دی لانگ بوٹ لیڈی ان سپریم کورٹ
سپریم کورٹ سے رپورٹ کرتے ہوئے کئی برس ہوئے۔ وہی معمول کہ ہم صبح سویرے گھر سے نکل کر ہمارے آخری اسٹاپ یعنی سیدھا سپریم کورٹ کے کورٹ رومز میں ہوتے ہیں چاہے وہاں پاناما کیس ہو، طیبہ تشدد کیس یا پھر کوئی اور مقدمہ۔ کمرہ عدالت میں بڑے بڑے وکلا سے بات ہوتی ہے، سیاستدان بھی آتے ہیں اور پیشیاں بھگتنے کے لیے بیوروکریٹس بھی۔ مگر آج کل حالات ذرا اور ہی ہیں۔
پاناما کیس چل رہا ہے۔ کمرہ عدالت میں تل دھرنے کو جگہ نہیں۔ کچھ کرسیاں تو وزرا اور بقیہ ان کے کارندے گھیر لیتے ہیں کچھ پر پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور کچھ پر ان کا خود ساختہ اسکواڈ براجمان ہوتا ہے۔ ایسے میں خوش نصیبوں کو ہی کرسی ملتی ہے، یہ وہی مسئلہ ہے جس کا شکوہ پی ٹی آئی کی شیریں مزاری بھی کرچکی ہیں، تین گھنٹے عدالتی کارروائی چلتی ہے اور ہم رپورٹرز دھکم پیل میں یہاں وہاں ہوتے، رپورٹرز ڈائری پر سماعت کی اسٹوری لکھتے ہیں۔
آج بھی حسب معمول میں رپورٹرز، وکلاء، اسپیشل برانچ کے اہلکاروں اور سیاسی کارکنوں کے جھمگٹے میں کھڑی لکھنے کی کوشش کر رہی تھی کہ ایک مہربان خاتون نے مجھے اشارہ کرکے کہا کہ اگر کرسی کے ہینڈل پر بیٹھ سکتی ہو تو آ جاؤ، میں مردوں کے اس بھیڑ سے نکل کر دو کرسیوں کے درمیانی خلا میں موجود کرسی کے بازوں پر ٹک کر بیٹھی ہی تھی کہ دائیں جانب بیٹھی ایک اور خاتون نے مجھے کہنی سے ٹہوکا مارا \” تمھیں یہاں کس نے بٹھایا ہے۔ ہٹو یہاں سے۔ یہ میری کرسی کا ہینڈل ہے\” میں نے مسکرا کر بات کو نظر انداز کردیا کیونکہ مریم نواز کے دستخط کے حوالے سے ججز کے اہم ریمارکس چل رہے تھے۔ میں توجہ نہیں ہٹا سکتی تھی۔
ابھی چند منٹ ہی گزرے تھے کہ میں نے گلا صاف کرنے کی غرض سے معمولی سا کھانس لیا۔ یہی میرا جرم بن گیا۔ خاتون سیخ پا ہوگئیں کہنے لگیں \”تم یہاں جراثیم پھیلا رہی ہو ، باہر نکلو\” میں نے پھر التجا کی کہ محترمہ سماعت جاری ہے خاموش ہو جائیں، مگر خاتون کا ٹھسہ کچھ اور ہی تھا، بولیں \”تمھیں شرم و حیا نہیں ہے، بے غیرت قوم کی بے غیرت عورت\” ۔
چاہتی تو میں بھی منہ توڑ جواب دے سکتی تھی مگر میں عدالت عظمی کی رپورٹر ہوں۔ کمرہ عدالت کے آداب کا علم تھا۔ اس لیے خاموش رہی۔ ساتھ ہی موجود وفاقی وزیر قانون بیرسٹر ظفر اللہ نے مجھے یہ کہہ کر در گزر سے کام لینے کا مشورہ دیا کہ یہی خاتون ان سے بھی بدتمیزی کر چکی ہیں۔
کالے رنگ کے لانگ بوٹس اور سبز سوئیٹر میں ملبوس ان خاتون نیلوفر قاضی آفریدی کو نہ میں ذاتی طور پر جانتی ہوں نہ ہی اس گالی سے زیادہ ان کو جاننے کا کوئی شوق ہے ، مگر دوران سماعت جب جب مریم نواز کے وکیل اپنے کمزور دلائل پر گڑبڑائے ، یہ خاتون تالیاں بجانے لگتیں ، کبھی کرسی سے اچھل پڑتیں اور کبھی فرط جذبات سے اپنی ساتھ والی کرسی پر بیٹھی خاتون اینکر مہر بخاری کو تھپکیاں دینے لگتیں، کبھی پیچھے مڑ کر پی ٹی آئی کے رہنما شفقت محمود عباسی سے سرگوشیاں کرتیں اور کبھی ججز کو شاباشی دینے کے لیے کرسی سے اُچک اُچک کر اشارے کرتیں۔
سوال یہ ہے کہ ہم تو اپنی ڈیوٹی دے رہے ہیں۔ اسے مجبوری کہیں یا صحافتی انسٹنکٹ کہ ہم سب ہی اس کیس کو بہت قریب سے رپورٹ کر رہے ہیں، مگر کمرہ عدالت میں بھی اپنے پروٹوکول کے لشکاروں کی جھلک دکھاتے ان سیاستدانوں اور ان کے چمچوں کو یہ نہیں بھولنا چاہیئے کہ یہ وقت ہی ہے جس نے اس وقت کے حکمران کو آج کٹہرے میں لا کھڑا کیا ، اپنی گردنوں کے سریے جلد نکلوائیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ وقت آپ کو بھی عدالتوں کے چکر کاٹنے پر مجبور کردے۔
- اسامہ بن لادن بھی ”الم غلم“ کے رسیا نکلے - 21/06/2019
- شہباز شریف پان کھائیں، بند عقل کے تالے کھولیں - 28/06/2018
- منظور پشتین کس کا؟ بوگی نمبر گیارہ میں ہونے والا مکالمہ - 26/06/2018
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).