ملا عبدالسلام ضعیف: گوانتانامو بے میں انسانیت سوز مظالم


\"\"

(پہلا حصہ: طالبان کے سفیر عبدالسلام ضعیف اپنی گرفتاری کی روداد بیان کرتے ہیں)

طالبان کے سفیر ملا عبدالسلام کی کتاب ’مائی لائف ود دا طالبان‘ کے چند صفحات۔

جب میں گوانتانامو میں لایا گیا تو وہاں صرف ایک کیمپ تھا جس کے آٹھ بلاک تھے اور ایک قید تنہائی کا وارڈ تھا۔ وہاں اڑتالیس کمرے، دو چہل قدمی کی جگہیں، چار سادہ سے باتھ روم اور قید تنہائی کے چوبیس کمرے تھے۔ سرخ رنگ کے کپڑے کے بنے ہوئے موٹے اور کھردرے لباس دیے جاتے تھے جن کی رگڑ سے کچھ قیدیوں کو زخم ہو جاتے تھے۔ ہر قیدی کو دو دو کمبل، دو پانی کی بوتلیں، دو تولیے، ایک چھوٹی سی پلاسٹک کی چٹائی، ایک دانتوں کا برش اور ٹوتھ پیسٹ، ایک قرآن مجید، اور ایک ماسک دیا جاتا تھا۔ ایک عام سزا یہ دی جاتی تھی کہ پلاسٹک کی چٹائی کے علاوہ سب سامان واپس لے لیا جاتا تھا۔

جب دوسرا کیمپ تعمیر کیا گیا اور وہ جرنیل تبدیل ہوا جو ہمارا انچارج تھا، تو ہمارے لئے صورت حال تبدیل ہو گئی۔ ہمیں مختلف درجوں میں تقسیم کر دیا گیا اور سزائیں بدتر ہو گئیں۔ قید خانے کے کمرے بڑھ کر تین سو ہو گئے، قرآن پاک لے لئے گئے، ہماری دوبارہ حجامت بنا دی گئی اور تحقیقات کے دوران قیدیوں سے زیادہ گالم گلوچ کی جانے لگی۔

\"\"

نئے جرنیل کا نام ملر تھا اور اسے بعد میں عراق بھیج دیا گیا جہاں وہ بدنام زمانہ جیل خانے ابو غریب کا سربراہ مقرر کیا گیا۔ اس نے کیمپ ایکو قائم کیا جو کہ بہت تاریک جگہ تھی۔ کیمپ ایکو میں قید کرنے کے لئے مختلف جگہیں بنائی گئیں۔ ایک ایسی تھی جس میں ایک عام سے کمرے میں پنجرہ رکھا ہوا تھا جس کے سامنے باتھ روم تھا۔ کمرہ اور دروازہ ریموٹ کنٹرول کے ذریعے چلائے جاتے تھے اور ویڈیو کیمرے کے ذریعے چوبیس گھنٹے قیدیوں کی نگرانی کی جاتی تھی۔ کمرے کے اندر یہ بتانا مشکل تھا کہ یہ رات کا وقت ہے یا دن کا۔ بہت سے بھائی جو کہ ان کمروں میں قید کیے گئے وہ بعد میں نفسیاتی مریض بن گئے۔

جب آپ کمرے کے اندر چیخ رہے ہوتے تھے اور چوکیداروں کی توجہ حاصل کرنے کی خاطر کیمروں کے آگے ہاتھ ہلا رہے ہوتے تھے تو آپ کو کوئی نہیں سن سکتا تھا۔ کوئی کاپی کتاب یا دوسری چیز نہیں دی جاتی تھی اور قیدیوں کے پاس اپنے گرد کی چار دیواروں کے سوا کچھ نہیں ہوا کرتا تھا۔

گوانتانامو میں چند برس گزارنےکے بعد کئی قیدی نفسیاتی عوارض کا شکار ہو جاتے تھے۔ احمد کا تعلق مغرب سے تھا اور وہ برطانیہ ہجرت کر گیا تھا۔ وہ مذہبی تعلیمات کے لئے پاکستان میں مقیم تھا کہ گرفتار کر لیا گیا۔ وہ قندھار کے قید خانے میں میرا ہمسایہ تھا۔ وہ ان قیدیوں میں سے تھا جن کو ہر وقت ہتھکڑیاں اور بیڑیاں پہنا کر رکھی جاتی تھیں۔ آخر کار وہ شکست کھا گیا اور قید خانے کے حالات کی وجہ سے نفسیاتی مریض بن گیا۔ لیکن بجائے اس کے کہ اس کی مدد کی جاتی، اسے بار بار سزا دی جاتی اور مجھے یاد ہے کہ وہ کئی بار غش کھا جاتا تھا۔ جب اسے گوانتانامو لایا گیا تو اس کی حالت مزید خراب ہو گئی۔ ایک مرتبہ وہ میرے ساتھ والے پنجرے میں لایا گیا۔ رات بھر وہ قرآن پاک کی تلاوت کرتا اور نظمیں پڑھتا۔ وہ بار بار دعوی کرتا کہ حضرت مہدی اسی سال تشریف لائیں گے۔ وہ خود کو تسلی دے رہا ہوتا تھا۔ ایک دن اس نے ایک سپاہی کو اپنے کھانے کی پلیٹ دے ماری۔ اسے کیمپ ایکو بھیج دیا گیا جہاں اس نے تین برس گزارے۔

\"\"

احمد خوب تعلیم یافتہ تھا مگر قید نے اس کا دماغ الٹا دیا۔ سپاہی اچھی طرح سے جانتے تھے کہ وہ ڈپریشن کی بالکل آخری سٹیج کا شکار تھا مگر پھر بھی اس سے برا سلوک کیا جاتا اور مدد نہ کی جاتی۔ بہت سے دوسرے لوگ بھی تھے جو کہ نفسیاتی امراض کا شکار تھے جیسے ڈاکٹر ایمن، طارق یا عبدالرحمان۔ پاگل اور دیوانے تو خدا کی عدالت میں بھی بخش دیے جاتے ہیں مگر امریکی سپاہیوں کے سامنے نہیں۔

مجھے 2003 کے اوائل تک ڈیلٹا بلاک کے پنجرہ نمبر پندرہ اور گولڈ بلاک کے پنجرہ نمبر آٹھ میں قید رکھا گیا تھا۔ بعد ازاں مجھے کیوب بلاک کے پنجرہ نمبر سینتیس میں منتقل کر دیا گیا۔ میں اپنے پنجرے سے سمندر اور گزرتے ہوئے بحری جہاز دیکھ سکتا تھا لیکن جلد ہی مجھے الگ بنے ہوئے پنجروں میں لے جایا گیا جہاں میں نے بہت وقت گزارا۔

شروع میں ہمیں ہفتے میں ایک مرتبہ نہانے کی اجازت تھی اور ہم بندھے ہاتھوں کے ساتھ پندرہ منٹ چہل قدمی کر سکتے تھے۔ بعد میں وقت بڑھا کر ہفتے میں دو مرتبہ تیس تیس منٹ کر دیا گیا۔ ہمارے کپڑے ایک ہفتے کے بعد تبدیل کیے جاتے تھے۔ ایک طویل مدت تک ہم اپنی داڑھی نہیں تراش سکتے تھے اور ناخن نہیں کاٹ سکتے تھے۔ بعد میں ہمیں ہفتے میں ایک مرتبہ نیل کٹر اور ریزر استعمال کرنے کی اجازت دے دی گئی۔

\"\"

ہمیں ناشتے اور رات کے کھانے میں فوجی راشن کی بجائے تازہ پکا ہوا کھانا دیا جانے لگا اور اگلے برس دوپہر کا کھانا بھی تازہ ملنے لگا۔ کھانا دینے والا سپاہی یہ فیصلہ کرتا کہ ہر قیدی کو کتنا کھانا ملے گا لیکن یہ کھانا ایسے پکایا جاتا کہ اس کا کوئی ذائقہ نہیں ہوتا تھا۔ یہ بہت تھوڑا ہوتا تھا اور ہم اکثر بھوکے رہتے تھے۔ دن میں تین مرتبہ تازہ پھل دیا جاتا جو کہ ایک بڑی رعایت لگتی تھی۔

ہمیں پانچ نمازیں ادا کرنے کی اجازت تھی حتی کہ رات کی نماز کا بھی اعلان کیا جاتا تھا۔ سپاہی اذان کی ٹیپ چلاتے تھے اور خود بھی اس کی نقل اتارتے تھے لیکن پھر بھی ہم سورج کو دیکھ کر درست وقت کا فیصلہ کرتے تھے۔ بعد میں ہمیں جماعت کی اجازت بھی دے دی گئی۔ قید تنہائی کے کمروں میں نماز ادا کرنا مشکل تھا۔ عام طور پر یہ اندازہ کرنا مشکل تھا کہ کیا وقت ہوا ہے اور قیدیوں کو اپنے اندازے سے ہی نماز ادا کرنی پڑتی تھی۔

جب تیسرا کیمپ تعمیر ہو تو حالات مزید خراب ہو گئے۔ ہمیں کم کھانا ملنے لگا، اس کا معیار خراب ہو گیا اور سزائیں بڑھ گئیں۔ کیوب بلاک تو ایک مثال تھا، نیا بنایا ہوا اور رہنے کے حالات بہت مشکل تھے۔ صرف انڈر وئیر میں ملبوس قیدیوں کو کھلے پنجروں میں موسم سے بے نیاز ہو کر چھوڑ دیا جاتا تھا۔ حتی کہ وہ نماز کے لئے بھی خود کو ڈھانپ نہیں سکتے تھے۔ بہت کم کھانا دیا جاتا اور سپاہی قیدیوں سے گالم گلوچ کرتے تھے۔ ٹائلٹ کے اندر ہر شخص کی نظر پڑتی تھی اور پنجرے اتنے بڑے نہیں تھے کہ قیدی لیٹ کر سو سکتے۔

\"\"

سردی کے موسم میں بہت زیادہ ٹھنڈ ہو جاتی تھی۔ قیدی اوپر نیچے اچھل کر خود کو گرم کرنے کی کوشش کیا کرتے تھے۔ بدترین چیز وہ ہوتی تھی جب ٹائلٹ بلاک ہو جاتے تھے۔ بول و براز کی بو سے تمام بلاک تعفن آلود ہو جایا کرتا تھا۔ ہمیں خود کو صاف کرنے کے لئے ٹائلٹ پیپر یا پانی نہیں دیا جاتا تھا اور ہم اپنے ہاتھوں سے ہی صفائی کرتے تھے لیکن بعد ازاں یہ ہاتھ نہیں دھوئے جا سکتے تھے۔ قیدیوں کو بعد میں انہیں گندے ہاتھوں سے کھانا کھانا پڑتا تھا۔

خود کو انسانی حقوق کا محافظ قرار دینے والے ہمیں اس طرح رہنے پر مجبور کرتے تھے۔

قیدیوں کو کیوب بلاک میں ایک سے لے کر پانچ مہینے کے دورانیے تک رکھا جاتا تھا۔ وہ قیدی جو خود کو کنٹرول نہیں کر پاتے تھے زیادہ مدت تک رہتے تھے۔ ایک الگ بلاک نفسیاتی امراض کے شکار قیدیوں کے لئے تعمیر کیا گیا تھا جس میں قید بیشتر قیدی شدید ڈپریشن کا شکار تھے اور خودکشی کرنا چاہتے تھے۔ جب میں وہاں تھا تو وہاں روزانہ ہی خود کشی کی کوششیں کی جاتی تھیں۔ بعد میں ان کو زنجیروں سے باندھ کر باربیٹیوریٹ کے انجیکشن لگا کر پرسکون کیا جاتا تھا۔ ان میں سے کئی قیدی ان انجیکشنوں کے نشے کے عادی ہو گئے۔


طالبان کے سفیر عبدالسلام ضعیف اپنی گرفتاری کی روداد بیان کرتے ہیں

گرفتاری کے وقت ملا عبدالسلام ضعیف سفیر نہیں تھے

جب ملا عبدالسلام ضعیف امریکیوں کو دیے گئے

ملا عبدالسلام ضعیف: امریکی بحری جہاز کا قیدی

ملا عبدالسلام ضعیف: قندھار کا قیدی نمبر 306

ملا عبدالسلام ضعیف: ریڈ کراس، مسیحا یا جاسوس؟

ملا عبدالسلام ضعیف: قندھار کیمپ میں قرآن پاک کی بے حرمتی

ملا عبدالسلام ضعیف غداری پر آمادہ نہ ہوئے 

ملا عبدالسلام ضعیف گوانتانامو بے میں

ملا عبدالسلام ضعیف: گوانتانامو بے اور ریڈ کراس کا کردار

ملا عبدالسلام ضعیف: گوانتانامو کے پہرے دار

عبدالسلام ضعیف: گوانتانامو کے مرتد اور جاسوس قیدی

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments