یہ تھی وہ زبردست ٹیم


عمران خان کنٹینر پر چڑھتا تو الزام و دشنام کے بعد آغاز اس خوشخبری سے کرتا کہ کابینہ چند افراد پر ہی مشتمل ہوگی ( بعد میں تاریخ کی سب سے بڑی کابینہ تشکیل دی ) البتہ میرے ساتھ دو سو ماہرین کی ٹیم ہوگی اور میں نوے دنوں میں تبدیلی لے آوں گا۔

اس خوشخبری پر کنٹینر کے سامنے ”ہم رقصوں“ کا جوش دیدنی ہوتا لیکن جب ہم لکھنے والے پس منظر کے حقائق کو مدنظر رکھ کر سوال اٹھاتے تو قبیلہ رقصاں سے صبح شام دھمکیوں کے ساتھ ساتھ ماں بہن کی گالیاں بھی سنتے رہتے۔

خیر عمران خان اپنی ٹیم سمیت دو ہزار اٹھارہ کے فتنہ انگیز انتخابات کے بعد میدان میں اترے تو خان صاحب اور ان کی ٹیم کا امتحان شروع ہوا۔

سو اختصار کے ساتھ ملاحظہ ہو کپتان اور اس کا ٹیم اور ان کی کارکردگی!

اسد عمر کو معاشی ٹیم کا سربراہ بنا دیا گیا اور پہلے ہی دن سے معاشی تباہی کا آغاز ہوا۔ تریپن ہزار کا سٹاک ایکسچینج چوبیس ارب ڈالر کے مالیاتی ذخائر باون ارب ڈالر کا سی پیک سو روپے کا ڈالر پینسٹھ روپے لیٹر کا پٹرول پچپن روپے والی چینی ایک سو چالیس روپے لیٹر والا کوکنگ آئل اور ساتھ ساتھ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے خراج لیتا اور اڑان بھرتا معیشت اس حال کو پہنچا کہ اسد عمر کو بھگا دیا گیا بعد میں حفیظ شیخ سے شوکت ترین تک سب باری باری معاشی لاش کو محض کندھا دینے آئے کیونکہ معیشت تو ان معاشروں میں پروان چڑھتا ہے جہاں جمہوریت اور امن معاشرے کے دریا کے دو پاٹ ہوں لیکن یہاں تو معاملہ ہی الگ ہے۔

تا ہم عمران خان کی معاشی ٹیم نے کم از کم یہ احسان تو کیا کہ ”چور اور ڈاکو“ اسحاق ڈار کو بھوک سے بلکتے لوگوں نے اپنے محسن اور مسیحا کے طور پر نہ صرف یاد کرنا شروع کیا بلکہ انہیں بلانے کا مطالبہ بھی کرنے لگے۔

ٹیم کے اگلے رکن پرویز مشرف سے وراثت میں ملنے والے فروغ نسیم تھے جن کے ہاتھ میں آئین و قانون کی سربلندی کا علم دیا گیا تو موصوف نے کامیابیوں کے وہ جھنڈے گاڑے کہ سپریم کورٹ کا معزز ترین جج جسٹس فائز عیسی صبح صبح اپنی پڑھی لکھی اہلیہ کے ساتھ سپریم کورٹ میں پیش ہو کر سارا دن ملزموں کے کٹہرے میں کھڑا رہتا

اسلام آباد ہائی کورٹ کے دلیر اور حق گو جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی۔ سے جسٹس وقار احمد سیٹھ مرحوم تک کسی معزز جج کا منصب اڑا دیا گیا تو کسی کی عدالت!

حالت یہاں تک پہنچی کہ پاکستان بھر کے وکلاء سڑکوں پر ہیں اور پلاٹوں کی کہانیاں گلی گلی پھیل گئی ہیں

وزیراعظم عمران خان کی شاندار ٹیم میں وزارت اطلاعات کے لئے نایاب لوگوں کو تلاش کیا گیا تا کہ عوام تک بروقت اطلاع اور خبر پہنچائی جائے

فردوس عاشق اعوان اپنی ہاتھا پائی اور گالم گلوچ تو شہباز گل اپنی طعنہ زنی سمیت نمودار ہوئے۔ عاصم باجوہ شبلی فراز اور افتخار درانی بھی حسب استطاعت اپنا اپنا حصہ ڈال گئے اور نکال بھی دیے گئے۔

لیکن ٹیم کے اصل سربراہ فواد چودھری ٹھہرے جنہوں نے صحیح معنوں میں صحافت کا مکو ٹھپ دیا تاکہ نہ رہے بانس اور نہ بجے بانسری۔

کیونکہ کارکردگی ہے نہیں اور تنقید کا برداشت نہیں۔

عمران خان نے دو سو افراد کی جو ٹیم بنا کر ملک کی تقدیر سنوارنی تھی اس میں رضاکارانہ طور پر ایک نوجوان زلفی بخاری کی صورت میں بھی نمودار ہوا

موصوف کی اہمیت کا اندازہ تو اس وقت ہو چکا تھا جب عمران خان اسے اپنے ساتھ سعودی عرب لے جانے پر اس قدر بضد تھا کہ جہاز کو اس وقت تک ائر پورٹ پر روکے رکھا جب تک زلفی بخاری کا نام ہنگامی بنیادوں پر ای سی ایل سے نکلوا کر جہاز پر نہیں پہنچایا گیا

زلفی بخاری صبح و شام سابق حکمرانوں کو چور ڈاکو کہتے کہتے ہلکان ہو رہا تھا کہ اچانک اربوں کی کرپشن والے راولپنڈی رنگ روڈ سکینڈل میں نام آ گیا لیکن حسب توقع لندن سدھار گئے۔

کیونکہ فی الحال جیلوں کی سہولت صرف عمران خان کے مخالفین کو حاصل ہے۔

اس ٹیم میں خان صاحب عامر کیانی کو بھی شامل کر گئے تھے تاکہ عوام کو صحت کی بہترین سہولتیں مہیا کیے جا سکیں لیکن ارب پتی میڈیسن کمپنیوں نے عامر کیانی کو وہ وہ ”سہولیات“ فراہم کیے کہ دوائیں پانچ سو فیصد مہنگی ہو گئیں اور علاج دعاؤں پر آ کر ٹھہری۔

تا ہم ایک بار پھر حسب توقع معاملہ ہوا یعنی ملزم معزز ہی ٹھرا۔

یادش بخیر جہانگیر ترین خان صاحب کے سہولت کار اور ”ٹیم“ کے سب سے اہم رکن تھے ممبران اسمبلی کے سودے ترین صاحب کے ہاتھ پر انہی کے جیب سے ہوئے ، پھر عوام پچپن روپے والی چینی ایک سو دس روپے پر خریدنے لگے ہیں۔

یہی معاملہ معمولی رد و بدل کے ساتھ خسرو بختیار اور رزاق داود وغیرہ کے حوالے سے بھی ہے۔

ٹیم کے سب سے ”فعال“ رکن عثمان بزدار ہیں جو کسی ”روحانی طاقت“ کے بل بوتے پر تونسہ کے تحصیل ناظم سے اچانک جمپ لگا کر پورے پنجاب کے حکمران بنے لیکن وزیر اعلی صاحب کی کارکردگی اور فعالیت کا اندازہ اس سے لگائیں کہ اس کے سابق مشیر شہباز گل ایک بوڑھی دیہاتی خاتون سے اپنے وزیر اعلی کا تعارف شہباز شریف کے حوالے سے کرانے لگے تھے۔

اس ٹیم میں وہ شیخ رشید بھی اپنے ویژن سمیت موجود ہیں جنہیں خان صاحب چپڑاسی لگانے پر بھی تیار نہ تھا لیکن ان کا حیرت انگیز ویژن دیکھ کر پہلے انہیں ریلوے کا وزیر بنایا اور مسلسل ریلوے حادثات اور مالی نقصانات کے بعد شیخ صاحب کو ترقی دے گر محکمہ داخلہ کا قلمدان سونپا۔ شیخ رشید کا تازہ فرمان یہ ہے کہ سیاستدان صرف تقاریر کریں گے یا الیکشن لڑیں گے جبکہ فیصلوں کا اختیار کسی اور کے پاس ہو گا۔

دو سو ارب ڈالر لائے گی والا مراد سعید ٹیم میں عمران خان کے قابل اعتماد جوہر ہیں۔

وزارت مواصلات میں اربوں کا کرپشن زیر بحث تو ہے لیکن زیر سماعت ہرگز نہیں کیونکہ مراد سعید کا تعلق کسی اپوزیشن جماعت سے تھوڑا ہے۔

اور پہلے خان صاحب کے کسی ساتھی کے ساتھ ایسا ہوا ہے جو مراد سعید کے ساتھ ہو۔

بہت ساری سیاسی جماعتوں سے گھوم پھر کر تحریک انصاف کی دہلیز پر خیمہ لگانے والے اعظم سواتی بھی ٹیم میں شامل ہیں جن کا بیانیہ ہے کہ الیکشن کمیشن کو آگ لگادی جائے۔

حیرت ہے کہ عمران خان نے ابھی تک اپنے پسندیدہ بیانیے پر اعظم سواتی کی پیٹھ کیوں نہیں تھپتھپائی اور انہیں زبردست آدمی کیوں نہیں کہا۔

پرویز خٹک مالم جبہ اور بی آر ٹی کی کامیاب نمائش کے بعد ٹیم کے ایک اہم ر کن کی حیثیت سے مزید کامیابیوں کی جانب گامزن ہیں۔ خبر ہے کہ ان کے بھائی لیاقت خٹک اگلے الیکشن میں پرویز خٹک کے مقابل ہوں گے جبکہ دونوں کے بیٹے صوبائی اسمبلی میں ایک دوسرے کا سامنا کریں گے۔ گویا اینج ہے تے فیر اینج ہی سہی۔

حال ہی میں ٹیم کے لئے خان صاحب کی نگاہ دانش اپنے پرانے ساتھی رمیز راجہ پر پڑی تا کہ عوام کو حاصل واحد ذریعہ لطف و نشاط پر بھی دوسرے معاملات کی طرح ہاتھ صاف کر دیا جائے۔ رمیز راجہ نے آتے ہی اپنی شاندار پرفارمنس اور برکت دکھائی اور نیوزی لینڈ کرکٹ ٹیم کا دورہ عین آخر وقت میں منسوخ ہو گیا لیکن اس میں شرم کی کیا بات ہے؟

خان صاحب کسی وقت اپنا تکیہ کلام دہرائیں گے کہ رمیز بہت زبردست آدمی ہے۔ اور ایک غول اس سے مطمئن بھی ہو جائے گا

ٹیم کے کچھ ارکان مزید کامیابیوں کی کھوج میں لا پتہ بھی ہیں

امکان ہے کہ شبر زیدی حفیظ شیخ اور انیل مسرت وغیرہ اچانک زبردست خوشخبریاں لوٹ کر آئیں گے اور وزیراعظم عمران خان خوش خبریوں سمیت اسی طرح ٹیلی ویژن پر نمودار ہوں گے جس طرح سمندر سے گیس کی دریافت پاکستان کو سیاحوں کے لئے جنت نوجوانوں کے لئے آسان قرضوں کے ساتھ کاروباری مواقع اور انڈوں چوزوں کٹوں اور بکروں سمیت نمودار ہوئے تھے۔ اللہ کرے کہ نئی خوش خبریوں کا انجام بھی پرانی خوش خبریوں جیسا نہ ہو۔

لیکن کسی خوش فہمی میں کیا رہنا کیونکہ سامنے پڑے بد ترین تباہی کے باوجود بھی کوئی جا کے عمران خان کی نالائق ٹیم کے کسی نالائق ترین رکن کے بارے بھی سوال کرے تو خان صاحب سابق حکمرانوں کو چند عدد گالیاں دینے کے بعد یہی جواب دیں گے کہ وہ میری ٹیم کا زبردست رکن ہے اور وہ بہت زبردست کام کر رہا ہے۔

سو یہ ہے عمران خان کی وہ ٹیم جس کا ڈھنڈورا کنٹینر پر پیٹا گیا تھا اور میڈیا نے سادہ لوح عوام کے ذہنوں میں گھسیڑ دیا تھا

جس سے ہماری تاریخ کی ایک ایسی تباہی بر آمد ہوئی کہ مستقبل کا سوچتے ہوئے کلیجہ منہ کو آنے لگتا ہے۔

حماد حسن
Latest posts by حماد حسن (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments