ادبی تنقید اور فلسفانہ اصطلاحات کی تاریخ قسط نمبر4


نظم: فن شاعری

Ars Poetica

ہر شعبۂ حیات و تخلیق میں اہل یونان کی تنقیص و تقریظ والے نوشتے جدید علم و فکر کے فٹ نوٹس مانے جاتے ہیں۔ حریم یونان میں مفکرین کا غیر معمولی تفکر نے انھیں اس مقام پہ متمکن کر دیا ہے کہ علم اور اہل یونان ایک دوسرے کے مترادف بن چکے ہیں۔ تزئین ادب اور بڑا ادب تخلیق کرنے کے لئے یونانیوں کی ادب پر دور اندیشی، باریک بینی، ژرف نگاہی، آفاقی نظریات، اور غیر معمولی التفات کا مطالعہ کرنا ہو گا جس کی تقلید صاحب مضمون ہوریس بھی کرتے ہیں جو ایسی لازوال نظم لکھتے ہیں جس کا مفہوم آج کے عام و خاص ناقدین و شعرا کی زبان پہ من و عن ویسا ہی قائم ہے جیسا ہوریس نے بیان کیا۔ آج کے شعرا یہی باتیں اس انداز سے کہتے ہیں کہ ”ہمارے بزرگ شعرا کہتے تھے، میرے استاد کہتے تھے، وہ کہتے تھے یہ کہتے تھے“ لیکن دراصل وہ تمام باتیں رومی مفکر ہوریس کر کے گئے ہیں۔ بضاعت علم اکٹھا کرنے کے لئے یہ مستطاع 46 قبل مسیح میں اتھینز کی گرد و نواح میں ”اکیڈمی“ ڈھونڈنے نکل گیا۔

ادبی تنقید کا مطالعہ کرنا ترجیحات میں اول شمار کیا کیونکہ ہمارے یہاں بہت سارے افراد ایسے ہیں جو کتب کے titles پھینک پھینک کر مصنفین کے اہم نظریات بتا کر (جو کہ آج کے دور میں جاننا انتہائی آسان ہے ) اور خلاصے رٹنے والے سننے والوں پر اپنا اثر چھوڑنا چاہتے ہیں وگرنہ جب اس شاہراہ سے خود گزرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے ان صاحبان نے محض چلتی ہوئی گاڑی سے رستے میں لگے بورڈز کی بس سرخیاں پڑھی ہیں تفصیل وہ بھی نہیں جانتے تھے۔

ہوریس کی تصنیف کا PDF ہاتھ لگا جس میں طویل نظمیں شامل ہیں ہوریس نے نظمیہ صورت میں اپنے نقطۂ ہائے نظر پیش کیے جن میں ایک نظم Ars poetica یعنی ”فن شاعری“ شامل ہے۔ یہ نظم پیسو خاندان کے کسی فرد کو فن شاعری کی ریزہ کاری سے آگاہ کرنے کے لئے لکھ رہا ہے۔ اس نظم سمیت ہوریس کے مکمل کلام میں ایک خصوصیت بطور خاص داد کی مستحق ہے، وہ ہے موقف کو پیش کرنے کے لئے آفاقی دلیل کا سہارا لینا۔ ایسے عمدہ مصرعے ملیں گے کہ داد دیے بغیر نہ رہ سکیں گے۔

ہوریس نظم کی ابتدا متن میں ہم آہنگی اور اتحاد کی تلقین کرنے سے کرتا ہے کہ اگر ایک مصور گھوڑے کی گردن پہ انسانی سر، دوسرے اعضا کی جگہ مختلف حیوانوں کے اعضا، اور مختلف رنگوں کے پنکھ لگا دے، جو اوپر والے دھڑ سے عورت لگتی ہو اور نیچے والے سے سیاہ مچھلی۔ ایسی مصوری جب عوام کے سامنے پیش کی جائے تو سوائے قہقہے لگانے کے کوئی دوسرا اظہار نہیں ہو گا۔ اس خصوصیات پہ مشتمل کتاب پر بھی لوگوں کا اظہار ایسا ہی ہو گا۔ عہد حاضر میں تو Fantasy ایک مکمل صنف بن چکی ہے جو آج بھی مصنف اور شاعر کی آزادی کے لئے نعرہ زن ہے، اسی طرح ہوریس کے نزدیک بھی تخیل کے اظہار پر آزادی ہے مگر وہ ممکنات کی حدود سے تجاوز نہ کرے۔

”I claim that license, and grant it in turn:
But not so the wild and tame should ever mate,
Or snakes couple with birds, or lambs with tigers. ”

ہوریس نے موضوع پر متوجہ رہنے کے متعلق کہا کہ اگر ڈوبتے ہوئے بحری جہاز سے گرنے والے شخص کو تیراکی کرتے دکھانا مقصود ہو تو ایسی جگہ cypress یعنی سرو کے درخت دکھانا بہت بڑا عیب ہے۔ لہٰذا جس موضوع پہ لکھا جا رہا ہے اس پر دھیان دینا چاہیے۔ اسی ضمن میں مزید لکھتے ہیں کہ ہمارے یہاں انتہائی اختصار سے کام لینے والوں کا کلام مبہم ہو جاتا ہے اور بعض اوقات مفہوم سے قاصر، کبھی سلیس زبان استعمال کرتے کرتے گویا تحریر سے واضح ہوتا ہے کہ شاعر کے اندر کے شعلے سلگھنے چھوڑ چکے ہیں۔ اس لئے اکثر شعرا اپنی عزت و تکریم کے لئے مشکل لفاظی میں پڑ جاتے ہیں اور یہ چیز انھیں مزید نقائص تک کھینچ لے جاتی ہے۔

”Avoiding faults leads to error, if art is lacking“

ہوریس شعرا کو باور کراتا ہے کہ ہر شاعر اپنے تخیل کی زمین پہ جس خیال کی معیاری فصل اگا سکتا ہے وہی بوئے یعنی ایسا مضمون چنا جائے جس پہ علمی اور منطقی دسترس ہو رکھتا ہو۔ جس مضمون پہ لکھنا چاہتے ہیں اس پر غور و فکر کیا جائے کیونکہ شاعر جب اپنی طبعیت کے مطابق موضوع کا انتخاب کرتا ہے تو نہ صرف لفظوں کی کمی محسوس نہیں کرتا بلکہ ترتیب اور اتحاد و ہم آہنگی بھی ساتھ نہیں چھوڑتی۔ اسی گفتگو کو آگے بڑھاتے ہوئے ہوریس وہ بحث چھیڑتا ہے جسے اردو زبان کا تقریباً ہر شاعر اپنا طرہ امتیاز سمجھتا ہے اور اسی بنا پہ خود کو جدید شاعر کہلواتا ہے یعنی زبان کے ساتھ تجربے کرنا۔ اول تو متروک اور مشکل الفاظ کو استعمال کرنے والا ہوریس کی نظر میں اور آج کے ہر قاری کی نظر میں اپنے آپ کو متروک کرنے کا سامان پیدا کرتا ہے لہٰذا عام زبان میں نئے تجربے کرنا اچھے شاعر کی پہچان ہے۔ ان تجربوں کا حق ہر ایک شاعر کو حاصل ہے کہ وہ پرانے مگر مستعمل الفاظ کو نئے معنی عطا کرے :

”When Cato ’s and Ennius‘ speech revealed new terms,
Enriched our mother-tongue? It ’s been our right, ever
Will be our right, to issue words that are fresh-stamped. ”

یہاں دو مصرعے اور بطور خاص توجہ طلب ہیں جن میں ہوریس پرانے الفاظ کو جنگل کے پتوں سے تشبیہ دیتا ہے جو ہر سال گرتے ہیں، گزرے برس گردانتا ہے جو گزر ہیں :

”As the forest shed their leaves, as the year declines,
And the oldest fall, so perish those former generations
Of words, while the least, like infants, are born and thrive. ”

بہت سارے الفاظ ایسے ہوتے ہیں جو اپنی ضرورت کے وقت مرنے کے بعد دوبارہ بھی زندہ ہو جاتے ہیں اور پہلے سے زیادہ قوی شناخت بنا لیتے ہیں۔ ہمارے ہاں جب چند زبان و بیان کے پروگرامز نے عوام کو ازسر نو اردو کے متروک الفاظ بولنے کی ترغیب دی۔

روایت یونان کی مثال سے ہوریس 73 سے 118 تک مصرعوں میں صنف اور ہر صنف کے بنیادی اصول پہ بات کی ہے اور ان کو ان کے مقررہ دائروں میں استعمال کرنے کی تلقین کی۔ ہوریس نے بتایا نظموں میں تاثیر ہونی چاہیے خواہ وہ کامیڈی ہو یا ٹریجڈی (اس جملے کا لطف لیجئیے ) :

”It ’s not enough for poem to have beauty: they must have
Charm, leading their hearer ’s heart wherever they wish.
As the human face smiles at a smile, so it echoes
Those who weep ”
(مسکراتے ہوئے چہرے مسکراہٹوں کی طرف دیکھتے ہیں اور رونے والے رونے والوں کی طرف)

اگر نظم میں استعمال کی گئی زبان ہم آہنگ یا دلچسپی پیدا نہیں کرتی تو نیند آنا ناگزیر ہو جائے گا۔ ہر کردار کے ہر قول و فعل کو اس کے کردار سے مطابقت رکھنی ضروری ہے۔

اس نظم کا ایک رخ جب روایت میں استعمال کردہ اصناف سخن کے قوانین پہ کاربند رہنے کی تلقین کرتا ہے اور اسی طرح وہ پیسو خاندان کے افراد کو نصیحت کرتا ہے کہ روایتی موضوعات میں طبع آزمائی کرو مگر اپنا جدا اسلوب پیدا کرو اور اس پہ قائم رہو۔ جب بھی کچھ نیا تخلیق کریں تو اسے شروع سے آخر تک مربوط اور ہم آہنگ رکھیں۔ پرانے موضوع برتنے سے آپ کا اپنا منفرد اسلوب پیدا ہونا بہت کٹھن ہو جائے گا۔ مثلاً ہمارے یہاں بہت سارے اشعار ڈاکٹر محمد اقبال کے نام سے منسوب صرف اس لئے ہو جاتے ہیں کہ کئی شعرا اس اسلوب میں شعر کہتے ہیں۔

ہوریس کہتا ہے ایسا کلام اور ڈرامہ جسے عوام میں دکھانا یا پڑھنا درست نہ ہو ان سے گریز کرنا چاہیے۔ ان لائنز سے اخلاقی اقدار کا تحفظ بھی مراد لیا جا سکتا ہے اور ایک ناکام سپہ سالار اور ارباب بست و کشاد کا تابعدار بھی مراد لیا جا سکتا ہے کیونکہ وہ کلام و ڈرامہ جو حاکم وقت کے خلاف ہو محض اس وقت مقبولیت پاتا ہے جب شاعر یا مصنف موت کے گھاٹ اتارا جائے۔

ہوریس اس بات پہ زور دیتا ہے کہ ایک ڈرامہ پانچ ایکٹ سے بڑھنا نہیں چاہیے اسی طرح وہ سٹیج پہ بیک وقت تین افراد سے زیادہ کا آپس میں مکالمہ دکھانے کے حق میں نہیں۔ اس کے علاوہ ”کورس“ کے بارے میں ہوریس کہتا ہے :

”It should favour the good, and give friendly advice,
Guide those are angered, encourage those fearful
Of sinning, praise the humble table ’s food, sound laws
And justice, and peace with her open-wide gates ”

کورس اچھائی کی نصیحت کرنے والا ہو تاکہ ڈرامے سے اعلیٰ مقاصد کا حصول بھی ممکن بنایا جائے اور معاشرے پہ اس کے کچھ مثبت اثرات بھی مرتب ہوں۔ اس نقطے پہ ہوریس سماجی مسائل کے حل کی سعی کو بھی شعرا کی ذمہ داری قرار دیتا ہے۔ ہوریس ناکام سپہ سالار تھا اور ارباب بست و کشاد کا تابعدار بھی، اس لئے اس کا باپ جو آزاد غلام تھا اس کی رگوں میں سرایت کرتا رہا اور ادب میں بھی طبقاتی سوچ سے فرار پانا ہوریس کے لئے انتہائی کٹھن ہو گیا۔

علم عروض پہ اختصار مگر جامع بحث کی، ہوریس لکھتا ہے کہ ہر نقاد اتنا باشعور نہیں ہوتا کہ بحر سے خارج ہونے والے مصرعے کو فوراً پہچان لے لہٰذا لکھنا چاہیے۔ دوئم حقیقی شاعر کو یہ سب سیکھنے کی ضرورت نہیں پڑتی تو کیا شعرا کو بالکل آزاد ہو کر لکھنا چاہیے؟

”Should I run wild then, and write freely?“

ہوریس کہتا ہے علم عروض سیکھا تو جا سکتا ہے لیکن شاعری کا تعلق spontaneous یعنی فی البدیہہ خیالات سے ہیں نہ کہ آپ لکھنے کے ارادے سے بیٹھیں تو نظم تخلیق کریں ایسا کلام بھی داد کے لائق نہیں رہ جاتا پس یونانی magnum opuses کو رات دن دیکھنا یا پڑھنا چاہیے۔ اس حد تک مطالعہ کریں کہ خراب اور بہتر اشعار کی تقطیع اور وزن آپ کے کان فوراً کرنے لگیں۔ وہ نظم کو مستزاد یوں کرتا ہے پہلے ابتدائی لکھنے والوں یونانی شاہکار کا مطالعہ کرنے کا مشورہ دیتا تو دوسری طرف بتاتا ہے کہ روایت سے استفادہ تو کرنے میں مسئلہ نہیں البتہ اسے ترک کرنا بھی ضروری ہے۔ رومن ادب کی مثال دیتے ہوئے کہتا ہے ہمارے یہاں ادب میں بڑی کامیابیاں یونانی روایت ترک کرنے سے بھی ہوئیں۔

”ہم اچھے شعرا کیسے بنیں“ اس ضمن میں وہ Democritus کا قول نظم کا حصہ بناتا ہے جس میں وہ کہتا ہے کہ شاعری فطری صلاحیت پرانی اور پیچیدہ اصولوں سے بہتر ہے۔ اس میں وہ پہلا اصول یہ بتاتا ہے کہ:

”Wisdom ’s the source and fount of excellent writing.“

دوسرا: کردار کی درست عکاسی اور موزوں زبان پیش کرنا تاکہ زندگی کی ”نقل“ imitation بالکل اصل کی طرح ہو جائے۔ تیسرا مسئلہ شہرت کا ہے جو ہر دور کے شعرا کا مشترک مسئلہ ہے لیکن ہوریس نے ایسے شعرا پہ لعن کرتے ہوئے کہا کہ منافع اور شہرت کی توقع میں لازوال ادب تخلیق نہیں ہوتا، یہ ادب سنبھال کے رکھنے والا نہیں ہوتا۔

”When this care for money, this rust
Has stained the spirit, how can we hope to make poems
Fit to be wiped with cedar-oil, stored in polished cypress? ”

شعرا کا مقصد دلچسپی پیدا کرنا اور اپنے اشعار سے مقصدیت کا اظہار کرنا ہوتا ہے لیکن اس میں نہ صرف اختصار کا عمل دخل ناگزیر ہے بلکہ شعرا کو اس چیز سے احتراز برتنا ہو گا کہ جو جو چیز ان کے واہمے میں آ گئی ہے قارئین اور تماشائی ان سب پہ ایمان لائیں۔ ڈرامہ لکھتے وقت اپنے ملک و قوم کے ہر قسم کے تماشائی اور قاری کو مد نظر رکھنا پڑے گا۔ ہوریس بطور نقاد تھوڑے بہت نقائص کو نظر انداز کرنے کو تیار ہے جو انتہائی معیاری تخلیق میں لاپرواہی سے رہ گئے ہوں۔

”Where there are many beauties in poems,
A few bolts won ’t let offend me ”

مگر ان نقص کی اصلاح شعرا کا اولین مقصد ہونا چاہیے ورنہ بار بار ایک غلطی کرنا قابل مذمت ہے۔ کیونکہ اگر شاعری کے لئے طبع موزوں نہیں ہے تو اپنا مذاق بنوانے سے بہتر ہے کہ دور سے کھیل دیکھا جائے اور اس کا لطف لیا جائے۔ ہوریس ایک مخلص نقاد کی حیثیت سے شعرا کو ایک انتہائی مفید مشورہ دیتا ہے جس میں اپنا کام وہ خود کسی سے بھی بہتر طریقے سے پرکھ سکتے ہیں وہ ہے، تخلیق کر کے کم از کم نو مہینے تک بھول جانا۔ پھر کاغذات اٹھا کر دیکھیں کیا کمی بیشی ہے۔ یہ طرز انتہائی بہتر ہے وگرنہ ایک بار باہر نکلا لفظ ہوا میں گم ہو جاتا ہے لیکن واپس نہیں لیا جا سکتا۔

ہر دور میں شعرا کا رجحان صاحبان مال و اقتدار کی طرف رہا ہے اور وہ افراد اگر شاعر بھی ہوں شعرا کی خوب محفلیں سجتی ہیں ہر وقت خوشامدیوں اور مدح سرا شعرا کا حلقہ ان کے گرد رہتا ہے، محبت بھرے لہجوں میں نظمیں اور کتابیں انتساب ہوتی رہتی ہیں۔ عام شعرا اگر ایسے افراد کے مقروض یا احسان مند بھی ہوں تو کچھ ہی مت پوچھئیے کیا ہوتا ہے۔ ہر بیکار اور تخلیقی حس سے خالی مصرعہ بھی ”واہ واہ، بہت خوب، عمدہ“ جیسی داد پا لیتا ہے۔ یہ شعرا صاحبان اقتدار و زر کی اداس نظم سن کر اداس ہونا جانتے ہیں اس طرح جیسے کسی جنازے پہ کرائے کا سوگوار بنایا ہو، ان کا ایک عاد آنسو بھی داد کی شکل میں نکل آتا ہے اور اچھی نظم سن محفل کی رونق بننا بھی جانتے ہیں۔ ہوریس انھیں چالاک لومڑیوں سے تشبیہ دیتا ہے۔

”To listen to your verse: he ’ll cry:‘ Lovely! Fine! Grand! ’
Now he ’ll grow pale, now he‘ ll even force dew
From his fond eyes, leap, and strike the ground.
As those hired to mourn at funeral do and say
Almost more than those who are grieving deeply,
The hypocrite ’s more‘ moved ’than the true admirer.
Don ’t be deceived by the fox‘ s hidden intent. ”

نظم کے آخر میں ہوریس شاعر کی کیفیت کو سمجھتے ہوئے اسے اس چیز کی اجازت دینا چاہتا ہے کہ وہ اپنی جان لینا چاہے تو لے سکتا ہے کیونکہ ایسے آدمیوں کو بچانا بھی انھیں قتل کرنے کے مترادف ہے۔

”Grant poets the powers and right
To kill themselves: who save one,
Against his will, murder him. ”


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments