صحت سہولت کارڈ: شہری سرکاری طبی مراکز کے مقابلے میں نجی اسپتالوں کو ترجیح دینے لگے


پاکستان میں صحت سہولت کارڈ کے اجرا کے بعد صوبہ پنجاب کی حکومت نے پہلے دو ماہ کے دوران 10 ارب روپے جاری کیے ہیں۔ صحت کارڈ کے تحت ادا کی جانے والی رقم ہیلتھ انشورنس کمپنی کے ذریعے ادا کی جا رہی ہے جس میں سرکاری اور غیر سرکاری اسپتال دونوں شامل ہیں۔

پنجاب کے محکمہ اسپشلائزڈ ہیلتھ کیئر کے اعداد و شمار کے مطابق صحت سہولت کارڈ کے ذریعے چار لاکھ 12 ہزار 597 مریضوں کا علاج نجی اسپتالوں جب کہ 13 ہزار 251 افراد کا علاج سرکاری اسپتالوں میں کیا گیا۔

اِس وقت پنجاب کے محدود اضلاع میں صحت کارڈ کی سہولت فراہم کی گئی ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس کارڈ کے لئے اب تک کے اعداد و شمار کے مطابق 46 لاکھ خاندان مفت علاج کے لیے اندراج کرا چکے ہیں۔

محکمۂ صحت کے مطابق ہر خاندان کو ایک صحت کارڈ جاری کیا جاتا ہے۔ یہ کارڈ نادرا کے ریکارڈ سے بھی منسلک ہے۔ صحت سہولت کارڈ کے ذریعے رواں برس 31 اگست تک مجموعی طور پر چار لاکھ 25 ہزار 848 مریض صوبے بھر کے اسپتالوں میں علاج معالجے کی غرض سے داخل ہوئے۔

ترجمان اسپیشلائزڈ ہیلتھ کیئر ڈپارٹمنٹ ملک مقبول احمد نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ حکومتِ پنجاب نے اسٹیٹ لائف انشورنس سے معاہدہ کیا ہے۔ معاہدے کے مطابق کسی بھی شخص کے علاج معالجے کی رقم فوری طور پر نجی اسپتال کو اسٹیٹ لائف انشورنس سے فراہم کی جائے گی۔

اُنہوں نے مزید بتایا کہ معاہدے کی رو سے اسٹیٹ لائف انشورنس کے پاس رجسٹرڈ افراد کا 1998 روپے سالانہ کے حساب سے پریمیم پنجاب حکومت ادا کر رہی ہے۔

حکام کے مطابق صوبے بھر کے 36 اضلاع میں سے اب تک 294 نجی اسپتال اندراج کرا چکے ہیں۔ محکمے کے مطابق حکومت نے صوبے بھر کے شہریوں کو صحت سہولت کارڈ کے ذریعے علاج کی مفت سہولتیں فراہم کرنے کے لیے 60 ارب روپے مختص کیے ہیں جن میں سے 10 ارب روپے جاری کیے جا چکے ہیں۔

اس حوالے سے سابق ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ پنجاب ڈاکٹر محمد منیر احمد کہتے ہیں کہ حکومت کا یہ اقدام اچھا تو ہے البتہ اِس کی کڑی نگرانی کرنے کی ضرورت ہو گی۔

اُن کی رائے میں صحت سہولت کارڈ سے جہاں سرکاری اسپتالوں پر مریضوں کا دباؤ کم ہو گا وہیں نجی اسپتالوں کو اپنی استعدادِ کار بہتر بنانے کا موقع ملے گا۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے سابق ڈی جی ہیلتھ ڈاکٹر محمد منیر احمد کا کہنا تھا کہ صحت سہولت کارڈ کے ذریعے سے نجی اسپتالوں کے علاج معالجے کے نرخ بھی قدرے کم ہوں گے۔

اُن کے خیال میں نجی اسپتال کسی بھی بیماری کے علاج کے اِس وقت جو پیسے وصول کر رہے ہیں۔ حکومت کو اُس سے قدرے کم نرخ پر علاج کی سہولت کی پیشکش کریں گے اور کچھ اسپتال ایسا کر بھی رہے ہیں۔

ترجمان اسپیشلائزڈ ہیلتھ کیئر ڈپارٹمنٹ ملک مقبول احمد کے مطابق اسٹیٹ لائف انشورنس کے پاس 31 اگست تک 46 لاکھ خاندانوں کا اندراج ہو چکا ہے۔

ترجمان محکمہ صحت کے مطابق جاری کیے گئے صحت کارڈ میں سابقہ حکومت کے دور میں جاری کیے جانے والے صحت کارڈ بھی شامل ہیں۔ جب کہ رواں سال کے آخر میں 31 دسمبر سے آئندہ سال مارچ تک صوبے کے تمام 36 اضلاع میں تقریباً چار کروڑ صحت سہولت کارڈ تقسیم کیے جائیں گے۔

محکمہ صحت کے مطابق صحت کارڈ میں اندراج کے لیے کسی بھی نجی اسپتال میں بنیادی سہولیات اور کم سے کم 10 بستروں کا ہونا لازمی ہے۔ محکمۂ صحت وقتاً فوقتاً صحت کارڈ کے لیے رجسٹرڈ اسپتالوں کے معیار اور سہولیات کی جانچ پڑتال بھی کرتا رہتا ہے۔

سابق ڈی جی ہیلتھ پنجاب کہتے ہیں کہ صحت سہولت کارڈ کے ذریعے حکومت کو اپنا جانچ پڑتال کا نظام بہتر بنانا ہو گا۔ جو بظاہر اچھا نہیں لگ رہا۔

اُنہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کے موجودہ نظامِ صحت اور معاشرتی رویوں کو دیکھتے ہوئے یہ ممکن ہے کہ لوگ اِس سہولت سے ناجائز فائدہ بھی اٹھائیں گے۔

محکمہ صحت کے مطابق کسی بھی مریض کے علاج کے لیے میڈیکل سہولیات، آپریشن، ایمرجنسی میں داخل ہونے پر علاج، میٹرنٹی سہولیات (آپریشن سے قبل چار بار چیک اَپ اور آپریشن کے بعد ایک بار چیک اَپ)، فریکچر، دل کے امراض، شوگر کے علاج، جسم کے جلے ہوئے حصے کا علاج، گردوں کا علاج، ہیپاٹائیٹس کا علاج، کینسر، بریسٹ کینسر، دماغ کا آپریشن، جگر، معدے اور دیگر بیماریوں کا علاج شامل ہے۔

محکمہ صحت کا کہنا ہے کہ صحت سہولت کارڈ کے ذریعے کاسمیٹک سرجری، ڈینٹل سرجری، آئی گلاسز، نشے کا علاج اور کسی بھی قسم کے جرم کے دوران لگنے والی چوٹ کا علاج یا آپریشن نہیں ہو گا۔

ترجمان محکمہ صحت ملک مقبول احمد نے مزید بتایا کہ حکومتِ پنجاب نے اسٹیٹ لائف کو بتا دیا ہے کہ کس آپریشن اور کس بیماری کے علاج کے لیے کتنے پیسے مختص کیے گئے ہیں۔

ملک مقبول احمد کے مطابق صحت کارڈ کے ذریعے اِن ڈور علاج کے لیے ابتدائی حد ساٹھ ہزار روپے سے شروع ہو کر تین لاکھ روپے تک ہے۔ اِسی طرح آوٹ ڈور کی کوئی حد نہیں ہے۔

محکمۂ صحت کے مطابق کسی بھی مرض کے آؤٹ ڈور علاج کے لیے ایک لاکھ 80 ہزار روپے سے تین لاکھ 60 ہزار روپے خرچ کیے جا سکیں گے اِسی طرح کسی بھی آپریشن کے لیے تین لاکھ روپے سے نو لاکھ روپے کا علاج کرایا جا سکے گا۔

محکمے کے مطابق ضرورت پڑنے پر زیادہ سے زیادہ حد کو بڑھایا بھی جا سکتا ہے۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments