سیکیورٹی کے خدشات کی بنا پر دورہ منسوخ کیا گیا، نیوزی لینڈ؛ سیکیورٹی کا مناسب بندوبست تھا، پاکستانی حکام و تجزیہ کار


نیوزی لینڈ کی کرکٹ ٹیم جو 18 برس بعد پاکستان کے دورے پر آئی تھی، کوئی میچ کھیلے بغیر سیکیورٹی کے مبینہ خطرات کی بنا پر ہفتے کے روز چارٹر فلائٹ کے ذریعے واپس جا رہی ہے۔

اس ضمن میں نیوزی لینڈ کرکٹ ٹیم نے کہا ہے کہ سیکیورٹی کے معاملے پر تشویش کے باعث اسے دورہ پاکستان منسوخ کرنا پڑا۔

ایک اخباری بیان میں نیوزی لینڈ کی کرکٹ ٹیم نے بتایا کہ ”نیوزی لینڈ کی حکومت کی جانب سے پاکستان میں سیکیورٹی صورت حال سے متعلق جاری کردہ سکیورٹی الرٹ اور سرزمین پر موجود نیوزی لینڈ کے سیکیورٹی کے مشیروں کا مشورہ سامنے آنے کے بعد فیصلہ کیا گیا ہے کہ ‘بلیک کیپس’ اپنا دورہ جاری نہیں رکھ پائیں گے”۔

‘بلیک کیپس’ کے چیف اگزیکٹو، ڈیوڈ وائٹ نے کہا کہ وہ ”ملنے والے مشورے سے صرف نظر نہیں کر سکتے”۔

نیوزی لینڈ کرکٹ ٹیم کے منتظم اعلیٰ کے الفاظ میں، ”مجھے اس بات کا بخوبی ادراک ہے کہ اس کی وجہ سے پاکستان کرکٹ بورڈ کو دھچکہ لگے گا، لیکن کھلاڑیوں کا تحفظ ہماری اولین ترجیح ہے، اور ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارے لیے یہی ایک ذمہ دارانہ آپشن ہے”۔

ادھر، پاکستان کے وزیر داخلہ شیخ رشید کا کہنا ہے کہ نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم نے کہا ہے کہ ‘تھریٹ’ کا مسئلہ نہیں ہے، لیکن ان کی اطلاعات یہ ہیں کہ جب ٹیم باہر نکلے گی تو اس پر کوئی حملہ ہو سکتا ہے۔ اور اس بنا پر انہوں نے یہ دورہ یک طرفہ طور پر منسوخ کر دیا۔ شیخ رشید نے مزید کہا کہ ہمارے پاس یا کسی بھی ادارے کے پاس ٹیم سے متعلق کوئی ‘تھریٹ’ نہیں تھی۔ بقول ان کے، دورے کو ایک سازش کے ذریعے ختم کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ جس نے یہ سازش کی، بقول ان کے، اس کا نام ظاہر کرنا ابھی مناسب نہیں ہے۔

پاکستان میں سیکیورٹی کے ماہرین بھی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ بظاہر ٹیم کے لئے ”کوئی حقیقی خطرہ نہیں تھا”۔

سیکیورٹی کے ممتاز تجزیہ کار جنرل (ر) نعیم لودھی نے وائس آ ف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ حالات میں گزشتہ پندرہ روز کے دوران کوئی ایسی تبدیلی نہیں ہوئی جس کی بناء پر کہا جائے کہ کوئی خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ گزشتہ دو ماہ سے بس ایک ہی خطرہ تھا جو کہ بلوچستان کے علاقے تک محدود تھا, جہاں کبھی کبھی کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی کچھ باقیات حملے کرتی رہی ہیں، جہاں ان کے ہدف واضح ہیں۔ اور اس سے پہلے جنوبی افریقہ کی ٹیم کھیل کر گئی ہے اور سارے کام یہاں معمول کے مطابق ہو رہے ہیں۔

تجریہ کار نے کہا کہ وہ نہیں سمجھتے کہ واقعی ایسا کوئی خطرہ تھا جس کی بنیاد پر نیوزی لینڈ نے یہ فیصلہ کیا ہو۔

جنرل نعیم نے کہا کہ ان کا یہ محض اندازہ ہے اور وہ قطعیت سے کچھ زیادہ نہیں کہہ سکتے۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ان کے خیال میں ٹیم کی سیکیورٹی کے لئے کوئی خطرہ تھا نہیں۔ البتہ، نیوزی لینڈ کو یہ عندیہ دیا گیا کہ کوئی خطرہ پیدا کیا جا سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس کا مقصد پاکستان کو شرمندہ کرنا اور بات نہ ماننے کی سزا دینا ہو سکتا ہے۔ اور ایف اے ٹی ایف ہو یا آئی ایم ایف یا دوسرے ادارے ہوں, وہاں پاکستان کے ساتھ روا رکھا جانے والا سلوک اس رجحان کی تائید کرتا ہے۔ لیکن، انہوں نے کہا کہ اگر پاکستان اپنی آزاد خارجہ پالیسی کے لئے کوئی قربانی دینے کو تیار ہے تو یہ کوئی بڑی قربانی نہیں ہے۔

تسنیم نورانی پاکستان کے ایک سابقہ سیکرٹری داخلہ اور سیکیورٹی کے امور کے ماہر ہیں۔ وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس قسم کی سنسنی پاکستان کا دشمن ہی پھیلائے گا۔

انہوں نے کہا کہ جہاں تک ٹیم کے تحفظ کا مسئلہ ہے پاکستان کی سیکیورٹی انتظامیہ برسوں قبل سری لنکا کی ٹیم کے واقعے کے بعد سیکیورٹی کے معاملے میں بہت محتاط ہے اور سمجھتی ہے کہ یہ کس قدر اہم ہے کہ اس کا اعادہ نہ ہونے پائے۔ اور اگر کوئی کچھ کرنا بھی چاہئے تو اسے باز رکھنے کے سارے نظام موجود اور فعال ہیں۔

بقول ان کے، ”ان ٹیموں کو جو پہلے بھی آتی رہی ہیں, سربراہ مملکت سے بھی زیادہ سیکیورٹی دی جاتی ہے۔ اور اس میں صرف پولیس ہی کی ذمہ داری نہیں ہوتی بلکہ فوج اور دوسرے انٹیلی جینس ادارے بھی شامل رہتے ہیں۔ اس لئے وہ سمجھتے ہیں کہ سیکیورٹی سے متعلق واقعی کوئی خطرہ نہیں تھا۔ اور نیوزی لینڈ والوں کو گمراہ کیا گیا اور ان کو بڑھا چڑھا کر بتایا گیا، جس کا مقصد پاکستان کو شرمندگی سے دوچار کرنا تھا”۔

انہوں نے کہا کہ ”ایسے مزید واقعات کی توقع کی جا سکتی ہے”۔

تسنیم نورانی کے الفاظ میں ”اگر نیوزی لینڈ کی حکومت کے پاس ایسی اطلاعات تھیں تو اسے پاکستان سے شئیر کرنا چاہئیے تھا اور یک طرفہ فیصلہ نہیں کرنا چاہئیے تھا۔ اور ایسی کوئی رپورٹس نہیں ہیں کہ انہوں نے اپنی اطلاعات پاکستان سے شئیر کی ہوں”۔

انہوں نے کہا کہ یہ میچ ملک کے ہر شہر میں نہیں ہونے والے تھے؛ بلکہ راولپنڈی، اسلام آباد اور لاہور میں ہونے تھے۔ یعنی، انہیں جگہوں پر میچ رکھے گئے تھے جن کی مکمل حفاظت ممکن تھی۔ اس لئے، بقول ان کے، ”کسی خطرے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا”۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments