جیم عباسی کا ناول ”رقص نامہ“


جیم عباسی (اصل نام جمیل عباسی) سے اولین تعارف ادبی جریدے ”آج“ میں چھپی ان کی ایک پراثر کہانی سے ہوا۔ اس کا عنوان ذہن میں نہیں۔ اس کے بعد ان کے افسانوی مجموعے کی اشاعت کی خبر آئی اور اس کے فوراً بعد ہی ان کے اس ناول کی آمد ہوئی۔ میں نے اگرچہ ان کا افسانوی مجموعہ تاحال نہیں پڑھا مگر ادبی حلقوں میں اس کی پذیرائی ہوئی۔ اس کے برعکس ان کے ناول ”رقص نامہ“ بارے ملا جلا ردعمل سامنے آتا رہا۔ کسی نے اس کے دو حصوں کے باعث اسے دو لخت کہا تو کسی نے پہلے حصے کو بہتر اور دوسرے کو کمزور قرار دیا۔

ایک دوست نے کہا اس میں سندھی لفظیات بے جا طور پر شامل کی گئی ہیں۔ چنانچہ ایسی ملی جلی آرا کے ساتھ میں نے ایک دو روز قبل اسے پڑھنا شروع کیا۔ سچی بات یہ ہے کہ دوسرے حصے کے آغاز تک میں گو مگو کی کیفیت میں رہا کہ جانے آگے چل کر ناول کا یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے۔ اور حاصل مطالعہ کیا رہے۔ اب مکمل ناول پڑھنے کے بعد میرا خیال ہے کہ ”رقص نامہ“ دیہی سندھ کے پس منظر میں لکھا گیا ایک شان دار ناول ہے۔ اور یہ ناول کسی طور پر دو لخت ہے نا اس کا کوئی حصہ کمزور۔

اس ناول کا بنیادی موضوع مذہب ہے۔ پہلے حصے میں اسلامی شریعت کے ظاہری نفاذ کو موضوع بنایا گیا ہے اور نہایت عمدگی سے یہ دکھایا گیا کہ کیسے ایک ادنیٰ درجے اور سطحی علم رکھنے والا مولوی/پیر سائیں عبدالرحمٰن شاہ کے روپ میں اپنے گھر، خاندان اور گاؤں کی زندگی کو اسلام اور خدا کے نام پر یرغمال بنا سکتا ہے، ان پر جدید تعلیم اور دنیا تک رسائی روک سکتا ہے مگر اپنی بے لگام جنسی خواہشات کو چار شادیوں کی صورت میں پورا کرتا ہے۔ اس حصے میں دیہی گھروں کی خانگی صورتحال اور مولوی کے بیٹوں کے حوالے سے بچپنے کے مسائل و مشاغل کو دلچسپ انداز میں بیان کیا گیا۔

دوسرے حصے میں تصوف کو موضوع بناتے ہوئے دکھایا جاتا ہے کہ مولوی کی نسبت صوفی بہت کشادہ دل اور انسانوں کے لیے آسانیاں پیدا کرنے والا ہوتا ہے۔ اس لیے اس کی محفل میں مولوی، ہندو اور دیگر عام و خاص گناہ گار لوگ آزادانہ شرکت کر سکتے ہیں۔ وہ انھیں ان کے تعصبات سمیت قبول کرتا اور آہستہ آہستہ غیر محسوس طور پر ان کے ذہنوں میں تبدیلی (ہائے یہ لفظ) لاتا ہے۔ اس حصے میں تصوف کے تناظر میں سچل سر مت، شاہ لطیف بھٹائی، فارسی شاعر حافظ کی شاعری اور سندھ کے کئی تاریخی واقعات کا بیان اسے بین المتونیت سے متصف کرتا ہے مگر یہ سب قاری پر گراں نہیں گزرتا۔ بلکہ بعض شعروں کی تشریح میں نئے پہلو سامنے آتے ہیں، مثلاً حافظ کے اس معروف شعر

مئے دو سالہ و محبوب چار دہ سالہ
ہمیں بس است مرا صحبت صغیر و کبیر

کی تشریح میں اس کے معلوم معنی کی بجائے تصوف کے حوالے سے نئے معنی پہنائے گئے ہیں۔ یہ نہیں معلوم کہ یہ مصنف کی اپنی اختراع ہے یا کہیں سے استفادہ کیا گیا ہے مگر یہ خوب ہے۔

میرا خیال ہے کہ یہ دوسرا حصہ نہ صرف پہلے حصے سے جڑا ہوا ہے بلکہ یہ اس سے زیادہ مضبوط اور فلسفیانہ اساس رکھتا ہے۔ جس کی ایک اچھے ناول سے توقع کی جاتی ہے۔ اس میں مذہب کے علاوہ تاریخ، کلچر اور معاشرت کے حوالے سے بھی کئی سوال اٹھائے گئے ہیں۔ مثلاً ہندو بچیوں کا اغوا اور انھیں بالجبر کلمہ پڑھوانا، یا مشہور عام نکتہ نظر کہ سندھ صوفی دھرتی ہے وغیرہ۔

جہاں تک اس ناول کے اسلوب کا تعلق ہے وہ ناول میں پیش کردہ لوکیل سے گہرے طور پر جڑا ہوا ہے۔ نہ صرف لفظیات بلکہ آہنگ اور جملہ سازی میں دیہی سندھ کے بھرپور اثرات جھلکتے ہیں مگر یہ سب کرداروں اور ان کے مکالموں میں اچھی طرح ڈھل کر سامنے آتے ہیں اس لیے گراں نہیں گزرتے بلکہ اردو زبان کے ایک نئے اور منفرد لہجے کو قائم کرتے نظر آتے ہیں۔ اور یہ ایک نوجوان ناول نگار کے طور پر جیم عباسی کی بڑی کامیابی ہے۔ اس ناول کے بعد ان سے مستقبل میں زیادہ اچھے اور بڑے ناول کی امید بندھ جاتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments