لبرل ازم کی اصل حققیت اور اسلامی نقطہ نظر 1


\"\"

مرزا غالب اورمولانا ابوالکلام آزاد کے حوالے سے تحقیقی کام میں مشہور مالک رام نے جب ”عورت اوراسلامی تعلیم“ کے عنوان سے اپنی ایک کتاب مولانا مناظر احسن گیلانی کی خدمت میں روانہ کی۔ کتاب ملنے کے بعد مولانا مناظر احسن گیلانی نے مالک رام کے نام اپنے مکتوب میں لکھا ہے کہ آپ کی یہ دلچسپ کتاب پڑھ جانے بعد بھی مجھے صحیح طور پراندازہ نہ ہوا کہ آپ کا تعلق ”اسلام“ سے کیا ہے؟ ”مالک“ لفظ عربی کا اقتضا جو کچھ ہے ”رام“ کے لفظ سے اس کی تردید ہو جاتی ہے ورنہ یوں توہماری ہندی یا بھارتی حکومت کے وزیراعظم ہی کے نام کا ایک جز ”جواہر“ بھی عربی ہے ”لال“ نے عربی رنگ کو ہندی رنگ میں بدل دیا۔

مالک رام کے نام اور اس کی اسلامی کتاب کو دیکھ کر مولانا مناظر احسن گیلانی کی جو کیفیت ہوئی تھی وہی کیفیت ہمارے ہاں ”لبرل مسلمان“ کی اصطلاح سن کر ہوتی ہے کہاں اسلام اورکہاں لبرل ازم۔ اس مسئلے پر ہمارے معاشرے میں جو فکری بعد اور فاصلہ پیدا ہوا ہے اس کا اندازہ آپ مندرجہ ذیل دو اقتباسات سے لگا سکتے ہیں۔ پچھلے دنوں فیس بک پر ایک دوست کی پوسٹ دیکھی جس کاعنوان تھا ”لبرل مسلمان نہیں ہوسکتا“۔ اس کے بعد اپنی اس رائے کی دلیل دیتے ہوئے انہوں نے فرمایا ہے کہ ”چونکہ لبرل ازم کہتا ہے کہ انسان ایک فرد کی حیثیت سے ہرطرح سے آزاد ہے اس لئے کوئی مذہب، الہامی یا روحانی ہدایت یا فلسفہ اسے اس کی آزادیوں سے محروم نہیں کرسکتا اس لئے کوئی مسلمان اسی طرح لبرل نہیں ہوسکتا جس طرح آگ اور پانی یکجا نہیں ہوسکتے“۔ اس سے چند دن بعد ایک لبرل دوست نے پوسٹ کی کہ ”آپ سب لوگ متفقہ طورپراپنے علماء کی ایک کمیٹی بنائیں اور ہر دیسی لبرل اس کمیٹی کے روبرو پیش ہو کر کلمہ طیبہ اور ایمان مجمل و مفصل سنائے اس کے جواب میں آپ لوگ اس کو ایک کارڈ ایشو کریں جس پرلکھا ہو کہ یہ شخص واقعی مسلمان ہے“۔

یہ دونوں پوسٹیں ہمارے معاشرے میں جاری اس کشمکش کی نمائندگی کرتی ہیں جو اسلام اور جدید مغربی نظریات کے درمیان جاری ہے۔

لیکن اس کشمکش میں کودنے سے پہلے بحیثیت ایک مسلمان اور بحیثیت ایک طالبعلم ہماری دیانتدارانہ ذمہ داری بنتی ہے کہ سب سے پہلے مدمقابل کی فکر کی نوعیت اوراس کی اصل بنیادوں سے آگاہی حاصل کریں کہ کیا واقعی ہمارے درمیان موجود خلیج پاٹے جانے کے قابل ہی نہیں ہے اور واقعی اس مقابل نظریے کی مخالفانہ فکر کی زد ہمارے عقائد اور ایمان پر پڑتی ہے یا پھر ہم نے کسی دوسری اقتصادی یا سیاسی مافیا کی مفادات کے تحفظ کو مذہبی رنگ دے دیا ہے؟

لبرل ازم کا بنیادی اورمحوری مطالبہ ”آزادی“ ہے۔ بنیادی طور پر آزادی کے تصورسے اسلام کو کوئی اختلاف نہیں۔ اسلام نے عقیدے میں اکراہ فی الدین کی نفی کی ہے۔ قرآن حکیم میں کسی ایک بھی مقام پر لوگوں کو تقلیدی طور پر ایمان لانے کاحکم نہیں دیا گیا ہے بلکہ محض ”آبا و اجداد“ کی پیروی میں دین حق سے منہ موڑنے والوں کو ان کی اس ذہنیت پر مطعون کیا گیا ہے۔ اس کے برعکس قرآن میں تقریباً پچاس مرتبہ عقل (ع ق ل) کا مادہ استعمال ہوا ہے اور ان میں سے ہرجگہ تعقل، تفکر اور تدبر پر زور دیا گیا ہے۔ مغربی جمہوریت کے بانیوں میں شمارہونے والے ژاں ژاک روسو نے اپنی شہرہ آفاق کتاب ”معاہدہ عمرانی“کے شروع میں یہ الفاظ لکھے ہیں کہ انسان آزاد پیدا ہوا تھا مگر میں اس کو زنجیروں میں جکڑا ہوا پاتا ہوں۔ مگر یہ الفاظ دراصل ان الفاظ کی بازگشت ہے جو روسو سے کئی صدیوں پہلے خلیفہ اسلام حضرت عمرفاروقؓ نے اپنے ماتحت گورنر عمرو ابن العاص کو مخاطب کرتے ہوئے کہے تھے کہ متی استعبدتم الناس وقدولدتھم امہاتھم احرارا (تم نے کب سے لوگوں کو غلام بنا دیا ہے حالانکہ ان کی ماؤں نے انہیں آزاد جنا تھا)۔

اسی طرح مسلم تاریخ میں علم التفسیر، علم الحدیث، علم الفقہ اورعلم الکلام، تفکر اور اظہار رائے کی آزادی کے بنیاد پر ہی مدون ہوسکے۔ خصوصاً علم العقائد کا تو نام ہی اس لیے علم الکلام پڑا۔ مورخ ابن خلکان نے محمد ابو الحسن معتزلی کے تذکرہ میں سمعانی سے نقل کیا ہے کہ چونکہ سب سے پہلا اختلاف جو عقائد کے متعلق پیدا ہوا وہ کلام الہی کے نسبت سے پیدا ہوا اس مناسبت سے علم عقائد کا نام علم کلام پڑ گیا۔ پھر علم کلام میں جو مسائل زیربحث آئے مثلاً ذات الہی، افعال الہی، صفات الہی، جبر و قدر، عقائد و اعمال اور عقل ونقل کی حیثیت، یہ تمام وہ امور ہیں جن کے حوالے سے قرآن و حدیث کی تصریحات اتنی کم ہیں کہ ان مسائل کے حل کے لئے مختلف کلامی مکاتب میں عقل کا ہی استعمال کیا گیا ہے اور اس کے باوجود ان کی طے کردہ آراء کو ”عقائد“ کے زمرے میں شامل کیا جاتا رہا ہے لہذا اسلام جبر کا قائل ہرگز نہیں ہوسکتا۔ یہ جبر ہی تھا جس نے اللہ کے پیغمبروں کے سامنے رکاوٹیں کھڑی کیں اور یہ جبر ہی تھا جو سائنسی دریافتوں اور ترقیوں کے راستے میں رکاوٹ رہا۔

اب لبرل ازم کے حوالے سے یہ بات درست ہے کہ کوئی بھی عنصر بشمول مذہب کے انسان کو آزادی سے محروم نہیں کرسکتا اور نہ ہی لبرل ازم نے ایک فرد کو کوئی بھی مخصوص عقیدہ رکھنے پر روک ٹوک لگائی ہے اس کے باوجود ہمارے ہاں لبرل ازم کے بارے میں عمومی تاثر یہ بنایا گیا ہے کہ وہ فرد کے لئے خدا اور مذہب پر یقین کی نفی کرتا ہے۔ اگراس غلط مفروضے کو برائے بحث درست سمجھا بھی جائے تب بھی سوال یہ پیدا ہو گا کہ جب لبرل ازم کی بنیاد انسان کی مطلق آزادی ہے تو پھر وہ کس اصول کے تحت ایک فرد کو کوئی عقیدہ اورمذہب قبول کرنے سے روک سکتا ہے؟ یعنی کیا ایک انسان کو ”لادینیت“ کا پابند بنانا خود لبرل ازم کی آزادی مطلق کی دعوے کی نفی نہیں؟ تو پھر کس بنیاد پر لبرل ازم پر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ ایک فرد کو کوئی عقیدہ اور مذہب قبول کرنے سے روکتا ہے؟

اس بنیاد پر جہاں تک میں سمجھا ہوں لبرل ازم کا مقصد ”مذہب کی آزادی“ تو ہو سکتا ہے لیکن ”مذہب سے لازمی آزادی“ نہیں۔

لبرل ازم کی اس آزادی کے اصول کے حوالے سے دوسری اہم بات یہ ہے کہ اس کی ضد اور مقابل اصطلاح فاشزم اور استبدادیت ہے نہ کہ مذہب۔ مذہب نے جس طر ح عقیدے میں اکراہ اورزبردستی کی نفی کی ہے اسی طرح حکومت میں بھی ”تسلط بالجبروت“کو مسترد کر دیا گیا ہے۔ فاشزم سے مراد وہ جابرانہ سیاسی سماجی اورمعاشی نظم ہے جو فرد کی اہمیت و حیثیت کا بالکل انکار کرتا ہے جیساکہ ہٹلر اپنی کتاب میں لکھتا ہے کہ فرد کے صرف فرائض ہوتے ہیں حقوق کوئی نہیں ہوتے یا پھرمسولینی کا یہ کہنا کہ یہ غیر فطری ہے کہ ریاست شہریوں کے حقوق کا تحفظ کرے۔ فاشسٹ نظام کی روح یہ تصور ہے کہ اہم یہ نہیں ہے کہ ریاست فرد کے لئے کیا کرسکتی ہے بلکہ اس سے کہیں زیادہ اہم یہ ہے کہ فرد ریاست کے لئے کیا کر سکتا ہے۔

دوسرا حصہ

لبرل ازم کی اصل حققیت اور اسلامی نقطہ نظر 2۔

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments