قائد اعظمؒ کا یوم وفات اور حیرت انگیز حقیقت


قلم فاؤنڈیشن کے چیئرمین علامہ عبدالستار عاصم صاحب اکثر و بیشتر اپنے ادارے کی بہترین کتابیں بھیجتے رہتے ہیں۔ ان کتابوں میں ایک کتاب ڈاکٹر صفدر محمود صاحب کی ”سچ تو یہ ہے“ میرے پاس بہت عرصہ پہلے آئی تھی۔ چونکہ میں خوفناک کرونا کا شکار ہو گئی تھی اور پھر بعد ازاں پوسٹ کووڈ پیچیدگیوں نے اس قدر الجھائے رکھا کہ سدھ بدھ بھی جاتی رہی اور جان کے لالے پڑے رہے۔ ڈاکٹر صفدر محمود صاحب کی کتاب پڑھنے میں دیر سے دیر ہی ہوتی گئی۔

اب پڑھنا شروع کیا تو پتہ چلا کہ یہ کتاب پاکستان کی تاریخ کو مسخ کرنے کی سازشوں اور قائد اعظمؒ سے بدظن کرنے کے من گھڑت الزامات اور نشرو اشاعت کو تاریخ کے مستند شواہد سے سچ کی سنہری کرنوں کو سامنے لانے کے مترادف ہے۔ محترم ڈاکٹر صفدر محمود کی یہ کتاب 40 مضامین پر مشتمل ہے۔ جس کے چند عنوانات کچھ یوں ہیں۔ قائد اعظم اور سوشلزم۔ قائد اعظم اور سیکولر ازم۔ قائد اعظم روحانی شخصیات کی نظر میں۔ دنیا جناح ملاقات۔

خواہش سے خواب تک۔ قائد اعظم کے آخری ایام اور سازشی افسانے۔ قائد اعظم اور عید۔ یوں تو یہ پوری کی پوری کتاب پڑھنے کے لائق ہے اور پوری کتاب کو کسی ایک کالم میں سمونا خاصا مشکل کام ہے۔ ڈاکٹر صفدر محمود پاکستان کے نامور دانشور، سابق بیورو کریٹ، محقق اور ادیب ہیں۔ ان دنوں ڈاکٹر صاحب شدید علیل ہیں۔ رب جلیل سے دعا ہے کہ انہیں صحت کاملہ عطا فرمائے۔ آمین! اس کتاب کو پڑھنے سے پتہ چلتا ہے کہ پاکستان اور قائد اعظم سے محبت ہی ان کا اوڑھنا بچھونا ہے۔

قائد اعظم مشکلات خطرات اور مزاحمتوں کے سامنے ہار ماننے شخص نہ تھے۔ ضعیف العمری اور شدید علالت کے باوجود پاکستان کے قیام کے ابتدائی دور میں انہوں نے ملک کی تعمیر و ترقی کے لیے کوئی کسر اٹھا نہ رکھی تھی۔ وہ ممتاز ترین رہنما تن تنہا تمام مسئلوں کو سلجھاتے رہے۔ جب وہ عوام کے درمیان ہوتے تو ان کے دل کی دھڑکن عوام کی دھڑکن بن جاتی۔ خرابی صحت کے باوجود قائد اعظم مسلسل کئی سالوں تک صرف کام ہی کرتے رہے۔ ”سچ تو یہ ہے“ پڑھنے کے بعد دل میں ارمان پیدا ہوتا ہے کہ اس کتاب کے ہر مضمون پر کچھ نہ کچھ لکھا جائے لیکن آج میں بات کروں گی قائد اعظم کے یوم وفات 11 ستمبر کے حوالے سے۔

ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں کہ دنیا میں سینکڑوں لیڈران کا انتقال ہوا ہے لیکن کسی میں بھی آپ کو وہ حسن اتفاق نہیں ملے گا جو قائد اعظم کے حوالے سے ایک منفرد حیثیت رکھتا ہے۔ مزید لکھتے ہیں کہ قدرت کے فیصلوں میں بعض اوقات ایسے راز ہوتے ہیں جن کا مقصد واضح پیغام دینا ہوتا ہے۔ جو لوگ حد درجہ تشکیک اور مادیت کے زیر اثر پائے جاتے ہیں وہ ایسے رازوں کو نہیں سمجھتے۔ ڈاکٹر صاحب اسی کالم میں لکھتے ہیں میرے ایک محترم دوست ریاضی کے استاد ہیں اور علم الاعداد میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں۔

انہوں نے فزکس کے ساتھ کائنات اور روحانیت کا مطالعہ بھی کر رکھا ہے۔ قصہ آگے بڑھاتے ہوئے لکھتے ہیں کہ قائد اعظم کے یوم وفات سے کچھ دن پہلے میرے موبائل اور وہی میسج پروفیسر صاحب کے موبائل پہ بھی موصول ہوا تھا۔ میں نے موبائل کے فضول پیغاموں کی طرح اسے پڑھنے کی بھی زحمت نہ کی۔ لیکن پروفیسر صاحب علم الاعداد کی روشنی میں اس میسج پہ غور کرتے رہے اور پھر اعلان کیا کہ قدرت نے پاکستان اور قائد اعظم کو لازم و ملزوم قرار دے دیا ہے۔

ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں کہ پروفیسر صاحب نے کہا! ڈاکٹر صاحب میں نے علم الاعداد کی روشنی میں امریکہ، ہندوستان اور بنگلہ دیش کا مطالعہ کیا ہے۔ حیرت ہے کہ مجھے وہ مماثلت یا قدرت کا راز کہیں نظر نہیں آیا جو قائد اعظم کی شخصیت میں ہے۔ ڈاکٹر صاحب آپ نے کئی برس پہلے ایک کالم میں لکھا تھا کہ قائد اعظم کا یوم پیدائش، یوم وفات، اور قیام پاکستان کا دن ایک ہی ہوتا ہے۔ مثلاً 2016 میں 14 اگست 11 ستمبر اور 25 دسمبر کا دن اتوار ہی ہے۔

زندگی و موت پر اختیار صرف اور صرف اللہ کے پاس ہے۔ انسان ان میں بے بس ہے۔ اس لیے اگر ان فیصلوں میں کوئی پوشیدہ حقیقت یا راز نظر آئے تو اسے سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ پروفیسر صاحب نے اپنے مشاہدے، ادراک اور احساس کے حوالے سے پاکستان کے کئی مرحوم لیڈروں کا ذکر کیا اور کہا کہ ان کہ ایام پیدائش و وفات کے ساتھ یہ معاملہ نہیں ہوا جو قدرت نے قائد اعظم کے ساتھ وابستہ کیا ہے۔ مجھے ان میں وہ مماثلت نظر نہیں آئی جس میں شہادت کے حوالے سے لیاقت علی خان بھی شامل ہو چکے ہیں۔

اٹھتے اٹھتے پروفیسر صاحب نے علم الاعداد پر دسترس کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا: ڈاکٹر صاحب قائد اعظم کے حوالے سے یہ تین ایام اہم اور بنیادی حیثیت کے حامل ہیں۔ ( 1 ) پیدائش 25 دسمبر ( 2 ) وفات 11 ستمبر ( 3 ) یوم پاکستان 14 اگست۔ اگر ریاضی کے حوالے سے دیکھیں تو 25 سے 11 منفی کریں تو 14 بچتا ہے جو ہمارا یوم آزادی ہے۔ اگر 25 سے 14 منفی کریں تو 11 ( قائد اعظم کا یوم وفات) جمع کریں تو 25 کا ہندسہ حاصل ہوتا ہے جو قائد اعظم کا یوم پیدائش ہے۔

اگر قدرت نے ان ہندسوں میں سے کسی ایک کو بھی تبدیل کر دیا ہوتا تو صورت حال مختلف ہوتی۔ بات ختم کرتے ہوئے پروفیسر صاحب نے اپنے علمی انداز میں کہا۔ ”ہے ناں حیرت انگیز، منفرد اور فکر انگیز حقیقت؟ اسی لیے میں اسے قدرت کا وہ راز کہتا ہوں جسے عیاں کرنا مقصود تھا۔ یہ سب پڑھ کر میں تو خود حیرت کے سمندر میں ڈوب گئی۔ جھٹ میں نے اپنے موبائل میں اس سال کا کیلنڈر کھول کر دیکھا تو 14 اگست، 11 ستمبر، 25 دسمبر سب کا دن ہفتہ ہے۔

حتیٰ کے پروفیسر صاحب کے مطابق 16 اکتوبر جو لیاقت علی خان کی شہادت کا دن ہے وہ بھی ہفتہ ہی ہے۔ یہ واقعی ہی ایک حیرت انگیز حقیقت ہے۔ جب قائد اعظم کوئٹہ تشریف لے گئے تو ان کی صحت بہتر ہو گئی لیکن پھر ستمبر کے اوائل ہی سے قائد اعظم کے ڈاکٹروں نے اندیشہ ظاہر کیا کہ اب ان کی صحت ٹھیک نہیں ہو گی۔ علالت کے باوجود اکثر عالم خواب میں ان کی زبان سے کشمیر، مہاجرین، آئین اور پاکستان کے الفاظ سنائی دیتے۔ قائد اعظم کہا کرتے تھے“ قوم نے جو کام میرے سپرد کیا ہے اور قدرت نے جس کے لیے مجھے مقرر کیا وہ کام پورا ہو گیا۔

پاکستان بن گیا ہے۔ اب یہ قوم کا کام ہے کہ وہ اسے ناقابل تسخیر اور ترقی یافتہ ملک بنائے۔ حکومت کا نظم و نسق دیانت داری اور محنت سے چلائے۔ میں تھک گیا ہوں۔ اب مجھے زندگی سے زیادہ دلچسپی نہیں رہی۔ ”11 ستمبر کو عزم و استقلال، فہم و فراست اور بصیرت کا لاثانی انسان اپنی قوم سے جدا ہو گیا۔ آسماں تیری لحد پہ شبنم افشانی کرے : آمین!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments