ہائبرڈ نظام حکومت


علم سیاسیات کے مفکرین ہائبرڈ نظام کو اس قسم کے جمہوری نظام سے تعبیر کرتے ہیں جہاں حقیقی جمہوری اقدار کا فقدان ہو اور جہاں بزور طاقت سخت ہتھکنڈے استعمال کیے جاتے ہو۔ اس طرح کے ہتھکنڈے جمہوریت کو آمریت میں تبدیل کر دیتا ہے۔

ہائبرڈ نظام میں جمہوریت کے تمام لوازمات ہوتی ہیں جیسے آئین، الیکشن، قانون سازی، انتظامیہ، میڈیا، سول سوسائٹی اور مقننہ۔ لیکن دوسری طرف نظام حکومت، آمریت کی طرز پر چلتا رہتا ہے۔ جو جمہوری عمل کو ناقص طرز حکومت میں تبدیل کر دیتا ہے۔

ایک حقیقی لبرل جمہوریت میں جمہوریت کی اقدار کو حقیقی روح کے ساتھ نافذ کیا جاتا ہے۔ اس نظام حکومت میں ہمیشہ انسانی حقوق کا تحفظ، حقیقی احتساب، آئین پر عملدرآمد، پارلیمنٹ کی بالادستی، میڈیا کی آزادی کا تحفظ اور سیاست میں فوجی مداخلت کی عدم موجودگی رہی ہے۔

جبکہ دوسری طرف ہائبرڈ نظام میں میں اداروں کی موجودگی کے باوجود انہیں مناسب طریقے سے کام کرنے کی اجازت نہیں ہوتی ہے۔ اور ان کے کام کرنے میں متعدد رکاوٹیں پیدا کی جاتی ہیں جو ملک کو ایک بڑے انتظامی بحران کی طرف لے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر، پارلیمنٹ کی موجودگی کے باوجود اس کی اہمیت کو نظرانداز کیا جاتا ہے جہاں پر اہم مسائل پر بحث نہیں کی جاتی جس سے مقننہ ربڑ سٹیمپ بن جاتی ہے۔

ہائبرڈ نظام میں سب سے اہم حربے الیکشن کمیشن، احتساب بیورو اور انتظامیہ ہیں۔ جہاں الیکشن کمیشن کے ذریعے انتخابات میں دھاندلی کی جاتی ہے اور ایسے لوگوں کو منتخب کیا جاتا ہے جو ہائبرڈ حکومت کے چلانے والوں کے منظور نظر ہو۔ جو اپنے مفادات کے لیے آئین کو متنازعہ بنا کر ان میں ترامیم کرتے ہیں۔ جیسا کہ مصر میں الفتح السیسی، روس میں ولادیمیر پوٹن کے، اور کچھ وسطی ایشیائی ممالک کے سربراہان یہ حربہ استعمال کیا کرتے ہیں۔

سیاسیات کے ماہر تھامس مورس کہتے ہیں کہ انتخابی آمریت ان لوگوں کے لیے پریشانی کا باعث بن سکتی ہے جو انہیں مسلط کرتے ہیں اور انہیں برقرار رکھتے ہیں۔ دوسری طرف اکاؤنٹبیلٹی بیورو اور احتساب کے عمل کو سیاسی انتقام کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اور انتظامیہ کو جعلی مقدمات اور دیگر پرتشدد ہتھکنڈوں کے ذریعے مخالفین کی آواز کو دبانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ ان غیر جمہوری حربوں کی موجودگی میں ایک ہی صفحے (ملٹری اسٹیبلشمنٹ اور حکومت) کا منطق ہائبرڈ سسٹم میں ایک سیاسی چال بن جاتا ہے۔

عام طور پر جب کوئی مقبول لیڈر یا یہاں تک کہ کوئی سیاسی جماعت الیکشن جیتتی ہے، اگرچہ وہ انتخابات آزاد اور منصفانہ ہوتے ہیں۔ لیکن اقتدار میں آنے کے بعد وہ پارٹی یا لیڈر پھر اپنی حکمرانی کو بڑھانے کے لیے آئین میں ترامیم کرتا ہے۔ یہ ہم ترکی کے رجب طیب اردگان کے معاملے میں دیکھ چکے ہے۔

جب پاکستان کی بات آتی ہے تو عمران خان کی قیادت میں پی ٹی آئی کی زیر قیادت مخلوط حکومت کے قیام کے بعد ہائبرڈ حکومت کی لغت سامنے آئی۔ کیا یہ حکومت واقعی ایک ہائبرڈ حکومت کہلانے کی مستحق ہے؟ بدعنوانی کے بوسیدہ نعرے، اور مخالفین پر طاقت کے استعمال کو کس طرح جائز قرار دیا جا سکتا ہے اور ساتھ ساتھ میں میڈیا کی آواز کو دبانے کے حکومتی اقدامات کو کیسے حق بجانب کہا جا سکتا ہے؟ ایک بات یقینی ہے کہ موجودہ حکومت کی پالیسیاں لبرل جمہوریت کی بنیادی روح سے متصادم ہیں۔ اور ہمارے جیسے ملک میں، جہاں سوشل میڈیا کے استعمال میں اضافہ، سیاسی شعور، متوسط ​​طبقے میں اضافہ، اور بڑے پیمانے پر، متحرک میڈیا کی موجودگی میں، اس طرح کی آمریت پسندانہ پالیسیاں زیادہ دیر تک باقی نہیں رہتیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments