عظیم سرور – جدید مزاحیہ ٹاک شو کی فارمیٹ کے بانی


عظیم سرور صاحب کے دنیا سے جانے کی اطلاع ملتے ہی یادداشت نے گویا مشین کی طرح کام کرنا شروع کر دیا۔ ریڈیو پاکستان پر کوئی چالیس برس پہلے نشر ہونے والا ان کا ایک مزاحیہ پروگرام، رنگ ہی رنگ جیدی کے سنگ، آج کل پاکستان کے بہت سے پرائیویٹ چینلز پر پیش کیے جانے والے مزاحیہ پروگرامز کے فارمیٹ کا منبع ہے۔

عظیم سرور صاحب کا یہ پروگرام انتہائی مقبول ہوا کرتا تھا، اچھی طرح یاد ہے کہ پروگرام شروع ہوتے وقت عموماً لوگ ریڈیو کے آگے بیٹھ جاتے تھے۔ ہمارے گھر میں بھی خیال رکھا جاتا تھا کہ پروگرام کے وقت ریڈیو بند نہ رہ جائے۔

پروگرام کا فارمیٹ یہاں سب سے قابل ذکر موضوع ہے۔ میزبان خود عظیم سرور ہوا کرتے تھے، وہ سنجیدہ انداز میں پروگرام شروع کرتے تھے، اور موضوع کا تعین بھی سنجیدگی سے کرتے تھے۔ پھر وہ پروگرام کے اہم اور مرکزی کردار ”جیدی“ سے مخاطب ہوتے تھے، سو یوں گفتگو میں مزاح کا عنصر حاوی ہو جایا کرتا تھا۔ یہ کہنے کی شاید اب بھی خاص ضرورت نہیں کہ ”جیدی“ کے کردار اس کردار کے خالق اطہر شاہ خان صاحب خود ادا کیا کرتے تھے۔

پروگرام میں ساجدہ حسن بھی ہوا کرتی تھیں۔ اور طے شدہ فارمیٹ کے تحت، ان کام گفتگو میں شرکت سے زیادہ جیدی کے جملوں اور فقروں پر زوردار انداز میں ہنسنا اور قہقہے لگانا ہوا کرتا تھا۔ ایک جانب جیدی کی پر مزاح گفتگو اور دوسری جانب عظیم سرور اور ساجدہ حسن کی خوبصورت اور جاندار آوازوں کے ساتھ، بروقت اور مفہوم سے بھر پور قہقہے، ریڈیو کے بنیادی تقاضوں کو بھرپور انداز میں پورا کیا کرتے تھے۔

گفتگو کے دوران اکثر عظیم سرور، جیدی کو احمقانہ اور غیر حقیقی قصوں پر ٹوکا کرتے تھے، وہ بارہا جیدی کی بات کو کاٹ کر، ان کے مزاح کو، سنجیدگی کے پیرائے میں بیان کرنے لگتے تو کبھی جیدی سے کم از کم خاص معاملات پر سنجیدہ ہو جانے کی تلقین کرتے، یوں یہ نوک جھونک مزید دلچسپی کا باعث بنتی اور پھر ساجدہ حسن کے قہقہے ماحول میں مزید مزاح پیدا کر دیا کرتے تھے۔

یہ ریڈیو پروگرام بہت عرصے چلا، اور سننے والوں میں ہمیشہ مقبول رہا۔ برسوں بیت جانے کے بعد ، سال دو ہزار سات میں ایک بار اچانک صبح کے وقت جاوید جبار صاحب کا فون آیا۔ کہنے لگے کہ انہوں نے ریڈیو کے سو سالہ جشن کے سلسلے میں ایک بڑی کانفرنس کا انتخاب کیا ہے جس میں ضیا محی الدین اور جمشید مارکر سمیت ریڈیو اور ٹی وی سے تعلق رکھنے والے بہت سے صداکار، دانشور، صحافی اور فنکار وغیرہ شریک ہو رہے ہیں۔

یہ کہہ کر انہوں نے حکمیہ انداز میں فرمایا کہ مجھے اس کانفرنس کی کمپیئرنگ کرنا ہے۔ میں نے ان کو سمجھانے کی کوشش میں اس کام میں چند بہتر لوگوں کے نام گنوانے شروع ہی کیے تھے کہ جاوید صاحب نے بات کاٹ کر کہا، ”دیکھئے نصرت اگر آپ زیادہ مصروف نہیں ہیں، تو یہ کام آپ ہی کو کرنا ہے۔“ کانفرنس کی کمپیئرنگ تو میں کر گیا، لیکن کبھی میں ان سے پلٹ کر یہ نہ پوچھ سکا کہ انہیں مجھ سے کمپیئرنگ کرانے کے اپنے فیصلے پر کتنا پچھتاوا ہے۔ بہرحال یہ ایک الگ معاملہ ہے۔

کمپیئرنگ کے دوران بیک اسٹیج میری ملاقات عظیم سرور صاحب سے ہوئی، واقعی بہت متاثر کن شخصیت کے مالک تھے۔ گفتگو کے دوران میرے پوچھنے پر انہوں نے پروگرام رنگ ہی رنگ جیدی کے سنگ کے حوالے سے بتایا کہ اس فارمیٹ پر سب سے پہلے انہوں ہی نے کام کیا، اور پروگرام کی مستقل مقبولیت میں اس فارمیٹ کا کردار بنیادی ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا ظرافت کے اچھے مظاہرے کے بعد ، سننے، دیکھنے اور سمجھنے والوں کا ہنسی اور قہقہوں کی صورت میں طاقتور رد عمل، کسی پروگرام یا شو میں بھرپور جان ڈال دیتا ہے، لہذا پروگرام میں جیدی کے مزاح سے بھرپور جملوں اور فقروں پر ساجدہ حسن کی ہنسی اور قہقہوں کو سامعین میں بہت پسند کیا جاتا تھا۔ البتہ اپنی خوبصورت آواز کے بارے میں ان کی انکساری برقرار رہی۔ چند برسوں ان سے ایک یا دو ملاقاتیں اور ہوئیں۔

عظیم سرور کی میزبانی میں مقبول ہونے والے اس پروگرام کے فارمیٹ کو سب سے پہلے، کوئی تیس برس بعد ، آفتاب اقبال نے اپنے پہلے پروگرام ”حسب حال“ میں جوں کا توں نقل کر لیا۔ آفتاب نے خود عظیم سرور کا سنجیدہ کردار منتخب کیا اور پروگرام کی میزبانی کی، اطہر شاہ خان عرف جیدی کی جگہ سہیل احمد کو مزاحیہ کردار میں پیش کیا، اور ساجدہ حسن کی جگہ ایک ایسی نوجوان خاتون کا انتخاب کیا جو واقعتاً ساجدہ حسن جیسی زور دار ہنسی اور طاقتور قہقہوں کی صورت میں سہیل احمد کی جگتوں پر ردعمل کا انتہائی کامیاب اظہار کرتی رہیں۔

دنیا ٹی وی پر یہ پروگرام آج بھی کم بیش اسی فارمیٹ پر جاری و ساری ہے۔

آفتاب اقبال نے چند غیر اہم رد و بدل کے ساتھ یہی فارمیٹ جیو کے پروگرام ”خبرناک“ میں بھی برقرار رکھا۔ اس کے بعد وہ جہاں جہاں جاتے رہے، اسی فارمیٹ کو کسی نہ کسی انداز میں نقل کرتے رہے۔ وہ اتنے برسوں میں کوئی نیا فارمیٹ نئی لا سکے، اور بھلا کیوں لاتے؟ ریڈیو ہو یا ٹیلیویژن، یہ فارمیٹ ماضی کی طرح آج بھی کامیابی کی کم و بیش ضمانت ہے۔ پروگرام ”مذاق رات“ بھی اس فارمیٹ سے زیادہ مختلف نہیں ہے۔

عظیم سرور کا شمار ان صداکاروں میں ہوتا ہے جو پورے کیرئیر میں اپنے لب و لہجے، آواز اور ادائیگی کے ذریعے سننے والوں کی تربیت کرتے رہے ہیں۔ پاکستان میں صداکاری اب کم و بیش ناپید ہے۔ لہذا عظیم سرور کا دنیا سے جانا، صداکاری کی اہمیت سمجھنے والوں کے لئے ایک بری خبر سے کہیں بڑا المیہ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments