میڈ یا کے چند اصول پسند صحافی


\"\"پاکستان کا میڈیا شاید اس دنیا کا انوکھا ترین میڈیا ہوگا جو دن رات صحافتی اصولوں کی دھجھیاں بکھیرتا ہے اور پھر بھی سرخرو رہتا ہے۔ اس میڈیا کا ہر صحافی یہ سمجھتا ہے کہ وہ جس کی چاہے پگڑی اچھال دے جس کو چاہے احتساب کے کہٹرے میں کھڑا کردے لیکن اس کی صحافتی ساکھ پر کوئی سوال نہ اٹھایا جائے۔ اس سے کوئی یہ نہ پوچھے کہ بھائی جن اخلاقیات کا درس آپ سیات دانوں کو بالخصوص اور باقی اداروں کو بالعموم دیتے ہیں ان کا کہیں اطلاق آپ پر بھی ہوتا ہے یا آپ اپنی ذات میں تمام اخلاقی قدروں سے ماورا ہے۔ اس میڈیا کا ایک شاندار کارنامہ یہ بھی ہے کہ روز کے حساب سے خبریں باونس کر جاتی ہیں لیکن ڈھٹائی کے ساتھ اگلے دن پھر ایک نئے جذبے سے جھوٹی خبروں کی نشریات جاری رہتی ہے۔ دھرنے کا احوال تو سب کو معلوم ہے۔ ہر روز وزیراعظم سے استعفی لیا جا رہا ہوتا تھا، ہر روز حکومت گرائی جا رہی تھی ۔ ایک صحافی نے اس غیر مصدقہ خبر پر کہ، آرمی چیف کا ہیلی کاپٹر ایوان صدر میں لینڈ کر رہا ہے، بیٹھے بیٹھے اپنے چینل پر بیپر دے کر مارشل لاء لگوا دیا۔ آئی آیس پی آر کی جانب سے تردید آنے کے بعد ادارے کی جانب سے نہ کوئی معذرت ہوئی نہ کوئی انکوائری کی گئی کہ اس جھوٹی خبر کا ماخذ کیا تھا؟ کیا کسی اور ملک میں ایسا ہوسکتا تھا؟

پانا مہ لیکس کے منظر عام پر آنے کے بعد جو دن رات افواہوں کا بازار سرگرم رہتا ہے۔ اس کی کوئی پوچھ گوچھ تو کر ہی نہیں سکتا اور نہ کوئی جرات کر کے ان جید صحافیوں سے پوچھ سکا کہ جناب والا یہ جو اتنی دفعہ انقلاب، کاکڑ فارمولے اور مارشل لاء کی خبریں سنائی گئی ہیں ان کے پورے نہ ہونے پر کہیں آپ بھی جواب دہ ہیں یا نہیں؟ پاکستانی میڈیا سب کا احتساب چاہتا ہے مگر خود احتسابی سے کتراتا ہے۔ ایک اور معروف اینکر حضرت وزیراعظم کو روز یہ یاد دلاتے ہیں کہ پانامہ کے بعد ان کو اخلاقی طور پر استعفی دے دینا چاہئے تھا۔ کوئی ان سے یہ نہیں پوچھتا جناب یہ اخلاقیات تب کیوں نہ یاد آئی جب آپ کی اہلیہ کی ملک ریاض کے ساتھ پیڈ پروگرام کی ویڈیوز منظر عام پر آئیں۔ کیا آپ نے بیوی کو کہا کہ اخلاقی طور پر تم کو اب صحافت چھوڑ کر گھر بیٹھ جانا چاہیے۔ استعفی تو دور کی بات یہ اینکر ہر فورم پر بڑی ڈھٹائی کے ساتھ اپنی بیوی کا دفاع کرتے نظر آئے۔ دوغلے پن کا یہ عالم ہے کہ ہر روز ایک انتہائی جابندار پینل سامنے بٹھا کر حکومت کے لتے لئے رہے ہوتے ہیں۔ مخالف فریق کا موقف سنے بغیر من پسند فیصلے صادر کر رہے ہوتے ہیں۔ اور اس پر تماشہ یہ کہ اس سب کے بعد بھی موصوف کا دعوی ہے کہ وہ پاکستان کے سب سے غیر جانبدار اینکر ہیں۔

ایک کالم نگار جو اب ایک تجزیہ نگار اور حالیہ اینکر بھی بن گئے ہیں ان کی صحافتی اصول پسندی کا حال یہ ہے کہ یوسف رضا گیلانی کو عدالت سے سزا ملنے کے بعد جب انہوں نے وزرات اعظمی چھوڑنے سے انکار کر دیا تو وہ صحافیوں کا ایک گروپ لے کر لندن چلے گئے۔ موصوف صحافی بھی اس گروپ میں شامل تھے۔ کیا انہوں نے یوسف رضا گیلانی کو وہ اخلاقیات یاد نہ کروائی جو وہ روز وزیراعظم نوازشریف کو یاد کرواتے ہیں کہ جناب آپ تو ایک مجرم وزیراعظم ہیں۔ کیسے اس سرکاری دورے پر جا سکتے ہیں۔ صحافی صاحب نہ صرف ساتھ گئے بلکہ اپنے اس عمل کی تاویلیں بھی دیتے رہے۔ پانامہ کیس میں تو انہوں نے اپنی عدالت لگا کر خود ہی ثبوت پیش کرکے خود ہی دلائل دے کر یہ فیصلہ سنا دیا ہے کہ وزیراعظم عوامی عدالت میں ہار گئے کیونکہ جناب والا خود ہی عوام کے ٹھیکے دار جو ٹھہرے۔

تین باخبر صحافیوں کا پروگرام تو آپ کی معلومات میں اتنا اضافہ کرتا ہے کہ بعض دفعہ سمجھ نہیں آتی کہ بندہ اتنی معلومات کو سموئے کہاں؟ اس قدر اعتماد سے جھوٹ بولنے کا ملکہ ان تین بہادروں کو ہی حاصل ہے۔ ایک پروگرام میں معلومات غلط ثابت ہونے پر بھی وہ اتنے ہی زور شور سے اگلے دن پھر ایک نئےپروگرام میں اسی جوش سے جاری وساری ہوتے ہیں۔ اور غیب کا علم تو ان کے پاس ہر وقت موجود ہوتا ہے ان کو ون آن ون ملاقات میں ہونے والی ہر بات کا پتا ہوتا ہے۔ دھرنے کو دنوں میں ان میں سے ایک نے اپنے تئیں بڑی بریکنگ نیوز دی کہ کل ہونے والے مشترکہ اجلاس میں ایک قرارداد آئی ایس آئی کے چیف کو ہٹانے کے لئے آئے گی۔ ایک آرمی چیف کو ہٹانے کے لئے آئے گی۔ میں تو انتظار ہی کرتی رہیں ان قراردادوں کا لیکن فی الحال انتظار کی گھڑیاں دوسال گزرنے کے باوجود ختم نہیں ہوئی۔ کاکڑ فارمولہ تو ان کا پسندیدہ ہے۔

ایک بڑے باخبر اینکر جو پہلے قیامت لاتے تھے اب مارشل لاء لاتے ہیں۔ نہ قیامت آئی نہ مارشل لا لیکن موصوف نے ہمت نہیں ہاری۔ ان کا کمال یہ ہے کہ ان کو وزیراعظم کے سونے، جاگنے، مسکرانے، ہاتھوں کے اشارے، ون آن ون ملاقات میں درمیان میں رکھی چھوٹی میز بڑی میز، ہاتھ ملانے ہر بات میں سازش نظر آتی ہے۔ ان کو صدیوں پہلے علم ہو جاتا ہے کہ اب یہ حکومت نہیں چل سکتی۔ ان کے ہی ایک بھائی بند جنرل راحیل شریف کو پکارتے رہے، دہائیاں دیتے رہے لیکن جنرل صاحب جب اپنے وقت پر ریٹائر ہوگئے تو جناب آج کل ان کے خلاف ہذیان بولتے پھر رہے ہیں کہ وہ قوم کو لیٹروں کے ہاتھوں میں چھوڑ کر چلے گئے۔

ایک اینکر کچھ دنوں پہلے تک صبح وشام صرف ڈان لیکس پر بات کرتے تھے۔ بڑے ترلے منتیں کی انہوں نے جنرل راحیل کہ اس معاملہ کو نپٹا کر ہی جانا لیکن ان کی خواہش پوری نہ ہوئی تو اسی جنرل راحیل کہ جوان کے ہیرو تھے وہ لتے لئے جا رہے ہیں کہ اللہ ہی معاف کرے۔ یہ اینکر جب کچھ سال پہلے تک ایک دوسرے چینل پر تھے تو روز رات کو اپنے پروگرام میں آرمی کی ایسی کی تیسی کرتے تھے ۔ اس زمانے میں ان کے بقول ان کا، ان کی بیوی بچوں کا آئی ایس آئی پیچھے کرتی رہی۔ دھمکیاں دی جاتی تھیں۔ ان کی جان ومال محفوظ نہیں تھے۔ لیکن چینل کی تبدیلی کے ساتھ ہی ان کے خیالات میں ایک انقلابی تبدیلی آ گئی۔ اب وہ آرمی کے سب بڑے جہادی اور آئی ایس آئی کے سب سے بڑے متوالے ہیں۔ ایک اینکر کا تو احوال بڑا ہی دلچسپ ہے وہ ایک ڈکٹیٹر کے ترجمان رہے ،ایک سابق صدر کے ترجمان رہے۔ آج کل ایک سیاسی پارٹی کے ترجمان ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اینکر بھی ہیں۔ کیا ان سے کوئی غیر جانب داری کی توقع کی جا سکتی ہے؟

ایک کالم نگار کے ذکر کے بغیر سب کچھ ادھورا ہے جناب قوم پر روز لعنت بھیجتے ہیں ان کے بقول یہ لعنتی اور جاہل قوم اس قابل نہیں ہے کہ اپنے نمائندے چنے، اس لئے ان پر ڈنڈے والا کوئی مسلط رہنا چاہئے۔ ایک ڈکیٹر سے انکی وفاداری قابل رشک ہے کہ ابھی تک ان کی شان میں رطب السان رہتے ہیں۔ ان کا دعوی تھا کہ وہ ڈکٹیٹر صاحب ایک کمانڈو ہے وہ پاکستان آکر اپنے خلاف مقدمات کا سامنا کریں گئے ۔ عدلیہ کے بہت سے نوٹسز کے باوجود ابھی تک تو وہ کمانڈو یہ جرات نہیں کرسکے۔ کمر درد کے علاج کے لئے باہر گئے تھے لیکن نائٹ کلبوں میں ناچتے ہوئے پائے جاتے ہیں۔ ان کالم نگار کو الطاف حسین میں مڈل کلاس کے لئے ایک انقلابی لیڈر نظر آتا تھا اور ان کی جماعت سب سے زیادہ جمہوریت پسند جماعت نظر آتی تھی لیکن جب الطاف حسین سے ہاتھ اٹھا لیا گیا تو کالم نگار کی زبان بھی ان کے لئے تبدیل ہوگئی۔ لیکن زبان بدلنے سے سرشت نہیں بدلتی۔ غلام اپنے لیئے کوئی اور آقا خرید لیتے ہیں۔

ان ساری باتوں کے بعد آپ خود بتائیں کیا یہ میڈیا اس قابل ہے کہ دوسروں کا احتساب کرسکے؟ ان کو اخلاقیات سکھا سکے؟ کیا ان کو پہلے اپنی اخلاقی قدروں کو ٹھیک نہیں کرنا چاہئے؟ دوسروں کے گریبانوں میں ہاتھ ڈالنے سے پہلے کیا اپنے گریبان میں نہیں جھانکنا چاہیئے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments