بھارتی پنجاب میں وزیر اعلیٰ کی تبدیلی: کانگریس کا سیاسی داؤ یا اختلافات کا نتیجہ؟


بھارتی پنجاب کے نو منتخب وزیر اعلٰی چرن جیت سنگھ کے حامی اُن کے پوسٹر اُٹھائے خوشی کا اظہار کر رہے ہیں۔

مرکز میں بھارت کی حزبِ اختلاف کی سب سے بڑی جماعت کانگریس پارٹی نے ریاست پنجاب میں ہونے والے اسمبلی انتخابات سے چند ماہ قبل ہی اپنا وزیر اعلیٰ تبدیل کر دیا ہے۔

کانگریس نے سینیئر رہنما کیپٹن امریندر سنگھ کو ہٹا کر ایک دلت رکن اسمبلی چرن جیت سنگھ چنی کو وزیرِ اعلیٰ مقرر کر دیا۔ اس طرح وہ بھارتی پنجاب کے پہلے دلت وزیر اعلیٰ بن گئے ہیں۔

چرن جیت سنگھ چنی نے پیر کے روز وزیرِ اعلیٰ کے عہدے کا حلف اٹھایا۔ ان کے ساتھ دو نائب وزرائے اعلیٰ بھی مقرر کیے گئے ہیں۔

وزیرِ اعلی کی تقریبِ حلف برداری میں سینئر کانگریس رہنما راہول گاندھی نے بھی شرکت کی۔

سابق کرکٹر اور موجودہ سیاست داں نوجوت سنگھ سدھو کو جولائی میں ریاستی کانگریس کا صدر نامزد کیے جانے کے بعد سے وزیر اعلیٰ کیپٹن امریندر سنگھ کے ساتھ ان کے اختلافات چلے آرہے تھے۔

یہ اختلافات گزشتہ ہفتے کے اختتام تک عروج پر پہنچ گئے اور وزیر اعلیٰ امریندر سنگھ نے ہفتے کی شام کو اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔

نئے وزیر اعلیٰ کی پہلی پریس کانفرنس

چرن جیت سنگھ چنی نے حلف اٹھانے کے بعد اپنی پہلی نیوز کانفرنس میں مرکزی حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ متنازع زرعی قوانین واپس لے۔انھوں نے کہا کہ وہ کسانوں کے مفاد کے لیے کام کرتے رہیں گے۔ بقول ان کے میں اپنی گردن کٹا دوں گا مگر کسانوں کو کوئی نقصان نہیں ہونے دوں گا۔

بھارتی پنجاب کے نئے وزیر اعلیٰ چرن جیت سنگھ چنی۔
بھارتی پنجاب کے نئے وزیر اعلیٰ چرن جیت سنگھ چنی۔

تجزیہ کاروں کے مطابق ان کا یہ اعلان کسانوں کے ووٹ کانگریس کی طرف منتقل کرنے میں معاون ثابت ہوگا۔

چرن جیت سنگھ کون ہیں؟

چرن جیت سنگھ چنی چمکور اسمبلی حلقے سے تین بار رکن اسمبلی منتخب ہوچکے ہیں۔ وہ سابقہ حکومت کے دوران ریاستی اسمبلی میں حزبِ اختلاف کے قائد تھے۔

وہ کیپٹن امریندر سنگھ کی کابینہ میں تین محکموں سیاحت و ثقافتی امور، ٹیکنیکل ایجوکیشن اور انڈسٹریل ٹریننگ کے وزیر رہے۔

چرن جیت سنگھ نے قانون اور بزنس ایڈمنسٹریشن کی ڈگری رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ انھوں نے پی ایچ ڈی بھی کر رکھی ہے۔

رپورٹوں کے مطابق وزیر اعلیٰ امریندر سنگھ کے خلاف نوجوت سنگھ سدھو کی مبینہ بغاوت سے قبل چنی دلتوں کے مسائل اٹھاتے رہے ہیں اور مبینہ طور پر ان مسائل پر توجہ نہ دینے کی وجہ سے وزیر اعلیٰ پر تنقید بھی کرتے رہے ہیں۔ وہ امریندر سنگھ کے خلاف کھل کر بولتے رہے ہیں۔

انھوں نے کیپٹن کی کابینہ میں دلتوں کو زیادہ نمائندگی دینے کا مطالبہ بھی کیا تھا۔

رپورٹوں کے مطابق 15 روز قبل وہ چار وزرا کے ساتھ پنجاب کے کانگریس انچارج ہریش راوت سے ملنے ڈیرہ دون گئے تھے۔ وہ کیپٹن کے خلاف ارکان اسمبلی کا اجلاس بلانے کا مطالبہ بھی کرتے رہے ہیں۔

قبل ازیں سال 2007 میں اسمبلی انتخابات کے موقع پر چمکور سے کانگریس امیدوار کے خلاف بغاوت کرتے ہوئے انھوں نے پارٹی چھوڑ دی تھی۔ انھوں نے آزاد امیدوار کی حیثیت سے الیکشن لڑا اور کامیاب ہوئے تھے۔

مستعفی ہونے والے وزیرِ اعلیٰ کیپٹن امریندر سنگھ۔
مستعفی ہونے والے وزیرِ اعلیٰ کیپٹن امریندر سنگھ۔

لیکن کیپٹن امریندر سنگھ کی کوششوں سے وہ 2010 میں دوبارہ کانگریس میں آئے۔ اس کے بعد انھوں نے سینئر کانگریس رہنما سی پی جوشی کے توسط سے راہول گاندھی سے رابطہ قائم کیا اور اس طرح وہ ان کے وفاداروں میں شامل ہو گئے۔

کیپٹن کے استعفے سے چنی کی نامزدگی تک

رپورٹس کے مطابق امریندر سنگھ کے استعفے کے بعد پارٹی نے سینئر رہنما امبیکا سونی کو وزیر اعلیٰ بنانا چاہا لیکن انھوں نے راہول گاندھی سے ملاقات میں یہ واضح کر دیا کہ وہ وزیر اعلیٰ بننا نہیں چاہتیں۔ انھوں نے مشورہ دیا کہ کسی سکھ کو پنجاب کا وزیر اعلیٰ بنایا جائے۔

اس کے بعد سینئر رہنما سنیل جاکھڑ کا نام گردش میں رہا۔ لیکن رپورٹس کے مطابق ہندو ہونے کی وجہ سے ان کا نام کٹ گیا۔ اس کے بعد سکھجندر سنگھ رندھاوا امیدواروں کی دوڑ میں سب سے آگے ہو گئے۔ لیکن اطلاعات کے مطابق کے مطابق نوجوت سنگھ سدھو نے ان کی مخالفت کی۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ رندھاوا بھی کیپٹن کے خلاف مہم چلانے میں شریک رہے ہیں لیکن ان کی اپنی سیاست ہے جو سدھو کو سوٹ نہیں کرتی۔ لہٰذا سدھو کی مخالفت کے بعد چرن جیت سنگھ چنی کے نام پر اتفاق رائے ہو گیا۔

کانگریس کا داؤ یا کوئی اور وجہ؟

مبصرین کے مطابق کانگریس نے بہت سوچ سمجھ کر چنی کو وزیر اعلیٰ بنایا ہے۔ ریاست میں دلت آبادی 33 فیصد ہے۔

پنجاب میں شرومنی اکالی دل اور بہوجن سماج پارٹی (بی ایس پی) نے انتخابی اتحاد کر لیا ہے۔ اس اتحاد کو ناکام بنانے اور دلت ووٹوں حاصل کرنے کے لیے کانگریس نے ایک دلت کو وزیر اعلیٰ بنایا ہے۔

ان کے نام کے اعلان کے بعد ہریش راوت نے یہ اعلان بھی کر دیا کہ ہریاست میں اسمبلی انتخابات نوجوت سنگھ سدھو کی قیادت میں لڑے جائیں گے۔ اس اعلان کے بعد اختلافات شروع ہو گئے ہیں۔

امریندر سنگھ کی کابینہ میں وزیر من پریت سنگھ بادل نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے چرن جیت سنگھ چنی کو وزیر اعلیٰ بنائے جانے کا خیرمقدم کیا اور کہا کہ آزادی کے بعد جموں و کشمیر، ہماچل پردیش، ہریانہ، راجستھان اور پنجاب میں کبھی بھی کسی دلت کو وزیر اعلیٰ نہیں بنایا گیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ پنجاب میں پہلی بار دلت وزیر اعلیٰ نامزد کرکے کانگریس نے ایک اچھا پیغام دیا ہے۔

پنجاب کی سیاست پر نظر رکھنے والے سینئر تجزیہ کار ہرویر سنگھ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ کیپٹن امریندر سنگھ لوگوں سے ملنا پسند نہیں کرتے تھے۔ ان سے وزرا تک نہیں مل پاتے تھے۔

ان کے بقول کانگریس کو ملنے والے فیڈ بیک کے مطابق اگر ان کی قیادت میں اسمبلی انتخاب لڑا جاتا تو پارٹی کو نقصان ہو سکتا تھا۔ چرن جیت سنگھ چنی دلت ہیں اور پہلی بار پنجاب میں کوئی دلت وزیر اعلیٰ بنا ہے۔

ان کے مطابق پنجاب کا دلت روایتی طور پر کانگریس کو ووٹ دیتا آیا ہے۔ لیکن اس بار اس کو فکر ہوئی کہ کہیں بی ایس پی اور اکالی دل کا اتحاد اس کے ووٹ بینک پر قبصہ نہ کر لے۔ اس لیے چنی کو منتخب کر لیا گیا۔

کیا اب سدھو وزیر اعلیٰ نہیں بن سکتے؟

سینئر تجزیہ کار ہرویر سنگھ کا کہنا ہے کہ نوجوت سنگھ سدھو نے امریندر سنگھ کے خلاف مورچہ کھول رکھا تھا۔ جس کی وجہ سے ارکان اسمبلی کی اکثریت ان کے خلاف ہو گئی تھی۔ سدھو خود وزیر اعلیٰ بننا چاہتے تھے لیکن پارٹی نے ان کے بجائے ایک دلت کو یہ عہدہ دیا۔

انھوں نے کہا کہ سدھو بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کو چھوڑ کر کانگریس میں آئے تھے اور کانگریس پارٹی میں کسی کو اتنی جلدی اتنی اہم ذمے داری نہیں دی جاتی۔

نوجوت سنگھ سدھو۔ فائل فوٹو
نوجوت سنگھ سدھو۔ فائل فوٹو

ان کے بقول کانگریس اور دوسری پارٹیوں کے سیاست داں بھی سدھو کو ایک سنجیدہ سیاست داں نہیں مانتے۔ اس کے علاوہ ان پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا کہ وہ کب کون سا قدم اٹھا لیں گے یا کیا بیان دے دیں گے۔

انھوں نے اس خیال کا اظہار کیا کہ سدھو اب فی الحال وزیر اعلیٰ نہیں بن سکیں گے۔ کیونکہ چار ساڑھے چار ماہ بعد اسمبلی انتخابات ہیں اور عین انتخابات کے موقعے پر ایسی تبدیلی نہیں کی جاتی۔

کیا سونیا اور راہول کا الگ الگ گروپ ہے؟

مبصرین کے مطابق پنجاب میں قیادت کی تبدیلی کانگریس پارٹی کے اندر بزرگ اور جوان قیادت میں ٹکراؤ کا شاخسانہ بھی ہے۔ پرانے رہنما سونیا گاندھی کے نزدیک اور ان کے وفادار ہیں جب کہ نئے سیاست داں راہول گاندھی کے قریب ہیں۔

ان کے مطابق کیپٹن امریندر سنگھ سونیا گاندھی کے وفادار سمجھے جاتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ انھیں ہٹایا نہیں جا سکتا۔ لیکن سدھو، جو کہ راہول گاندھی کے قریب ہیں، اپنی کوشش میں کامیاب ہو گئے۔

پرانے اور نئے سیاست دانوں میں ٹکراؤ

ہرویر سنگھ کا کہنا ہے کہ دراصل کانگریس پارٹی میں جو پرانے سیاست داں ہیں وہ راہول گاندھی کے طریقہ کار سے خود کو ہم آہنگ نہیں کر پا رہے ہیں۔ حالانکہ خاندان میں کوئی گروپ بازی نہیں ہے لیکن اس سے کوئی بھی انکار نہیں کرے گا کہ پارٹی میں دو گروپ بنے ہوئے ہیں اور پنجاب میں ہونے والی تبدیلی جوان قیادت کے اثر کو واضح کرتی ہے۔

دیگر تجزیہ کاروں کے مطابق سونیا گاندھی معمر ہیں اور بیمار بھی رہتی ہیں۔ ایسے میں پارٹی کے زیادہ تر فیصلے راہول گاندھی ہی کرتے ہیں۔ ان کے سامنے کوئی چیلنج نہیں ہے۔

ایک اور تجزیہ کار آلوک موہن نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کانگریس نے بہت چالاکی سے قدم اٹھایا ہے۔ اس سے اسمبلی انتخابات میں اسے فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ نئے وزیر اعلیٰ نے زرعی قوانین کی واپسی کا مطالبہ کرکے کسانوں کی ہمدردی حاصل کرنے کی بھی کوشش کی ہے۔

ان کے مطابق کانگریس نے ایک دلت سکھ کو وزیر اعلیٰ بنا کر بیک وقت دو اہداف حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔ ایک تو ریاست کے 33 فیصد دلت ووٹوں اور دوسرے 58 فیصد سکھ ووٹوں کو حاصل کرنے کے مقصد سے یہ تبدیلی لائی گئی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ 2017 کے اسمبلی انتخابات میں عام آدمی پارٹی نے بہت اچھی کارکردگی دکھائی تھی اور ریاست میں اصل اپوزیشن پارٹی بن گئی تھی۔

آلوک موہن کے مطابق عام آدمی پارٹی نے دلتوں کے لیے فلاحی اسکیموں کا اعلان کیا تھا جس کا اسے فائدہ پہنچا تھا۔ کانگریس نہیں چاہتی کہ اس بار بھی دلت ووٹ عام آدمی پارٹی کو ملیں۔

سدھو کی نصف کامیابی

نوجوت سنگھ سدھو کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے اپنی کوشش میں نصف کامیابی حاصل کی ہے۔ وہ کیپٹن کو ہٹانے میں تو کامیاب ہو گئے لیکن وزیر اعلیٰ بننے کی ان کی خواہش پوری نہیں ہوئی۔

ان کے بقول سدھو ابھی تو خاموش ہیں لیکن یہ کہنا مشکل ہے کہ ان کی خاموشی کب تک برقرار رہتی ہے۔ یا وہ کب کوئی حیرت انگیز قدم اٹھاتے ہیں۔ یہ دیکھنے کی بات ہوگی۔ کیونکہ عام طور پر لوگوں کا یہ خیال ہے کہ ان کے سیاسی عزائم انھیں خاموش نہیں رہنے دیں گے۔

 

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments