ہم کس گلی جا رہے ہیں


کبھی کبھی مجھے لگتا ہے کہ میں غلط جگہ پہ آ گئی ہوں، ایسی جگہ جہاں ہر طرف ایک دوڑ لگی ہے، ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی دوڑ، ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی دوڑ، بہتر سے بہتر تر کی تلاش کی دوڑ، ایک ایسی دوڑ جو ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی ہے، انسان ختم ہو رہا ہے مگر یہ دوڑ ختم نہیں ہو رہی ہے۔ لیکن پھر میں نے دیکھا کہ اس دوڑ میں انسان اپنی مرضی سے حصہ لے رہے ہیں، مگر اختتام انسانوں کی مرضی کے مطابق نہیں ہوتا۔

سچ بتائیے گا کیا کبھی آپ نے اکیلے بیٹھ کہ یہ سوچا کہ اب آپ تھک گئے ہیں دنیا کے شور شرابے اور اس مادی دنیا سے، اور اب آپ کچھ وقت سکون سے گزارنا چاہتے ہیں؟ وقت، صرف اور صرف اپنے ساتھ، جس میں آپ اپنے بارے میں سوچیں ناکہ گھریلو اخراجات، گھریلو مسائل، بچوں کا مستقبل، ان کی اعلی تعلیم، بہن بھائیوں کی شادیاں، ماں باپ کی خواہشات، آپ کا محفوظ مستقبل اور بہت ساری دنیاوی باتیں۔

کیا آپ کا دل نہیں کرتا کہ اس تیز دوڑ سے ہٹ کر آپ کسی گھنے سر سبز و شاداب درخت کے سائے تلے بیٹھ کر اپنی ساری زندگی کی تھکان بھول جائیں؟ اور اگر آپ کا دل ایسا کرتا ہے تو آپ اس خیال کو ”تصوراتی دنیا“ سمجھ کر ذہن سے جھٹک دیتے ہیں کیونکہ پھر آپ کے سامنے دنیا کی روز مرہ مشکلات سر اٹھائے سامنے آجاتی ہیں۔ مجھے محسوس ہوتا ہے کہ اب ہر انسان، چاہے وہ بچہ ہو، بوڑھا یا نوجوان، روحانی طور پر سب تھک کر چور ہو چکے ہیں، حقیقی ذہنی و روحانی سکون کی تلاش سب کو ہے۔ ہماری روحیں بھی ہمارے بنجر دل سے اکتا چکی ہیں۔ نمازیں بھی بے روح ہو چکی ہیں ہماری، کیونکہ ہم صرف کوٹہ پورا کر رہے ہیں۔

ہم میں سے کوئی اتنا بہادر نہیں جو دنیا کی لذتوں کو تیاگ کر اپنا آپ پہچانے۔ انسان اب ایک مشین بنتا جا رہا ہے، ایسی مشین جس کی روح کو زنگ لگ رہا ہے۔

ہم میں سے کتنے لوگ ہیں جو رات کو سونے سے پہلے ”خود احتسابی“ کرتے ہیں، جو خود کی غلطیوں کے بارے میں اور ان کی اصلاح کا سوچتے ہیں؟ کتنے لوگ ہیں جو خالصتاً خدا کی محبت میں اس کے سامنے سجدہ ریز ہوتے ہیں؟ کتنے لوگ ہیں جو اپنی اس چلتی زندگی سے حقیقی معنوں میں خوش ہیں؟

ہم میں سے کتنے لوگ ہیں جو اپنے کام، نوکری سے مطمئن ہیں حقیقی طور پر؟ کتنے بچے اپنے چنے گئے مضامین سے خوش ہیں؟

کوئی بھی نہیں، یقین کریں اب انسان اندر سے کھوکھلا ہو چکا ہے، ہم اپنے لئے کچھ نہیں کر رہے بلکہ دوسروں کو دکھانے اور ان کو خوش کرنے کے لئے زندگی کی گاڑی کو دوڑا رہے ہیں۔ اپنے لئے تو وقت ہی نہیں ہمارے پاس۔

بچپن میں پانچ روپے کا نوٹ جب ملتا تھا تو لگتا تھا عید ہے، دوستوں کے ساتھ دکان پہ جاکر دو پاپڑ اور 8 فینٹا ٹافیاں لیتی تھی، آج سے پندرہ، بیس سال پہلے فینٹا ٹافی ایک روپے کی چار ملتی تھی، اور ہم دوست 2 روپے کی 8 لیتے کہ باقی پیسوں سے اور چیزیں بھی کھائیں گے۔ موبائل فون شاذونادر ہی ہوتے تھے البتہ ٹیلیفون ضرور ہوتا تھا، جہاں باہر رہنے والے چاچو، ماموں کے فون کا انتظار ہوتا تھا اور جب فون آتا تو سب کے چہروں کی خوشی دیکھنے والی ہوتی، گلی میں میٹھے دانے بیچنے والا آتا تو اس کو پرانی کتابیں یا لوہے کے ڈبے دے کہ اس سے میٹھے دانے یا پتیسا لیتے۔

بچے گلیوں میں کھیلتے تھے، اگر ایک ہفتہ بارش نہ ہوتی تو گلی کے سارے بچے مل کر ”اللہ زاری“ جمع کرتے، اللہ زاری میں مختلف گھروں سے آٹا یا پیسے لئے جاتے ہیں اور پھر ان سے روح افزا یا جام شیریں خرید کر ان کا شربت ہر گلی میں آنے اور جانے والے شخص کو پلایا جاتا، اور پھر رات کو بارش ہوتی ہے۔ اس وقت شاید دل اس قدر صاف تھے کہ خدا ہماری ایک پکار پہ ”کن“ فرما دیتا۔ لیکن اب ہماری پکار میں وہ بات نہیں رہی شاید۔

وقت نے اتنی تیزی سے کروٹ لی ہے کہ ہمیں سنبھلنے کا موقع بھی نہیں دیا۔ بچپن اب نظر نہیں آتا کسی بچے میں، اپنی عمر سے بڑی باتیں کرتے بچے مجھے بچے نہیں لگتے، ایسے لگتا ہے جیسے معصومیت ختم ہو گئی ان کی۔

آج سے چند سال قبل بھی تو آپ سب کما رہے تھے، ضرورتیں پوری ہو رہی تھیں، وقت اچھا اور پرسکون گزر رہا تھا، مگر اب کیا ہو گیا ہے کہ آپ اپنی جان تک جلا دیتے ہیں مگر سکون نہیں آپ کی زندگی میں۔ ہر روز ایک نئی ٹینشن، ایک نئی بات، کبھی سوچا ہے اس پہ؟

انسان شروع سے ہی ناشکرا رہا ہے، ہر وقت بہتر سے بہتر کی تلاش میں رہتا ہے اور اس چکر میں اپنے آج کو ضائع کر دیتا ہے اور پھر آخر میں گلہ کرتا ہے کہ کاش یوں کیا ہوتا، کاش وقت اپنے آپ کو دیتا۔ لیکن اب تو ان گلوں کا موقع بھی نہیں ملتا، زندگی کا کوئی بھروسا جو نہیں، لیکن پھر بھی انسان کو شرم نہیں آتی، جن چیزوں کے پیچھے بھاگ کر وہ خود کو تھکا رہا ہے دراصل وہی اس کو ختم کر رہی ہیں۔

اپنے کل کے چکر میں اپنے آج کو برباد نہ کریں، پیسے سے زیادہ ذہنی سکون اور آپ کے چہرے کی خالص مسکراہٹ اہمیت رکھتی ہے، لوگوں کی پرواہ کرنا چھوڑ دیں، آپ ریس سے باہر ہو جائیں اور سکون کا سانس لیں، لوگ تو مردہ انسان کو نہیں بخشتے تو وہ ہم زندہ کو کیسے معاف کریں گے۔ لوگوں کی فکر چھوڑ کر اپنی اور خود سے جڑے لوگوں کی پرواہ شروع کر دیں، مشین نہیں ایک انسان بنیں، اپنا آج کھل کر جئیں، کوئی حسرت نہ رہے دل میں، چھوٹی چھوٹی خوشیوں کو منائیں، ایک دوسرے کا اعتماد حاصل کریں، لاحاصل کا غم نہ کریں، یقین کیجئے زندگی بہت حسین لگے گی آپ کو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments