“پاکستان میں سائنس کی درسی کتابوں میں سائنس پڑھائی جاتی ہے یا دینیات؟” کے جواب میں


پاکستان بلکہ پورے عالم اسلام کی درسی کتابوں میں سائنس پڑھائی جاتی ہے، نہ ہی اسلامی دینیات

یکم ستمبر کے ’ہم سب‘ میں سائنس کے ایک مایہ ناز پاکستانی پروفیسر ڈاکٹر پرویز ہود بھائی کا ’ایکسپریس ٹرائبیون‘ کے لئے لکھا گیا ایک مضمون ”پاکستانی طلبہ سائنس سے بیزار کیوں ہیں؟“ شائع ہوا ہے۔ مضمون کے آخر میں حاصل مطالعہ کی حیثیت سے یا قارئین کے لئے فوڈ فار تھاٹ کے طور پر ایک سوال ”سائنس کی درسی کتابوں میں سائنس پڑھائی جا رہی ہے کہ دینیات؟“ بھی رکھا گیا ہے۔ درج ذیل مضمون اس سوال کا جواب دینے کی کوشش پر مشتمل ہے۔

خود ڈاکٹر ہود بھائی Zed Books London سے 1991 میں شائع ہونے والی اپنی کتاب Islam and Science: Religious Orthodoxy and the Battle for Rationality میں ”Dilemma of an Interventionist Deity and a universe autonomously running in accordance with unchanging Laws of Nature“ کے مسئلہ کی صورت میں اسلام اور سائنس میں عدم مطابقت کی بنیادی وجہ کی نشاندہی کر چکے ہیں۔ دین کا گہرا فہم رکھنے والے علمائے دین یا سائنسدانوں کی طرف سے اس کا کوئی مسکت جواب، آج تک میری نظر سے نہیں گزرا۔

اگرچہ خود ڈاکٹر ہود بھائی کے پاس بھی اس کا کوئی جواب نہیں ہے، تا ہم ڈاکٹر ہود بھائی ہمارے شکریے کے مستحق ہیں کہ انہوں نے مسلمانوں میں سائنسی علوم کی ترقی کی راہ میں حائل نہایت اہم دینیاتی رکاوٹ کی نشاندہی کی ہے۔ میری سمجھ کے مطابق جب تک مسلمان علماء، قرآن پاک کی سند کے ساتھ اس سوال کا جواب تلاش نہیں کر لیتے، مسلمانوں میں تجربی سائنسز (ایمپیریکل سائنسز) میں تحقیق اس طرح پروان نہیں چڑھ سکتی جس طرح غیر مسلم معاشروں میں پروان چڑھی ہے۔

روایتی طور پر مسلمان اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ اللہ کائنات کا خالق ہے اور کائنات اس کی تخلیق۔ کائنات میکانکی طور پر جن قوانین فطرت کے مطابق چل رہی ہے وہ بھی اللہ ہی نے تخلیق کیے ہیں۔ قوانین فطرت، اللہ کی قدرت کے تابع ہیں۔ اللہ کی قدرت قوانین فطرت کے تابع نہیں۔ اللہ جب چاہے، نظام کائنات میں مداخلت کر سکتا ہے اور قوانین فطرت کو تبدیل یا معطل کر سکتا ہے۔ یہ روایتی مسلم نظریہ، اللہ کو ایک مداخلت کار خدا (Interventionist Deity) اور معجزات کو ما فوق الفطرت واقعات ( جن کی کوئی تشریح لاز آف نیچر کی بنیاد پر نہیں کی جا سکتی) کے طور پر تصور کرتا ہے۔

جدید تجربی سائنس (ایمپریکل سائنس) جس کا آغاز نیوٹن کے مکینیکل سائنسی نظریہ کائنات سے شروع ہوتا ہے اور جو اس وقت آئن سٹائن کے اضافیتی سائنسی نظریہ کائنات کی صورت میں پوری دنیا میں رائج ہے، کائنات میں کسی ما فوق الفطرت قوت کی مداخلت کو تسلیم نہیں کرتی۔ اس سائنسی نظریہ کائنات کے مطابق، کائنات میں رونما ہونے والا ہر واقعہ اصولی طور پر قوانین فطرت (لاز آف نیچر) کے مطابق ہی واقع ہوتا ہے خواہ عملاً ہم اس کی تشریح کبھی بھی نہ کر پائیں۔

اس نظریہ کے مطابق، کائنات میں کسی ما فوق الفطرت قوت یا مداخلت کار خدا (Interventionist Deity) کے عمل دخل کو تسلیم کرنا، کائنات میں لاز آف نیچر کی کارفرمائی اور تجربی سائنسز پر انسان کے اعتماد کو سخت مجروح، اور سائنسی تحقیق و ترقی میں رکاوٹ پیدا کرتا ہے، اور مظاہر فطرت کی لاز آف نیچر کی بنیاد پر سائنسی تشریح کے تصور کو نقصان پہنچاتا ہے۔ ایسا نظریہ کائنات جو ما فوق الفطرت واقعات کے رونما ہو سکنے کو تسلیم کرتا ہو، کی بنیاد پر کسی جدید تجربی سائنس کی بنیاد نہیں رکھی جا سکتی۔

پروفیسر ہود بھائی کے مطابق، مسلم معاشروں میں سائنسی ترقی کے راستے میں سب سے بڑی دینی رکاوٹ نا قابل تغیر قوانین فطرت کے تحت چلنے والی خود کار سائنسی کائنات کے مداخلت کار خدا کے ساتھ مطابقت اور ہم آہنگی کا مسئلہ ہے۔ پروفیسر ہود بھائی اس مسئلہ کو اپنی مذکورہ بالا کتاب میں dilemma of an interventionist deity ’‘ کے نام سے پیش کرتے ہیں۔ پروفیسر ہود بھائی کے مطابق جب تک اس مسئلہ کا تسلی بخش حل تلاش نہیں کر لیا جاتا، اسلامی عقائد کے مطابق کسی جدید ایمپیریکل سائنس کی تشکیل ممکن نہیں۔

موجودہ آرٹیکل میں اس معضلہ (dilemma) کا حل تلاش کرتے ہوئے یہ دکھانے کی کوشش کی گئی ہے کہ نہ صرف پاکستان بلکہ پورے عالم اسلام کی درسی کتابوں میں سائنس پڑھائی جاتی ہے نہ ہی دینیات، اور اس وقت تک نہیں پڑھائی جا سکتی جب تک قرآن پاک کی تعلیمات کی روشنی میں اس مسئلہ کا حل تلاش نہیں کر لیا جاتا۔ یہ آرٹیکل ہماری کتابوں ’مسلم فکر کی قرآنی جہات‘ (2018) اور انگریزی کتاب The The The Qur ’anic Theology, Philosophy and Spirituality (2016) میں شائع ہونے والے چند مضامین کا مختصر سا خلاصہ ہے۔ یہ دونوں کتابیں ReseaechGate, Academia.edu, http://www.quranwithscience.com /essays-articles.html سے فری ڈاؤن لوڈ کی جا سکتی ہیں۔ اس کے علاوہ خاص اسی موضوع پر ایک انڈیپنڈنٹ آرٹیکل بھی وہاں موجود ہے۔

ہمارے فہم قرآن کے مطابق مسلمانوں کے روایتی نظریہ کی حیثیت سے اوپر بیان کیا گیا عقیدہ، جو کائنات کو اللہ کے تخلیق کیے گئے قوانین فطرت کے مطابق چلنے والے ایک خود کار نظام، اور اللہ کو ایک مداخلت کار خدا کی حیثیت سے دیکھتا ہے، قرآن پاک کی تعلیمات سے مطابقت نہیں رکھتا۔ یہ روایتی عقیدہ یا مسلم نظریہ کائنات، جو نیوٹن کی مکینیکل سائنس کے رد عمل کے طور پر وجود میں آیا، اتنا ہی غیر اسلامی ہے جتنا کہ اس کا پیشرو اشاعرہ کے نظریہ جواہر (atomism) کے نام سے صدیوں سے رائج نظریہ کائنات تھا جس کی بنیاد پر کسی ایمپیریکل سائنس کا وجود میں آنا قطعاً محال تھا۔ (یہاں نظریہ جواہر پر تبصرہ کرنا ممکن نہیں۔ تفصیل کے طالب اوپر بیان کی گئی کتابیں دیکھ سکتے ہیں۔) اس وقت صرف جدید مسلم روایتی نظریہ کائنات ہی ہمارے زیر بحث ہو گا، جو حال پر مسلمانوں میں رائج ہے۔

اس کے مطابق، اللہ خالق ہے، اور کائنات (اور لاءز آف نیچر ) اس کی تخلیق ہیں۔ اللہ قدیم (ایٹرنل eternal) ہے، باقی ہر شے اپنی انفرادی اور کائنات اپنی مجموعی حیثیت میں حادث (contingent) ہے۔ قوانین فطرت بھی حادث ہیں اور اللہ کی قدرت کے تابع ہیں۔ کائنات ان قوانین کے مطابق خود کار (آٹانومس) ہے لیکن اللہ جب چاہے کائنات میں مداخلت کر کے ان کے فنکشن کو معطل یا تبدیل کر سکتا ہے۔

( 1 ) ہمارے فہم کے مطابق جو چیز اس روایتی نظریہ کائنات کو غیر اسلامی بناتی ہے، اس کی غیر قرآنی وجودیات (آنٹالوجی) ہے۔ آپ اسے غیر قرآنی میٹا فزکس بھی کہہ سکتے ہیں۔ قرآنی یا اسلامی میٹا فزکس کے مطابق، اللہ کو قدیم (eternal) کہنا درست نہیں۔ قرآن پاک اللہ تعالیٰ کے لئے قدم، ازل، ابد، یا دوام کے الفاظ استعمال نہیں کرتا۔ اگر اللہ کو ماضی، حال، مستقبل میں تقسیم پذیر سیریل ٹائم کے اعتبار سے ازلی کہا جائے تو اللہ تعالیٰ اور اشیائے کائنات میں صرف یہی فرق رہ جاتا ہے کہ کائنات کی ہر شے کا آغاز متصور ہوتا ہے جبکہ خدا کے آغاز کا تصور نہیں کیا جا سکتا، کائنات کی ہر شے زمانی اعتبار سے محدود ہے جبکہ اللہ لا محدود ہے، لیکن اپنی نوعیت کے اعتبار سے اللہ بھی اشیاء کائنات کے مماثل ویسے ہی ایک زمانی ہستی ہے جیسے باقی دیگر اشیاء۔

ظاہر ہے اللہ کو اشیاء کے مماثل قرار دینا قرآنی تعلیمات کے منافی ہے جیسا کہ فرمایا گیا ہے : ”کوئی شے اللہ کے مثل نہیں“ ۔ قدیم/ازلی کا دوسرا تصور یہ ہے کہ اللہ کو پہاڑی کی چوٹی پر بیٹھے ہوئے شخص کی طرح ماضی، حال، مستقبل سے ماوراء تصور کیا جائے۔ جیسے پہاڑ کی چوٹی پر بیٹھے ہوئے شخص کے سامنے کا منظر بھی ویسے ہی یقینی اور متعین ہوتا ہے، جیسے اس کی پشت پر واقع منظر۔ سیریل ٹائم سے ماورائیت (transcendence) کے مفہوم میں خدا کی ازلیت کا یہ تصور مستقبل کو خدا کے سامنے ویسے ہی متعین بنا دیتا ہے جیسے ماضی اور حال خدا کے سامنے متعین ہوتا ہے۔

اس سے خدا اور انسان دونوں پر جبریت (determinism) لازم آتی ہے۔ کائنات میں آزادی کا کوئی جواز نہیں بچتا۔ اللہ بھی اپنے ازلی علم کے سامنے ویسے ہی مجبور ٹھہرتا ہے، جیسے انسان یا کائنات کی کوئی دیگر شے۔ ازلیت کا یہ غیر زمانی تصور، خدا کے لئے حوادث کے علم کو جب وہ وقوع پذیر ہو رہے ہوں، ممکن نہیں رہنے دیتا۔ ازلیت کا یہ تصور نہ صرف انسانی اختیار کی نفی کرتا ہے بلکہ ماورائے زمان خدا کے ارادے اور نئی تخلیق کی اہلیت کی بھی نفی کر دیتا ہے، اور کائنات کو ازل سے فکسڈ بنا دیتا ہے۔

چنانچہ یہ میٹا فزکس جو خدا کو قدیم اور کائنات کو حادث تصور کرتی ہے اور حقیقت (ریئلیٹی) کا ادراک صرف خالق اور مخلوق کے تصور پر استوار کرتی ہے، قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ کے ارادہ اور علم کے تصورات کے ساتھ ہم آہنگ نہیں رہتی۔ انسان کے ارادی اخلاقی افعال، اور معجزات سمیت ہر شے ازل سے طے قرار پاتی ہے۔ ازلیت/قدم (eternity) کا یہ تصور اللہ تعالیٰ کے ارادہ اور علم اور امر کے تصورات کو بھی بے معنی بنا دیتا ہے۔

مسلم فلسفیوں اور مذہبی علماء نے ان تضادات سے نکلنے کے لئے جو کوششیں کی ہیں ان میں ایک قابل ذکر کوشش حضرت علامہ اقبال ؒ کی ہے جنہوں نے مستقبل کے پیشگی علم الٰہی (ڈیوائن فور نالج) کو مستقبل کے لامحدود امکانات کے علم کی صورت میں دیکھنے کی کوشش کی ہے۔ بظاہر یہ نظریہ جیسا بھی دکھائی دیتا ہو، یہ بھی تضادات سے خالی نہیں۔ اللہ ہمیشہ سے ہے۔ اس کی ہمیشگی کی کوئی حد نہیں۔ اس کی ہمیشگی انسان کے ہر وہم و گمان سے ماوراء ہے۔

اگر خدا کا مستقبل کا پیشگی علم، لا محدود امکانات کی صورت میں، ہمیشہ سے (جب سے خدا ہے ) خدا کے ساتھ ہے تو پھر خدا، مستقبل کے ان امکانات کا خالق نہیں ہو سکتا۔ پھر یہ ماننا پڑے گا کہ موجودہ کائنات اپنی لا محدود امکانات کی صورت میں ہمیشہ سے خدا کے ساتھ تھی۔ جو چیز ہمیشہ سے خدا کے ساتھ یا اس کے متوازی ہو، خدا اس کا خالق نہیں ہو سکتا۔ خدا کے مستقبل کے علم کا یہ تصور، قرآن پاک میں دیے گئے خدا کے ارادے، امر اور خلق کے تصورات کے ساتھ ہم آہنگ نہیں رہتا جس کے بارے میں فرمایا گیا ہے : ”اور کیا وہ جس نے آسمانوں اور زمین کو خلق فرمایا، ان کی مثل خلق کرنے پر قادر نہیں ہے! کیوں نہیں وہی تو خلق فرمانے والا ہے۔ اس کا امر تو یہی ہے کہ جب کسی شے کا ارادہ فرمائے تو کہتا ہے کہ ’ہو جا‘ وہ فوراً ہو جاتی ہے۔“ سورہ یٰسین آیت نمبر 81۔ 82

حضرت علامہ اقبالؒ کا ارشاد ہے :
خشت اول چوں نہد معمار کج

تا ثریا می رود دیوار کج

حضرت علامہؒ جیسے عالم و فاضل بھی اپنی تمام تر ذہانت و فطانت کے باوجود ٹیڑھی بنیاد پر استوار اس نظریہ کے تضادات سے چھٹکارا پانے میں کامیاب نہیں ہو سکتے جب تک کہ اس بات کو نہ پہچان لیں کہ اس نظریہ کی بنیاد جس فلسفیانہ دینیات (میٹا فزکس یا آنٹالوجی) یعنی ”خدا خالق ہے، اور باقی ہر شے مخلوق۔ خدا قدیم/ازلی (ایٹرنل) ہے اور باقی ہر شے حادث“ پر ہے وہ قرآن پاک کی تعلیمات سے متصادم ہے۔ قرآن پاک کی میٹا فزکس (آنٹالوجی) کے مطابق ”اللہ ہر شے کا ابدا کرنے والا (Absolute Originator) ہے۔

ہر وہ شے جس کا اللہ سے ابدا ہوا ہے، وہ محض خلق ہی نہیں ہو سکتی۔ وہ اللہ کی ’خلق‘ کی کیٹیگری سے تعلق رکھتی ہو گی یا اس کے ’امر‘ کی کیٹیگری سے۔ اللہ کا ’امر‘ قدیم (ایٹرنل) ہے نہ ہی اللہ کی ’خلق‘ ۔ دونوں حادث ہیں۔ علم الٰہی میں امکانات کی صورت میں بھی یہ قدیم ہیں نا ہی خدا کے متوازی۔ اللہ کو قدیم/ازلی کہنا بھی اتنا ہی غیر قرآنی ہے جتنا کہ حادث کہنا۔ اللہ، زمان و مکان کے تمام تصورات سے ماوراء ہے۔

اللہ ’الدھر‘ (زمانہ) نہیں ہے نا ہی ’الدھر‘ اللہ کا نام ہے جیسا کہ بعض علماء نے علمی مغالطے کی بنا پر سمجھا ہے۔ اللہ مطلق طور پر یکتا اور بے مثل (سنگولرلی یونیک) ہے۔ وہ ہر انسانی تصور، قیاس، خیال، تاثر، وجدان اور روحانی واردات کی من مانی تعبیر سے ماوراء ہے۔ اللہ کے بارے میں بے سند بات کرنا اللہ پر افتریٰ باندھنا (concoction) ہے، اور اس سے منع فرمایا گیا ہے۔ (القرآن، 4 : 171 ) حکم الٰہی ہے :“ ۔ اور اللہ پر نہ کہو مگر حق۔ ”( 4 : 169 )

آئیے دیکھتے ہیں کہ ہماری بیان کی گئی اس دینیات (میٹا فزکس، آنٹالوجی) کی بنیاد پر خدا اور کائنات میں تعلق کا کیا نظریہ تشکیل پاتا ہے اور وہ روایتی مسلم نظریہ کائنات (جسے ہم نے غیر اسلامی قرار دیا ہے ) سے کیسے مختلف ہے۔ یہ بھی دیکھتے ہیں کہ اس کی بنیاد پر ایک اسلامی تجربی سائنس کی بنیاد کیسے رکھی جا سکتی ہے۔

قرآن پاک الوہی انتظام و انصرام کے تحت چلائی جانے والی کائنات (divinely administered universe) کا تصور دیتا ہے۔ ”dilemma of an interventionist deity۔“ روایتی مسلم تصور کائنات کے غلط تصور کی بنیاد پر پیدا ہوا ہے۔ اس روایتی مسلم تصور کائنات میں پہلے سے یہ فرض کر لیا جاتا ہے کہ کائنات ایک خود کار نظام ہے جو اللہ کے مقرر کردہ قوانین فطرت کے تحت چل رہا ہے اور معجزات کا مطلب خدا کا نظام کائنات میں دخل انداز ہو کر قوانین فطرت کے عمل کو معطل یا تبدیل کر دینا ہے۔

لیکن معاملہ تو اس کے بالکل بر عکس ہے۔ اسلام میں کائنات بے خدا نہیں، اللہ کی تخلیق ہے۔ کائنات صرف طبیعی حقیقت نہیں، اللہ کا ’امر‘ بھی اس کے اندر ودیعت ہے جو خلق کی ہر شے کو اس کے مقصد تخلیق کے دائرے میں متحرک رکھتا ہے اور ریگولیٹ کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ خود ’خلق‘ (کریشن) ہے نہ ’امر‘ (کمانڈ) ۔ وہ فزیکل ہے اور نا، نان فزیکل۔ وہ نیچرل ہے ناسپر نیچرل۔ وہ ’خلق‘ اور ’امر‘ اور ان سے وابستہ ہر چیز کو عدم سے وجود میں لانے والا (Originator) ہے اور خود ان کے ساتھ کسی طرح کی مماثلت سے ماوراء ہے۔

تمام تعینات کا خالق ہے مگر خود تمام تعینات سے ماوراء ہے۔ کائنات کو ایڈمنسٹر ہی وہ کر رہا ہے۔ اللہ تمام کائنات کو اس کے اندر قوانین فطرت کی صورت میں انسٹال اپنے ’امر‘ کے ذریعے چلا رہا ہے۔ ساری کائنات اس طرح اس کے احاطہ علم میں ہے، احاطہ قدرت میں ہے کہ کوئی تین لوگ نہیں ہوتے، چوتھا وہ ہوتا ہے ؛ کوئی پانچ لوگ نہیں ہوتے چھٹا وہ ہوتا ہے۔ مداخلت کا سوال تو تب پیدا ہو جب کائنات کوئی خود کار (آٹانومس) نظام ہو۔

کائنات تو قوانین فطرت کے مطابق چل ہی اس لیے رہی ہے کہ اللہ کا ’امر‘ قوانین فطرت کی صورت میں ان کے اندر کارفرما ہے اور اس کی خلق کو اس کے علم، حکمت اور ارادے کے مطابق چلا رہا ہے۔ سائنسی تحقیق یا قوانین فطرت کو دریافت کرنے کی کوشش در اصل ’خلق‘ یعنی اشیاء، واقعات یا مظاہر فطرت کے اندر کار فرما اللہ کے ’امر‘ کو دریافت کی کوشش ہوتی ہے۔ قوانین فطرت کی صورت میں مظاہر کائنات کے اندر کارفرما اللہ کے امر کی دریافت ہی واقعات کی سائنسی تشریح کہلاتی ہے۔

اسی سے سائنسی پیش بینی اور مظاہر فطرت پر کنٹرول کی صلاحیت حاصل ہوتی ہے۔ اسی سے پھر ٹیکنالوجی وجود میں آتی ہے۔ جن واقعات یا مظاہر کی سائنسی تشریح سے انسانی فہم عاجز رہتا ہے، جنہیں معجزات یا ما فوق الفطرت واقعات کا نام دے دیا جاتا ہے، ہوتے وہ بھی عین فطری واقعات ہیں۔ قرآن پاک میں فرمایا گیا ہے کہ: ”اللہ کے امر کے بارے میں انسان کو قلیل ہی علم دیا گیا ہے۔“ (القرآن، 17 : 85 ) اللہ اپنے امر کے ذریعے ہی خلق کے اندر تدبیر فرماتا ہے جیسے کہ ارشاد ہے : ”اللہ ہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں خلق فرمایا، پھر عرش پر استویٰ فرمایا۔ آسمان سے زمین کی طرف امر کی تدبیر فرماتا ہے۔“ (القرآن، 32 : 4۔ 5 ) (القرآن، 32 : 4۔ 5 )

اللہ کی رضا کو پانے کی خاطر کائنات کا مطالعہ، اسے ریگولیٹ کرنے والے لاز آف نیچر (جو اللہ کی خلق کے اندر اس کے امر کی حیثیت سے کارفرما ہیں ) کی دریافت، اس علم کے مطابق ٹیکنالوجی کی ایجاد، اور مخلوق خدا کی بھلائی کے لئے اس کا استعمال ہی اسلام میں ایمپیریکل سائنسز کی بنیاد ہے اور اسلامائزیشن آف سائنسز کا اصول فراہم کرتا ہے۔ یہ آنٹالوجی (میٹا فزکس) قرآن پاک کے اندر موجود ہے اور کسی بھی طرح قرآنی تعلیمات سے متصادم نہیں جیسا کہ ارشاد باری ہے :

”آگاہ رہو، خلق بھی اسی کی ہے، امر بھی اسی کا ہے۔ (سورہ الاعراف 7، آیت نمبر 54 )“
”امر نازل ہوتے رہتے ہیں ساتوں آسمانوں اور زمین کے بمثل دیگر زمینوں میں، ۔“ (القرآن، 65 : 12 )
”امر وحی فرمائے اللہ نے سات آسمانوں میں، ہر آسمان کے لئے۔“ (القرآن، 41 : 12 )

جو دینیات (تھیالوجی) دسویں سے بارہویں عیسوی صدیوں کے دوران اسلامی دینیات کی حیثیت سے تشکیل پذیر ہوئی، اور تقریباً ایک ہزار سال سے اشعری علم الکلام کے نام سے عالم اسلام میں رائج ہے، معتزلی دینیات سے بہت بہتر ہونے کے باوجود، اس کی بنیاد بھی قرآن پاک سے متصادم آنٹالوجی ( میٹا فزکس ) پر ہے۔ اس لیے پاکستان ہی نہیں، بلکہ پورے عالم اسلام کی درسی کتابوں میں جو سائنس اور دینیات پڑھائی جاتی ہے، نہ وہ سائنس اسلامی ہے اور نہ ہی دینیات۔ (تفصیل کے طالب ResearchGate پر موجود آرٹیکل The dilemma of an interventionist deity کو سٹڈی کریں۔)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments