یکساں نصاب تعلیم اور زمینی حقائق


ہماری دھرتی تجربات کی ایک ایسی آماجگاہ ہے ہے جہاں پر ستر سال سے تجربات ہی چل رہے ہیں اور ہر تجربے کے پیچھے رجعت پسند قوتیں کار فرما نظر آتی ہیں جو بڑی چالاکی و عیاری سے ہر حکومت کا حصہ بن کر بڑی کامیابی سے مذہبی کارڈ کھیل کر اپنے مقاصد پورے کر لیتے ہیں اور یہی قوتیں حاکمان وقت کو عوام کے غیض و غضب سے بچانے میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ 26 سالہ جدوجہد کا ریکارڈ رکھنے کے دعویدار موجودہ وزیراعظم کو جب ڈلیور کرنے کا موقع ہاتھ آیا تو انھوں نے بھی عملی طور پر کچھ کر کے دکھانے کی بجائے مولانا طارق جمیل کی دعاؤں پر اکتفا کرنے کو ترجیح دی، بلند و بانگ دعوے سب ریت کی دیوار ثابت ہوئے، دنیا بھر کی سیر و تفریح کے دوران حاصل ہونے والی بصیرت کی تان ریاست مدینہ پر ٹوٹی مگر سعی لاحاصل اور آخر میں یکساں نظام تعلیم کا لولی پاپ تاکہ طبقاتی تقسیم کا خاتمہ ہو سکے، مگر کیسے؟

ترقی یافتہ دنیا نے آگے بڑھنے کے لیے سیکولر روایت کو اپنایا اور تمام مذاہب کو عبادت گاہوں کی چار دیواری تک محدود کر کے تمام مذہبی عقائد کو لوگوں کی نجی زندگی کا حصہ بنا کر ریاستی امور کو ان تمام عقائد سے الگ کر لیا۔ جب تک انہوں نے ایسا نہیں کیا تھا تو صدیوں مذہب کے نام پر خون کی ہولی کھیلی جاتی رہی اور اسی وجہ سے یورپ صدیوں تاریکی میں ڈوبا رہا اور آخر کار یورپ نے پاپائیت سے جان چھڑا کر خود کو ترقی کے راستے پر ڈالا اور آج وہ آسمان کی بلندیوں کو چھو رہے ہیں مگر ہمیں یکساں نصاب تعلیم کے نام پر اسی مایا جال میں پھنسانے کی کوشش کی جا رہی ہے جس سے شاید ہم صدیوں باہر نہیں نکل سکیں گے، کسی بھی ریاست کا کام اپنے شہریوں کو ایک اچھا انسان بنانا ہوتا ہے ناکہ ایک اچھا مسلمان۔

ایک بہترین ریاست اپنے شہریوں کی جان و مال کے تحفظ کے علاوہ ایک بہتر طرز زندگی کا بندوبست کرتی ہے اور جب حکومتیں اپنے شہریوں کو بہتر علاج و معالجہ جیسی سہولیات دینے میں ناکام ہو جاتی ہیں تو وہ نان ایشوز کا سہارا لینے لگتی ہیں۔ جیسا کہ موجودہ وزیراعظم نے محسوس کیا کہ ہمیں ترقی کی منازل طے کرنے کے لئے اپنے شہریوں کو ایک اچھا مسلمان بنانے کی کوشش کرنی چاہیے، اس ٹارگٹ کو حاصل کرنے کے لیے پہلی سے پانچویں جماعت تک یکساں نصاب تعلیم رائج کر دیا گیا جس میں قرآن و حدیث کی تعلیم کو لازمی قرار دیا گیا ہے، جب سوال کیا گیا کہ غیر مسلم طلباء اس تعلیم کے دوران کیا کریں گے تو جواب میں کہا گیا کہ اسلامیات کے پیریڈ میں غیر مسلم طلبہ کلاس سے باہر چلے جائیں تو کوئی مضائقہ نہیں ہو گا۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم اس سے ایک قوم بن پائیں گے؟ یکساں نصاب کی صورت میں آپ نے خود مسلم اور نان مسلم کے درمیان ایک دیوار قائم کر دی جبکہ ریاست کی نظر میں سب برابر ہونے چاہیں۔ قرآن و حدیث کی تعلیم کے لیے فی سکول میں تقریباً 2، 2 مولوی بھرتی کرنا پڑیں گے جب کہ ہمارے علماء کرام تو اینٹی سائنس رویہ رکھتے ہیں اور ارتقائی پراسس کو سرے سے ہی تسلیم نہیں کرتے جب یہ پبلک اسکولز میں قدم رنجہ فرمائیں گے تو کیا منظرنامہ بنے گا؟

پبلک اسکولز تو سائنس و ٹیکنالوجی پر فوکس کرتے ہیں اور موجودہ دنیا میں کامیابی کا گر بتاتے ہیں جب کہ مدارس کی تعلیم آخرت کی تیاری کی طرف توجہ مبذول کرواتی ہے، جب ان دونوں کے کومبینیشن کے ساتھ ہم پبلک اسکولز میں یہ تعلیمات متعارف کروائیں گے تو کیا ہم ایک کنفیوز جنریشن پیدا نہیں کریں گے؟ آدھا تیتر اور آدھا بٹیر جیسی یہ نسل ایک بہترین مستقبل بن پائے گی؟ مذہبی اور دنیاوی تعلیم کو بیلنس کرنے کے چکروں میں کہیں ہم بربادی کی طرف تو نہیں جا رہے ہیں؟

کیا اس سے بہتر یہ نہ ہوتا کہ ہم اپنے بچوں کو تمام مذاہب بطور تعارف کے پڑھاتے تاکہ بچوں کو تمام مذاہب سے تھوڑی تھوڑی آشنائی ہوتی اور وہ ثقافتی اقدار بہتر طور پر جاننے کے قابل ہو جاتے۔ کیا عقیدہ اور علم کے مکسچر سے کوئی نمایاں نتائج برآمد ہو پائیں گے؟ جہاں پر عقیدہ کا اختتام ہوتا ہے وہیں سے علم کا آغاز ہوتا ہے اور علم عقیدہ کی طرح کوئی جامد چیز نہیں ہے بلکہ یہ تو وقت کے لحاظ سے تبدیل ہوتا رہتا ہے۔ کیا اس طرح کر کے ہم اپنے بچوں میں ایک طرح کا تعصب پیدا کرنے کی کوشش نہیں کر رہے ہیں؟

کیا ہم Ideological Hegemony پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں؟ کیا ایسا کر کے ہم خود کو دنیا میں کوئی نمایاں مقام دلوا پائیں گے؟ یکساں نصاب تعلیم میں ہم Pluralistic ethicsکو شامل کر کے بہتر نتائج حاصل کر سکتے تھے، جب ہم نے سب کچھ ایک ہی مذہب کے آئینے میں دیکھنا ہے تو پھر دوسرے مذاہب کے لوگوں کے لیے ہم کیا مثال قائم کر سکیں گے؟ موجودہ یکساں نصاب تعلیم میں جس چیز پر زیادہ زور ڈالا گیا ہے وہ ”برداشت کا تصور“ ہے یعنی کہ ہم نے دوسروں کو برداشت کرنا ہے اس کی بجائے اگر
The Concept Of Co Exist
پر زور ڈال کر بچوں کو یہ تصور سمجھانے کی کوشش کی جاتی تو شاید ہم کچھ بہتر طرف جا سکتے تھے کیونکہ قومیں ایک دوسرے کو برداشت نہیں کرتیں بلکہ Co۔ Exist کرتی ہیں۔ جمہوری معاشروں میں Pluralistic Values اور کلچر کو تسلیم کر کے مل کر آگے کی طرف بڑھا جاتا ہے۔ برداشت کی بجائے باہمی قبولیت کو فروغ دے کر زیادہ اچھے سے آگے بڑھا جا سکتا ہے اور بہتر نتائج حاصل ہو سکتے ہیں۔ ہمیں تو مدارس کو بھی سائنس کی طرف لے کر آنا چاہیے تھا مگر تبدیلی سرکار تو اسکولز کو بھی مدارس کے لیول پر لانے کی کوشش میں مصروف عمل ہے۔

خدارا مذہب کو انسان کا ذاتی عمل رہنے دیجئے اور ریاست کو اس میں مداخلت بالکل بھی نہیں کرنی چاہیے، انٹرنیشنل تعلیمی رینکنگ میں ہم پہلے ہی زیرو پوائنٹ پر کھڑے ہیں۔ گلوبل رینکنگ میں نمایاں مقام حاصل کرنے کے لیے ہمیں گلوبل ویلیوز کو اپنانا ہو گا ورنہ ہماری داستان بھی نہ ہوگی داستانوں میں۔ طبقاتی تقسیم کو یکساں نصاب کے ذریعے سے ختم نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے لئے معاشی ناہمواریوں کو دور کرنا پڑتا ہے جس کے لئے ریاست کو گراس روٹ لیول پر ہوم ورک کرنا پڑتا ہے تاکہ معیشت مضبوط ہو سکے مگر یہاں تو قانون بھی سرمایہ داروں کو تحفظ فراہم کرتا ہے اور غریب انصاف کی آس لئے ہی قبر میں اتر جاتا ہے۔ جہاں پر معاشی ناہمواریوں کا یہ لیول ہو وہاں یکساں نصاب کیا کردار ادا کر سکتا ہے؟ آئیڈیالوجیکل چارجڈ معاشرے تفریق پیدا کرتے ہیں اتحاد نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments