کیا تبادلوں سے کیا انتظامی کارکردگی بہتر ہو جاتی ہے؟



ہم آئے دن خبریں پڑھتے ہیں کہ افسروں کے تبادلے یہاں سے وہاں ہو رہے ہیں۔ وزراء کے محکمے تبدیل کیے جا رہے ہیں۔ جو ایک محکمے میں ناکام ہوتا ہے اس کی تعیناتی کسی دوسرے محکمے میں کر دی جاتی ہے۔ پنگ پانگ جاری رہتی ہے اور چہروں کو تبدیل کر کے یہ سمجھا جاتا ہے کہ ٹیبل ٹینس کا کھیل لانگ ٹینس کا کھیل بن جائے گا۔ فیصلے کرنے والے سقراط یہ فراموش کر دیتے ہیں کہ ٹکسالی میں سب سکے بن کر ڈھل جاتے ہیں۔

بساط پر اگر گڑبڑ ہو رہی ہے تو پیادوں کی پوزیشن تبدیل کرنے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ بساط بچھانے والوں سے بساط لپیٹنے کی درخواست کرنا پڑے گی۔ بساط پر موجود بادشاہ اور وزیروں کے ہاتھ نہ باگ پر ہے اور نہ پائے رکاب میں۔ ایک فرد بے شک وہ افسر بھی کیوں نہ ہو اور کردار کے حوالے سے ”مرد حر“ ہی کیوں نہ ہو، اگر ہارے ہوئے لشکر میں ہے تو اپنی خداداد صلاحیتوں کے باوجود مطلوبہ نتائج فراہم کرنے میں کامیاب نہ ہو سکے گا۔

بساط بچھانے والوں سے مراد کوئی مخصوص ادارہ نہیں ہے بلکہ ہر ادارے کے فیصلے کرنے والے سرکردہ رہنما ہیں جو اپنی اپنی بساط کے اوپر کھیلے جانے والے کھیل کے اصول و ضوابط مرتب کرتے ہیں۔ وہ فیصلے کرتے ہیں کہ کس کو کس قدر وسائل عطا کرنے ہیں اور کسے ہینڈ ٹو ماؤتھ رکھنا ہے۔ ان کے نزدیک حسن کارکردگی کا وہ وزن نہیں ہے جو جی حضوری کا وزن ہے۔

یہ دیکھا گیا ہے کہ بساط بچھانے والے معاملات کے باہمی تال میل سے بھی ناآشنا ہوتے ہیں اور نظام کے اندر موجود شعبہ ہائے جات کس طرح ایک دوسرے پر انحصار کرتے ہیں، اس سے بھی چنداں واقفیت نہیں رکھتے ہیں۔ وہ تو بس ”کن فیکون“ کے الفاظ کی ادائیگی کرنا جانتے ہیں اور بھول جاتے ہیں کہ ”کن فیکون“ تو عمل کے آغاز کا اشارہ تھا۔ عمل کی تکمیل تو صبر طلب ہے اور کوئی بھی عمل اس وقت مطلوبہ نتائج حاصل کر سکتا ہے جب وہ اس نظام میں وقوع پذیر ہوتا ہے جو اس کو سپورٹ کرتا ہے۔ ہاکی گراؤنڈ پر ہاکی کھیلتے ہوئے کرکٹ والے چوکے چھکے لگانا ممکن نہیں ہے۔

کسی بھی فرد کو قصور وار ٹھہرانا دینا آسان ترین کام ہے۔ اسی لیے بساط کے رولز بنانے والے فرد کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں اور بساط کا نقشہ جوں کا توں قائم رکھتے ہیں تاکہ ان کی بادشاہی پر آنچ نہ آئے۔

ہمارے کم وبیش تمام سویلین ادارے اپنے ادارہ جاتی فیصلوں کے سبب جمود کا شکار ہیں۔ افسر حضرات کی اہلیت پر بھی سوالیہ نشان ہے اور ہر وقت اپنے احتساب کے خوف سے بھی وہ دو ٹوک فیصلوں سے احتراز برتتے ہیں۔ جب ہر وقت یہ دھڑکا لگا رہے کہ شاید کل ہو نہ ہو تو پھر سب آج کے خیر و عافیت سے گزرنے کی دعائیں کرتے کرتے دن گزار دیتے ہیں۔ بہترین ٹیلنٹ تو ہمارے نجی اداروں میں موجود ہے۔ پبلک و سرکاری اداروں میں وہ افرادی قوت آتی ہے جو زمیں جنبد نہ جنبد گل محمد کی زندہ مثال ہوتی ہے۔

اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہر ادارہ مثالی کارکردگی کا مظاہرہ کرے تو پھر اس ادارے کے لیڈروں کو سنہری مثال بننا ہو گا اور ان اقدار پر عمل کرنا ہو گا جن کا وہ اظہار کرتے ہیں۔ لیڈروں اور پیروکاروں کے درمیان ”مواخات مدینہ“ کا رشتہ حقیقی معنوں میں قائم ہو گا تو تبدیلی زمینی حقیقت بنے گی اور اگر ایسا نہ ہوا تو عوام الناس ٹرک کی بتی کے پیچھے یونہی لگے رہیں گے اور غالب کے اس شعر کو گنگنا کے اپنے دل کی تسلی کا سامان کرتے رہیں گے۔

قید حیات و بند غم اصل میں دونوں ایک ہیں
موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments