڑی۔ جیٹی سے گزر کر ہم جس جزیرے میں داخل ہوئے اس نے ہمارے خوبصورت تصور کو شدید صدمے سے دوچار کیا۔ بھٹ اور بابا 25000 نفوس پر مشتمل جڑواں جزیرے ہیں جن کا کل رقبہ 4 کلومیٹر اسکوائر ہے۔ بھٹ تین سو اور بابا چار سو سال سے آباد جزیرے ہیں لیکن جدید سہولتوں سے نا آشنا تنگ گلیوں اور اونچے نیچے مکانوں کے درمیان سے گزر کر جزیرے کے پرلے ساحل کے قریب بنے دیہی مرکز صحت پہنچنے کے دوران مجھے اس جزیرے پر پانچ ہزار سال پرانے موئن جو دڑو کا گمان گزرا۔

ترقی کی راہ پر کئی سو سال پیچھے منجمد یہ جزیرے، ارباب اختیار کی بے حسی کا نمونہ ہیں۔ ایک پرائمری اسکول اور ایک دیہی مرکز صحت کی عمارت تو بنا دی ہے ایماں کی حرارت والوں نے لیکن یہاں نہ کوئی ڈاکٹر آتا ہے نہ ٹیچر۔ سرکاری رجسٹر میں ضرور اندراج ہے مگر ان کی شکل شاذ و نادر دکھائی دیتی ہے۔ نجی اداروں نے تعلیم اور صحت کے ضمن میں کچھ کام کیا مگر پرانے دور کی ٹرنک کال کی طرح مختصر دورانیے کے بعد جلد ہی سلسلہ منقطع ہو گیا۔ چوتھائی لاکھ کی آبادی میں خواتین حاملہ بھی ہوتی ہیں لیکن یہاں ان کی دیکھ بھال اور زچگی کا کوئی انتظام نہیں۔

مرکز صحت پر مریضوں کا ازدحام تھا۔ جزیرے کے باسیوں کے لئے یہ صبح انوکھی تھی کہ الیکشن کے علاوہ بھی شہر سے ایک گروہ ان کے لئے آیا تھا۔ فارماسیوٹیکل کمپنی نے دواؤں کی وافر مقدار مہیا کی تھی۔ دوپہر ہونے تک ہم لگاتار مریضوں کے مسائل سننے اور حل کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ حاملہ خواتین، حیض کے مسائل کا شکار نو عمر لڑکیاں اور سن یاس کی پیچیدگیوں سے ستائی عورتیں جن کی بپتا شاید کبھی سنی ہی نہیں گئی کیونکہ ان جزیروں سے کراچی کے ہسپتالوں تک جانا جان جوکھم کا کام ہے۔ پانی اترا ہوتو حاملہ عورت اور مریض کو جیٹی سے کشتی میں اتارنا اور بھی مشکل ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ ایک دفعہ کے چیک اپ کے لئے سارا دن اور جیب میں بڑا سا چھید بھگتنا پڑتا ہے۔ اس لئے جب تک جان پر نہ بن آئے ان تکلیفوں کو سہتے رہنا ہی ان کا مقدر ہے۔

لنچ بریک میں میں نے مرکز صحت میں ملازم مقامی خاتون بلقیس سے ساحل پر لے چلنے کی درخواست کی۔ بلقیس آٹھ ماہ کی حاملہ تھی۔ کچھ پس و پیش کے بعد وہ ساتھ چلنے پر راضی ہو گئی۔ اس کے تامل کو ہم نے حمل پر منطبق کیا لیکن حقیقت ساحل پر پہنچنے کے بعد کھلی۔ جھینگوں کی آلائشوں سے اٹا ہوا تعفن زدہ گدلا ساحل دیکھ کر نیلگوں پانی سے اٹکھیلیاں کرنے کا خواب ریت کے گھروندے کی طرح ڈھے گیا۔ اور الگنی پر لگانے والی چٹکیوں کی اشد ضرورت کا احساس ہوا کہ حس شامہ کو گلوٹین کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ بلقیس نے بتایا کہ جزیرے کی عورتیں جھینگے صاف کرنے کا کام کرتی ہیں۔ اگرچہ اس کی برآمد سے حکومت کو خاصہ زرمبادلہ حاصل ہوتا ہے لیکن آلائش کے ٹھکانے لگانے کا کوئی خاطر خواہ انتظام نہیں کیا گیا۔

بھٹ جزیرے پر او پی ڈی ختم کر کے ہمیں بابا جزیرے پر جانا تھا۔ میں نے بلقیس کو اپنا بہت خیال رکھنے کہ ہدایت کی اور ہم کشتی میں سوار ہو کر آٹھ سو میٹر دور بابا جزیرے پہنچے۔ بابا کی جیٹی تو بھٹ سے بھی دگرگوں تھی۔ کئی بار حکومت نے ان جزیروں کی حالت سدھارنے کا وعدہ کیا اور کئی اسکیمیں متعارف کرائی گئیں۔ کچھ کام ہوا اور پھر اللہ اللہ خیر صلا۔ وہی کسمپرسی وہی بے چارگی۔

بابا سے کیماڑی اور پھر میٹرو پولیٹن کراچی کی طرف سفر کرتے ہوئے بھٹ اور بابا کے باشندوں کے بارے میں بچپن کی نظم کا ایک اور شعر یاد آتا رہا

ان کے دل میں اتنی ہمت
بیچ سمندر جتنا پانی
ماہر نسواں اور بے ہوشی کے ڈاکٹر کے درمیان، تلے اوپر کے بہن بھائی کا سا ناتا ہوتا ہے۔ تیری میری بنے نہیں اور تیرے بنا سرے نہیں۔ سرکاری ہسپتال میں بے ہوشی کا ڈاکٹر چھوٹا نواب ہوتا ہے لیڈی ڈاکٹر منت سماجت کر کے انہیں بلا پاتی ہیں۔ کسی کیس کے لئے انہیں کال کیا جائے تو لمبی چوڑی جرح کریں گے اور اگر موصوف کی تشفی ہو جائے تو تشریف لائیں گے۔ اس رات بھی ایک مریضہ کی کئی گھنٹے درد زہ کے باوجود زچگی نہیں ہو سکی تھی اور آپریشن کا فیصلہ کیا گیا۔ ان کال بے ہوشی کے ڈاکٹر صاحب کو فون کیا تو حسب معمول ایک سوالنامہ کھول دیا۔ ”کب سے لیبر میں ہے صبح تک ٹرائل نہیں دیا جاسکتا کیا؟“

میں نے کہا ”آئن ڈونلڈ نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ درد زہ سے گزرنے والی عورت پر سورج دو بار طلوع نہیں ہونا چاہیے“

”چند گھنٹوں بعد جو سورج طلوع ہوگا وہ پہلا ہوگا یا دوسرا؟“ انہوں نے جرح کی
”دوسرا“
”تو اگر آپ چند گھنٹے اور نارمل ڈیلیوری کا موقع دے دیں تو کیا بہتر نہیں ہوگا“

میں رات کے دو بجے آپ کو ابسٹیٹرکس نہیں پڑھا سکتی میں سمجھتی ہوں کہ ماں اور بچے کے لئے آپریشن ضروری ہے۔ اگے آپ کی مرضی ”میں نے قطعیت سے کہہ کر فون بند کر دیا۔

تھوڑی دیر بعد میرے کمرے کے دروازے پر دستک ہوئی۔ مین نے دروازہ کھولا تو بے ہوشی کے ڈاکٹر صاحب کھڑے تھے انہوں نے نہایت معصومیت سے فرمایا ”مجھے ابسٹیٹرکس پڑھنی ہے“

میں نے مریضہ کو آپریشن تھیٹر شفٹ کرنے کی ہدایت دی اور تھیٹر کی طرف بڑھی ہی تھی کہ ایمرجنسی میں تعینات ڈاکٹر حواس باختہ مجھے پکارتی ہوئی آئی۔ میں اس کے ساتھ ایمرجنسی میں چلی آئی۔ کاؤچ پر بلقیس بے سدھ پڑی تھی اس کا رنگ لٹھے کی سفید تھا میری انگلیوں کے نیچے اس کی نبض محسوس نہیں ہو رہی تھی میں نے اسٹاف کو مانیٹر لگانے کو کہا۔ ہمراہ آنے والی دائی نے بتایا ”بچہ تو ہو گیا تھا لیکن آنول کھینچتے وقت۔

یہ جملہ تشخیص کی جانب واضح اشارہ تھا۔ میں نے معائنہ کر کے تشخیص کنفرم کی اور بند مٹھی سے کوٹ کی الٹی آستین کی طرح الٹ کر باہر اترے ہوئے رحم کو جگہ پر دھکیلا۔ بلقیس uterine inversion کی وجہ سے شاک میں گئی تھی اور چونکہ بھٹ سے کراچی کے طویل سفر کی وجہ سے شاک کو فوری طور پر ٹھیک نہیں کیا جا سکا اس لئے بلقیس کارڈیک اریسٹ میں چلی گئی تھی۔ یہ اس کی خوش قسمتی تھی کہ بے ہوشی کا ڈاکٹر وارڈ میں ہی تھا ایک لمحے کی تاخیر کیے بغیر اس نے ٹیک اوور کیا اور اس کی پیشہ ورانہ مہارت سے مانیٹر پر دل کی دھڑکن نمودار ہو گئی اس کے ساتھ ہی ہماری دھڑکنوں کی بے ترتیبی کو بھی قرار آیا ہم نے اطمینان کی سانس لی اور بلقیس کو مصنوعی تنفس کی مشین پر ڈال کو پوسٹ کارڈیک اریسٹ کیئر کے لئے آئی سی یو شفٹ کر دیا گیا رحم کو سکیڑے رکھنے کی دوائیں اور خون دیا گیا۔

چوبیس گھنٹے بعد وہ طبعی طور پر سانس لینے کے قابل تھی۔ تین دن بعد جب وہ ڈسچارج کی جا رہی تھی تو میں سوچ رہی تھی بلقیس کو تو بچا لیا گیا لیکن کتنی حاملہ عورتیں جو وقت پر نہیں پہنچ پاتی ہوں گی ان کا کیا ہوتا ہوگا۔ ان کا کیا قصور ہے کہ یوں بے موت ماری جائیں۔ اگر جزیرے پر ایک مکمل سہولتوں سے آراستہ میٹرنٹی یونٹ بنا دیا جائے اور کراچی کے تمام ٹیچنگ اسپتالوں کے ہر ریزیڈنٹ پر لازم کر دیا جائے کہ ٹریننگ کے ہر سال ایک ماہ جزیرے کے میٹرنٹی وارڈ میں کام کرنا ہوگا تو شاید کئی قیمتی جانیں بچائی جاسکیں۔

نوٹ: یہ پرانا واقعہ ہے لیکن حالات میں چنداں تبدیلی نہیں آئی۔ 25 اگست 2021 وزیر اعلیٰ سندھ نے بابا بھٹ اور شمس پیر جزیروں کے لئے چھ سو ملین روپے کی نئی اسکیم کا اعلان کیا ہے اس میں میٹرنٹی کا علیحدہ سے ذکر نہیں۔ خدا کرے کہ نئی اسکیم سے ارباب بست و کشاد کے علاوہ جزیرے کے باشندگان بھی استفادہ کرسکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments