پارا چنار دھماکہ…. ریاست کے لیے خوفناک انتباہ


\"\"پارا چنار بم دھماکے کی ذمہ داری قبول کرنے والے گروہ کو وفاقی وزیرداخلہ کی اعلان کردہ تعریف کے مطابق فرقہ پرست قرار دیا جائے گا کیوں کہ دھماکے کا نشانہ بننے والے ایک مخصوص فرقے سے تعلق رکھتے تھے۔ مذکورہ”فرقہ پرست“ گروہ نے اپنے خودکش بمبار کی تصویر بھی شائع کردی ہے جب کہ جدید ترین آلات سے لیس سیکورٹی ٹیم نے فوری طور پر اس دھماکے کو فروٹ کی پیٹی میں رکھے ہوئے بارود کا شاخسانہ قرار دیا تھا۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق مبینہ خودکش بمبار کے جسم کے حصے بھی تلاش کر لیے گئے ہیں۔ اگر حکومتی موقف کو سنا جائے تو یہ ایک فرقہ وارانہ بم دھماکہ تھا جس نے پچیس افراد کو ہلاک کیا اور درجنوں زخمی ہوئے۔ ابھی وزارت داخلہ کے اُس اعلان کا انتظار ہے جس کے مطابق دہشت گردانہ قتل و غارت اور فرقہ وارانہ قتل وغارت کے مرتکب افراد سے الگ الگ سلوک روا رکھا جائے گا۔ ہمارے ہاں مجرمانہ غفلت اور کور چشم نااہلی کی اتنی زیادہ مثالیں پائی جاتی ہیں کہ اِن کا تدارک بذات خود ایک نئے آپریشن کا متقاضی ہے کیوں کہ اجتماعی طور پر ایک لاکھ کے قریب پاکستانی شہریوں کی جانیں گنوانے کے باوجود ہم ابھی تک اُس بنیادی نقطے پر اُلجھے ہوئے ہیں، جس کو بیس سال پہلے ہی تسلیم کر لیا جانا چاہیے تھا کہ دہشت گرد کون ہے اور دہشت گردی سے ریاست اور اس کے شہری کس قسم کے نقصانات کا سامنا کرتے ہیں۔

ہم بحثیت مجوعی گذشتہ ایک سال سے خوشی کے ترانے بجا رہے ہیں کہ پاکستان میں سے دہشت گردی کے تقریباً تمام ناسور ختم کر دیے گئے ہیں اور جو چند دہشت گرد گروہ تھے وہ یا تو نیست و نابود ہوچکے ہیں یا پھر تتر بتر ہوگئے ہیں ۔ کبھی ہمارے ہاں ایک پاکستان تحریک طالبان ہوا کرتی تھی، لشکر جھنگوی کے چند سر پھرے دہشت گرد تھے یا پھر چھوٹے چھوٹے چند بے نامی دہشت گروہ تھے جو بیرونی طاقتوں کی مدد سے پاکستان میں انتشار پھیلانے کی کوشش کرتے تھے۔ سب کا بلا امتیاز خاتمہ کر دیا گیا ہے اور ملک میں سے اِن دہشت گرد گروہوں کے تمام نیٹ ورکس ختم کر دیے گئے ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے دہشت گردی کے واقعات، روزانہ پولیس مقابلوں میں خطرناک دہشت گردوں کی ہلاکتوں کے واقعات، سیکورٹی اہلکاروں پر آئے روز ہونے والے جان لیوا حملے، بم دھماکے اور فرقہ وارانہ قتل و غارت کا سلسلہ جاری ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ہمارے زبردست ذرائع ابلاغ نے اپنی سمت تبدیل کر لی ہے اور ملک میں جاری دہشت گردی کے واقعات کی بجائے اس کا ہدف پانامہ لیکس اور اس طرح کے دوسرے معاملات ہیں۔ ہمارے زبردست دانشوروں کو کوئٹہ، پشاور، کراچی اور ملک کے دوسرے شہروں دہشت گردی کے واقعات میں مارے جانے والے پاکستانی شہری نظر نہیں آتے۔ ابھی چند دن پہلے کوئٹہ میں بم دھماکوں میں مارے جانے والے درجنوں وکلا کو ہمارے ذرائع ابلاغ کی توجہ حاصل نہیں پائی اور نہ ہی اس قتل وغارت کے بعد بننے والے کمیشن کی رپورٹ پر کہیں کوئی ردعمل سامنے آیا ہے۔

اگر دہشت گردی کے شکار ممالک اور معاشروں کی حالیہ تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ مذہب و مسالک کی جنگوں میں پروان چڑھنے والی دہشت گردی محض معمولی قسم کا انتظامی مسئلہ نہیں بلکہ گھمبیر مسائل کی عسکری جہت کا نام ہے جس کی جڑیں سماجی ڈھانچے میں پیوست ہوتی ہیں بلکہ اِنہیں بظاہر نامساعد حالات میں بھی آگے بڑھنے اور پروان چڑھنے کے مواقع ملتے رہتے ہیں۔ ہمارے سامنے عراق، شام اورلیبیا جیسے معدوم ہوتے ممالک کی مثالیں موجود ہیں جہاں کچھ عرصہ پہلے مذہبی انتہا پسندی اور فرقہ واریت آمرانہ انتظامی ڈھانچوں کے نیچے دبی ہوئی تھیں، لیکن پھر اچانک ہی حالات نے پلٹا کھایا اور سب کچھ سامنے اُبھر آیا۔ پاکستانی ریاست گذشتہ تین عشروں سے مذہبی انتہا پسندی اور مسلکی تشدد کا شکار ہے اور اس کے ہزاروں شہری مارے جا چکے ہیں۔ ریاست کے فیصلہ ساز اداروں میں اس حوالے سے ایک گہرا ابہام پایا جاتا ہے کہ مذہبی انتہا پسندی اور فرقہ وارانہ تشدد مقامی ہیں یا اِن کے تانے بانے ملکی سرحدوں کے باہر ہیں۔ اجتماعی اور طاقت ور نقطہ نظر یہ ہے کہ دہشت گردی و انتہا پسندی کے سوتے ملکی سرحدوں سے باہر پھوٹتے ہیں اور پاکستان کی دشمن ریاستیں اِنہیں پاکستان میں اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ قومی دشمنوں میں دور پار کی مغربی ریاستوں کے علاوہ قرب و جوار میں پائی جانے والی کئی دوسری ریاستیں بھی شامل ہیں، جو بظاہر کبھی ہماری دوست ہوتی ہیں اور اکثر و بیشتر دشمن۔ ملکی انتظامی ڈھانچہ جہاں نہ صرف کمزور ہے بلکہ اکثر اوقات منقسم بھی دکھائی دیتا ہے۔ عام مشاہدہ ہے کہ ملک میں دہشت گردی میں ملوث کرداروں کو غیر ملکی سازش قرار دیا گیا لیکن وہ خود اعلان کرتے پائے گئے کہ وہ کلی طور پر مقامی ہیں اور مقامی طور پر دہشت گرد حملوں کو جائز اور برحق سمجھتے ہیں۔ کئی ایسے گروہ بھی سامنے آئے جن کے وجود سے ہم انکاری تھے لیکن وہ ہر دہشت گرد حملے کے بعد ذمہ داری قبول کرتے اور اپنے موجود ہونے کا ثبوت فراہم کرتے رہے۔ جو حملے کررہے تھے وہ حملوں کا جواز پیش کرتے رہے اور ثبوت سامنے لاتے رہے، لیکن جن کے خلاف یہ حملے ہو رہے تھے وہ انکار کرتے رہے اور حملہ آوروں کو تسلیم کرنے سے انکاری رہے۔

اس کے بعد پشاور میں سکول حملے کے بعد ضرب عضب نامی فوجی آپریشن کے ذریعے ملک کے قبائلی علاقوں میں دہشت گردوں کے ٹھکانے تباہ کردیے گئے اور ملک کے اندر بعض حصوں میں دہشت گرد اور فرقہ پرست تنظیموں کے نیٹ ورکس کو توڑ دیا گیا اور یقینی طور پر اس اقدام سے ملک میں جاری دہشت گردی کے واقعات میں نمایاں کمی واقع ہوئی۔ لیکن یہ یاد رکھا جائے کہ دہشت گردی کے واقعات میں واضح کمی ضرور واقع ہوئی ہے لیکن دہشت گردوں اور دہشت گردی کے واقعات کا خاتمہ نہیں ہوا۔ حالیہ واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ دہشت گرد تیزی کے ساتھ دوبارہ متحد اور مضبوط ہورہے ہیں اور اپنے اہداف تک پہنچنے کی کامیاب کوششیں کررہے ہیں۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے افغانستان، شام عراق اور لیبیا میں برسرپیکار دہشت گرد کبھی پیچھے دھکیل دیے جاتے ہیں اور کبھی دہشت گرد دوبارہ آگے بڑھ جاتے ہیں یہی کچھ ہمارے ہاں بھی ہو رہا ہے اور اگر کل تک دہشت گرد کمزور تھے تو آج ایک مرتبہ پھر طاقت حاصل کر رہے ہیں اور ریاست کے شہریوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ اِن واقعات سے ریاست اور اس کے ذمہ داروں کو یہ واضح پیغام ملتا ہے کہ دہشت گردی کے کلی خاتمے کے لیے جزوقتی منصوبوں کی بجائے کل وقتی پالیسی اختیار کی جائے اور وقتی سیاسی فوائد کے حصول کے لیے متذبذب بیان بازی سے گریز کیا جائے۔ دہشت گردی کی شکار ریاستیں اگر انسداد دہشت گردی کی حکمت عملی کو جامع اور مستقل شکل نہیں دیتیں تو پھر اِنہیں نہ صرف مشکلات کا مستقل سامنا رہے گا بلکہ دہشت گرد مضبوط سے مضبوط تر ہوتے جائیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments