امریکہ 20 برس قبل کی نسبت اب محفوظ ہے: وزیرِ دفاع لائیڈ آسٹن


امریکی وزیرِ دفاع لائیڈ آسٹن (فائل فوٹو)

امریکی وزیرِ دفاع لائیڈ آسٹن نے کہا ہے کہ امریکہ 20 برس قبل کی نسبت اب زیادہ محفوظ ہے اور اس کی دفاعی اور اہداف کو نشانہ بنانے کی صلاحیتوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔

نائن الیون کی 20 ویں برسی کے موقع پر وائس آف امریکہ کی کارلا باب کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں آسٹن نے کہا کہ امریکہ افغانستان میں بڑھتے ہوئے خطرات پر نظر رکھے ہوئے ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ چین کی وجہ سے درپیش خطرات سے بھی توجہ نہیں ہٹائے گا۔

کارلا باب کے سوال پر کہ امریکہ نائن الیون کے ہول ناک حملوں کے 20 برس بعد کس حد تک اب محفوظ ہے؟ لائیڈ آسٹن نے کہا کہ اگر دیکھا جائے تو 20 برس کے دوران امریکہ کی کسی بھی ممکنہ خطرے کو بھانپنے، تجزیہ کرنے اور کھوج لگانے کی صلاحیت میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ امریکہ کے کسی بھی ہدف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت میں کئی گنا اضافہ ہوا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ بطور حکومت معلومات کے تبادلے، بہتر کوآرڈنیشن کے باعث کسی بھی تصادم سے بچنے کی اہلیت بھی بڑھ گئی ہے۔ لہٰذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہم پہلے سے زیادہ محفوظ ہیں۔

البتہ لائیڈ آسٹن کا کہنا تھا کہ جن ممالک میں حکومتوں کی عمل داری کمزور ہے وہاں دہشت گرد عارضی طور پر اپنا ٹھکانہ بنا کر کسی دوسرے ملک کے خلاف دہشت گردی کر سکتے ہیں۔

اُن کا کہنا تھا کہ ہمیں ادراک ہے کہ دہشت گرد ایسے ممالک میں اپنی جڑیں مضبوط کر سکتے ہیں جہاں حکومتوں کی رٹ کمزور ہے۔

امریکی وزیرِ دفاع کا کہنا تھا کہ اس ضمن میں افریقہ بالخصوص صومالیہ میں دیکھا گیا ہے کہ وہاں دہشت گردوں نے اپنے ٹھکانے بنائے ہیں۔

اس سوال کے جواب میں کیا اب امریکہ صومالیہ میں فوج بھیجے گا؟ آسٹن نے کہا کہ یہ فیصلہ کرنے کے لیے یہ مناسب فورم نہیں ہے۔

افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا اور انٹیلی جنس اندازوں کے برعکس طالبان کے کابل پر جلد قبضے کے سوال پر امریکی وزیرِ دفاع کا کہنا تھا کہ انٹیلی جنس معلومات میں کئی امکانات ظاہر کیے گئے تھے جو وقت کے ساتھ ساتھ تبدیل ہوئے۔ البتہ ہم اس کا جائزہ لیں گے اور دیکھیں گے کہ مستقبل میں ہم کس طرح اس ضمن میں بہتری لا سکتے ہیں۔

امریکی وزیرِ دفاع کا کہنا تھا کہ افغانستان سے امریکی شہریوں اور امریکہ کے لیے کام کرنے والوں کے انخلا کے لیے نوجوان امریکی فوجیوں نے زبردست کام کیا۔

اُن کا کہنا تھا کہ ان نوجوان فوجیوں نے ایئرپورٹ کے دفاع کے ساتھ ساتھ چھ ہزار امریکی شہریوں سمیت ایک لاکھ 24 ہزار افراد کا محفوظ انخلا کیا۔

آسٹن کا کہنا تھا کہ ہوائی جہازوں کی گنجائش اور زمینی حالات کے تناظر میں ان نوجوان امریکی مرد و خواتین فوجیوں نے شان دار کارکردگی دکھائی۔

خیال رہے کہ 26 اگست کو کابل ایئرپورٹ کے باہر شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ (داعش) کی جانب سے کیے گئے خود کش حملے میں 13 امریکی فوجیوں سمیت ڈیڑھ سو سے زائد افراد ہلاک ہو گئے تھے۔

اس سوال کے جواب میں کہ کیا امریکہ کو امریکی باشندوں اور امریکہ کے لیے کام کرنے والوں کے انخلا کا عمل جلد شروع کرنا چاہیے تھا؟ آسٹن کا کہنا تھا کہ انخلا کا عمل شروع کرنے کا فیصلہ اس وقت کے انٹیلی جنس تخمینوں اور حالات کے تناظر میں کیا گیا تھا۔

خیال رہے کہ 15 اگست کو کابل پر طالبان کے غیر متوقع قبضے کے باعث کابل ایئرپورٹ پر ملک چھوڑنے کے خواہش مند افراد کا رش بڑھ گیا تھا جس کی وجہ سے ایئرپورٹ پر افراتفری اور ہنگامہ آرائی کے مناظر دیکھنے میں آئے تھے۔

 

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments