امریکی فوج میں خواتین فوجیوں کا جنسی استحصال


اٹھارہ سالہ ایشیا گراہم کا تعلق امریکہ کی ریاست نارتھ کیرولینا سے تھا۔ وہ ابھی ہائی اسکول سے نکلی ہی تھی کہ اس نے اپنے مرحوم باپ کے نقش قدم پہ چلتے ہوئے اپنا نام ملٹری میں ملازمت کے لیے درج کروا دیا۔ باپ کے مرنے کے بعد مالی طور پہ جلد از جلد اپنے پاؤں پہ کھڑے ہونے کا مقصد اپنی ماں نکول گراہم کو ہمیشہ اپنے ساتھ رکھ کر اس کی ضروریات زندگی کا خیال رکھنا تھا۔ وہ سفید نژاد ماں اور افریقی نژاد باپ کی بہت ذمہ دار اور حساس بیٹی تھی۔ ان کا غریب خاندان ایک ٹریلر ہاؤس میں رہتا تھا جہاں سردی سے بچاؤ کے لیے ہیٹنگ بھی مہیا نہ تھی۔ فوج میں داخلے کے وقت ادارے کی جانب سے یہ یقین دلایا گیا کہ فوج ایک ”خاندان“ کی مانند ہے۔ اسے خوشی تھی کہ ملک کی خدمت کے لیے وہ اس کا حصہ بننے جا رہی ہے لیکن اسے کیا خبر تھی کہ قسمت کیا گل کھلانے والی ہے۔

جولائی 2019 میں ایشیا نے پورے جوش و جذبے سے ملٹری جوائن کی۔ بطور سپاہی اس کی تعیناتی فورٹ بلس ٹیکساس میں ہوئی۔ لیکن دسمبر 2019 میں وہ اپنے ہی ایک ساتھی سپاہی کے ہاتھوں جنسی تشدد کا شکار ہوئی۔ ایشیا نے اس زیادتی کی خبر اپنے نان کمیشن افسر کو دی جس نے اسے سنجیدگی سے نہ لیتے ہوئے چین آف کمانڈ کے مطابق مشورہ دیا کہ فلاں سے بات کرو۔ ایشیا نے خاتون سارجنٹ سے بات کی تو اس نے بجائے مدد کرنے کے یہ کہا کہ ”جب وہ آئی تھی تو اس کے ساتھ بھی اسی قسم کا تجربہ ہوا تھا۔“ غرض بجائے جنسی تشدد کرنے والے اس افسر کے خلاف کوئی کارروائی کرنے کے ہر شخص نے اپنا دامن بچانے کی کوشش کی۔ حالانکہ مایوسی اور ڈپریشن کے ان لمحات میں وہ ان کی مدد، انصاف اور تھرپی کی طلبگار تھی۔ جو اس کو نہیں ملی۔ اس کی مایوسی، بے بسی اور شدید اداسی نے اسے منشیات کے استعمال کا عادی بنا دیا۔ اس واقعہ کے ایک سال بعد نئے سال کا سورج دیکھنے سے پہلے 31 دسمبر 2020 کو انیس سالہ ایشیا اپنے بیرک میں مردہ پائی گئی۔ اس نے ڈرگ اوور ڈوز کے ہاتھوں خودکشی کرلی تھی۔ نئے سال کے آغاز میں امریکہ کے جھنڈے میں لپٹی اس کی لاش گھر پہنچا دی گئی۔ اس کی ماں نے روتے ہوئے کہا ”یہ کیسا“ خاندان ”ہے جو لوگوں کر ریپ ہونے دیتا ہے اور ان کی حفاظت نہیں کرتا؟“

ایسا ہی کچھ 2017 میں مینیسوٹا کی اکیس سالہ آرمی پرائیویٹ سیکنڈ کلاس نکولس برمن کے ساتھ ہوا۔ اس کی پہلی پوسٹنگ ساؤتھ کوریا کے کیمپ کیسی میں ہوئی۔ ملازمت شروع کرنے کے دو ماہ کے اندر اسے زبردستی زمین پہ لٹا کر فوج کے افسران نے اجتماعی جنسی زیادتی کا شکار بنایا گیا۔ اس واقعہ کے بعد بھی ایک بار پھر اسے جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ یہی نہیں اس کے حملہ آوروں نے سوشل میڈیا کو اس کے خلاف استعمال کرتے ہوئے اسے فاحشہ اور بدکردار جیسے القابات سے نوازا۔ اس کے تحفظ کے ذمہ دار افسراننے جانتے بوجھتے ہوئے بھی اس سائبر بلنگ کے کیس کو نظر انداز کیا۔ پھر جب نکولس نے امریکہ واپس تبادلہ کی درخواست کی تو انتظامیہ نے اس پروسس میں تین ماہ لگا دیے۔ انتہائی ڈپریشن اور مایوسی کے عالم میں جب وہ والدین کے پاس امریکہ پہنچی تو خوف کے مارے اپنے کمرے کا دروازہ لاک کر کے کمرے میں ہی رہتی۔ اور رات کو دروازہ کے سامنے ڈریسنگ ٹیبل لگا لیتی تاکہ کوئی اندر نہ داخل ہو سکے۔ گھر میں دو ہفتہ کی چھٹیوں کے بعد اس کی تعیناتی کولوراڈو اسپرنگ کردی گئی۔ جہاں چند دنوں کے بعد اس کے کمرے کے کلوزٹ میں اس کی لاش لٹکی ہوئی ملی۔ امریکہ کے پرچم میں لپٹی اس کی میت اس کے گھر پہنچا دی گئی۔ اس کے باپ نے روتے ہوئے کہا ”جنگ کی صورت میں تو فوج (امریکی) ہزاروں کی تعداد میں فوجی دستے چوبیس گھنٹوں کے اندر دوسرے ملک میں اتار دیتی ہے۔ وہ میری بیٹی کو جنسی زیادتی کے بعد واپس (امریکہ) نہ بھیج سکے؟“

یہ حیرت کی بات ہے کہ امریکہ جو دنیا کے ممالک مثلاً ویتنام، عراق، جرمنی، جاپان، افغانستان وغیرہ میں حملہ آور ہو کر ان کی دھرتی ماں کی بڑی ڈھٹائی سے آبرو ریزی کرتا رہا ہے، اپنے اس دعوی کے ساتھ کہ وہ ان کی حفاظت کا ذمہ دار ہے، تمامتر دولت کے باوجود خود اپنی فوجی بیٹیوں کی عزت کی حفاظت کرنے سے قاصر ہے۔ اور اعداد و شمار کے مطابق لڑکیاں ہی نہیں فوجی مردوں کی بھی ایک بڑی تعداد ہے جو جنسی تشدد کا شکار ہے۔ ایسے فوجی نوجوانوں کی ایک طویل فہرست ہے کہ جنہوں نے جنسی تشدد اور اس کی شنوائی نہ ہونے کی وجہ سے فوج سے کنارہ کشی اختیار کی لیکن ایسے فوجیوں کی تعداد بھی کم نہیں جو اس تشدد کے ہاتھوں ذہنی امراض اور خودکشی کا شکار ہوئے۔

سچ پوچھیں تو امریکی فوج میں جنسی تشدد اور ہراس کی یہ صورتحال خاموش وبا کی صورت اختیار کر چکی ہے۔ ایک فوجی ہونے باوجود اس کے امکانات زیادہ ہیں کہ بجائے دشمن کی گولی کے آپ کا حملہ آور آپ کی اپنی فوج کا آپ سے زیادہ طاقتور انسان ہو بالخصوص رتبہ کی بنیاد پہ۔ کیونکہ جنسی تشدد طاقت کی بنیاد پہ قابو پانے کا نام ہے۔ اس میں دوست و دشمن کی تفریق نہیں کی جاتی۔

ایک تحقیقی اعداد و شمار کے مطابق امریکی فوج میں 2018 میں تخمینا 20، 500 فوجی جنسی زیادتی کا شکار ہوئے ہیں۔ یہ تعداد 2016 میں ہونے والے 14900 متاثر کیسز سے بہت زیادہ ہے۔ اتنی بڑی تعداد میں ہونے والے واقعات میں سے محض اعشاریہ پانچ فی صد کیسز ایسے ہیں جن میں حملہ آور مجرم قرار دیے گیے ہیں۔ اکثریت نے تو محض خوف کے مارے اس کی رپورٹ ہی درج نہیں کرائی۔ اور جنہوں نے شکایت کی بھی تو ان کی رسائی ایوان بالا تک نہیں ہوئی۔ اور اگر شکایت پہنچی بھی تو اکثر جانبداری کی نذر ہو گئی۔

ویسے تو فوج کے ہر ادارے میں عورتیں جنسی تشدد سے دو چار ہیں لیکن ملٹری میں ہر چار میں سے ایک تشدد کا نشانہ بنتی ہے۔ ان کی عمریں سترہ سے چوبیس کے درمیان ہیں یعنی اپنے کیریر کے ابتدائی دور میں قدم رکھے والی ناتجربہ کار لڑکیاں۔ اس سلسلے میں انصاف کے حصول میں ناکامی کا ذمہ دار چین آف کمانڈ Chain of command کو قرار دیا جاتا ہے۔ یعنی کسی شکایت کو سب سے پہلے اپنے سے فوری سینئیر کو رپورٹ کی جائے اور وہ اپنے سے اوپر والے کو۔ لیکن اکثر جنسی حملہ آور یا تو آپ کا سینئر ہوتا ہے اور یا اس سینئر کا دوست۔ پہلے سے کام کرنے والے ایک دوسرے کے ساتھی اور ایک سی سوچ رکھنے والے ذہن ہوتے ہیں۔ اور ایک دوسرے کے جرم پہ پردہ رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ زیادتی کی شکار لڑکی کو یقین دلاتے ہیں کہ اس واقعہ میں کوئی حقیقت نہیں بلکہ اس کی غلط فہمی ہے یا یہ کہ وہ جھوٹ بول رہی ہے۔ اکثر سب مل کر اس کو مستقل ہراس کرتے ہیں اور کبھی تو اجتماعی ریپ بھی کرنے سے باز نہیں آتے۔ چونکہ انصاف کے حصول کے لیے باہر سے انصاف کے بجائے فوجی کمانڈر ہی فیصلہ کرتے ہیں۔ انصاف کا حصول طرفداری اور نا انصافی کی نذر ہوجاتا ہے۔

ساری دنیا میں انصاف کا ڈھنڈورا پیٹنے والے ملک امریکہ کو ضرورت ہے کہ پہلے اپنی دھرتی میں انصاف کو یقینی بنا کر مثبت مثال پیش کرے۔ انصاف کے حصول کے لئے اہم ہے کہ نئے بہتر قوانین کی منظوری ہو اور جنسی زیادتی کے تمام کیسز میں فوج کی بجائے غیر جانبدار ادارے مقدمہ کی شنوائی اور انصاف مہیا کریں تاکہ جنسی تشدد سے زیادتی کی شکار ہزاروں لڑکیاں زندگی بھر کے ذہنی، جسمانی اور روحانی عذاب کی قید سے آزاد ہو سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments