دین کو تخت پر لانا ہو گا


سورج اس وقت محو سفر مغرب کو تھا، مگر ماحول میں روشنی ابھی ہنوز باقی تھی۔ شاہراہ پر ٹریفک قدرے کم تھی۔ چار شاہراہوں کے ملاپ پر بتی باری باری سرخ اور سبز ہو رہی تھی۔ بتی سبز ہونے پر اس ملاپ سے تھوڑا آگے بڑھے ہی تھے کہ ایک رکشے پر نظر جا ٹھہری۔ ایسی بات نہیں کہ رکشے میں کچھ عورتیں بیٹھی ہوئی تھیں، بلکہ نظر تو رکشے کے پچھواڑے پر لگے ایک اشتہار پر پڑی جو تحریک لبیک پاکستان کے کسی کارکن نے لگوایا ہوا تھا۔ اب معلوم نہیں کہ کالعدم تحریک لبیک لکھنا چاہیے یا صرف تحریک لبیک کہ اگر یہ جماعت کالعدم ہے تو پھر اشتہار کیسا؟

اشتہار پر مولانا خادم حسین رضوی کی تصویر یقینی بنا کر منجانب نے نیکیاں کمانے کا بندو بست بھی کر رکھا تھا اپنے لیے بھی اور دیکھنے والوں کے لیے بھی کہ جو کوئی بھی ولی اللہ کو دیکھے، نیکی ضرور کمائے۔ منجانب نے اپنی تصویر بھی ساتھ لگا رکھی تھی کہ کیا خبر کہ کوئی خوبصورت دوشیزہ دیکھ کر بلائیں لینے لگے۔ مگر جو چیز پریشان کرنے والی تھی، وہ اشتہار پر لکھا ہوا نعرہ تھا۔ نعرہ کچھ یوں تھا کہ ”ہماری زندگی اور جد و جہد کا مقصد دین کو تخت پر لانا ہے۔ یہ اس نیم تعلیم یافتہ کارکن کا قصور نہیں، کیوں کہ اس کو بتایا ہی یہی گیا ہے کہ دین کو ہر صورت تخت پر لانا ہو گا، چاہے اپنی زندگی میں دین کوئی لائے یا نہ لائے مگر اس کو تخت پر لانے کے لیے جد و جہد ضرور کرنا ہو گی۔

رضوی صاحب کا بھی یہی نعرہ تھا کہ ”محمد عربیﷺ کے دین کو تخت پر لائیں گے“ ، تقریباً اسی سے ملتے جلتے نعرے ہی تمام سیاسی جماعتیں لگاتی ہیں۔ ان جماعتوں کے نزدیک تمام مسائل کا حل شریعت کا نفاذ ہے۔ پڑوسی ملک میں شریعت نافذ ہو گئی ہے، دیکھتے ہیں کہ تمام مسائل حل ہوتے ہیں عالمی کفار سے امداد کی گزارش جاری رہتی ہے۔ کچھ سوال پہلے دیکھ لیجیے، پھر بات کو آگے بڑھاتے ہیں؟

قرآن کی کس آیت کی رو سے یہ نعرہ اپنایا گیا ہے کہ دین کو تخت پر لائیں گے؟

آیت آپ پیش نہیں کر سکیں گے، کسی حدیث کا حوالہ دے دیجیئے کہ جس میں دین کو تخت پر لانے کی بات کی گئی ہو؟

سنا ہے کہ آپ اماموں کے مقلد ہیں، نئی رائے کو پسند نہیں کرتے۔ صحیح سند کے ساتھ کسی امام کا قول بتا دیجیئے؟

آپ کو کیسے معلوم ہو گیا ہے کہ دین تخت پر آنے سے مسائل حل ہو جائیں گے؟
اور یہ تخت کس نے بنوا کر کہاں رکھا ہے، جس پر آپ دین کو لے کر آئیں گے؟

آپ دیکھیں گے کہ ان سوالات کے جواب میں گالی کے سوا کچھ نہ ہو گا۔ ”ایمان والوں اور نیک عمل کرنے والوں سے اللہ کا وعدہ ہے کہ ان کو روئے زمین کی خلافت عطا فرمائیں گے، جس طرح کہ ان سے پہلے لوگوں کو عطا فرمایا تھا (النور: 55 ) ۔ اس آیت کی رو سے دو نکات جنم لے رہے ہیں۔ پہلا نقطہ یہ ہے کہ مسلمان تو ایمان والے ہیں اور نیک اعمال بھی برابر کر رہے ہیں مگر اللہ ان کو اقتدار عطا نہیں کر رہے۔ گستاخی کا فتوی اگر نہ لگے تو مطلب یہی ہے کہ خدا تعالیٰ وعدہ خلافی کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ جب کہ ہم خوب جانتے ہیں کہ خدا وعدہ خلافی نہیں کرتا۔

دوسرا نقطہ یہ ہے کہ مسلمان ایمان والے ہیں اور نہ نیک، اس لیے اقتدار کا وعدہ پورا نہیں ہو رہا۔ چوں کہ یہ دلیل ہمارے سر پر ہتھوڑا بن کر برستی ہے اس لیے ہم اسے قبول نہیں کریں گے۔ نیک ہم سے بنا نہیں جاتا، اس لیے آسان طریقہ یہی ہے کہ دین کو تخت پر لانے کا نعرہ لگا دو۔ باقی اگر خدا کے احکامات کی خلاف ورزی ہوئی بھی کون سا بڑی بات ہے، دنیا میں ہمیں سزا تھوڑی ملے گی اور آخرت کس نے دیکھی ہے؟ آپ نے وہ کہاوت نہیں سنی کہ ”اے جگ مٹھا تے اگلا کنے ڈٹھا“ ، یعنی اگر اس دنیا میں آسائشیں میسر ہیں تو جنت کی ضرورت نہیں۔

ایسے میں مولانا وحید الدین خاں صاحب خوب یاد آتے ہیں، جنہوں نے ساری زندگی فقط اس بات کو سمجھانے کے لیے وقف کر دی کہ دین کا اصل مقصد انفرادی طور پر اللہ کے احکامات کی پیروی کرنا ہے، نہ کہ دین کو تخت پر لانے کے لیے لٹھ تھام لی جائے۔ صورت حال شاید مستقبل قریب میں کچھ بدل جائے، وگرنہ ابھی تو اکثریت انفرادی طور پر اللہ کے احکامات کی پیروی کرنے کے بجائے اجتماعی طور پر کوشاں ہے کہ کسی طرح اقتدار نصیب ہو جائے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہر جماعت یہی چاہتی ہے کہ اقتدار اس کو سونپا جائے اور امیرالمومنین بھی انہی میں سے ہو۔ ایسوں کے بارے میں دو احادیث ملاحظہ ہوں۔

بخدا ہم کسی ایسے شخص کو یہ منصب نہیں دے سکتے جو اس کا خواہش مند یا طلب گار ہو (بخاری، کتاب الاحکام) ۔

تم میں سب سے بڑا خائن وہ ہے جو منصب کا طلب گار ہو (ابو داؤد، کتاب الامارۃ)

ابوداؤد کی حدیث سے معلوم ہو رہا ہے کہ منصب کی چاہ کرنے والا دیانت دار نہیں ہوتا۔ اس کا مطلب پھر یہی ہوا کہ مذہبی جماعتوں کے سربراہان جو امیرالمومنین بننا چاہ رہے ہیں وہ خائن ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments