شکریہ شہریار آفریدی


اگر آپ نے وہ لطیفہ نہیں سنا تو اچھا ہی کیا، جس میں کسی دوسرے ملک جانے والے امریکی سے جب پوچھا گیا کہ وہاں کون سی ایسی خاص بات ہے، تو اس نے کہا ‘وہاں اتنی آزادی ہے کہ میں امریکہ میں کھڑا ہو کر کہہ  سکتا ہوں کہ امریکی صدر ‘فلاں ڈھمکاں’ ہے، جبکہ آپ اپنے ملک میں صدر کو ایسا نہیں کہہ سکتے’ جس پر پوچھنے والے نے کہا ‘یہ کون سی بڑی بات ہے، یہ تو میں بھی کہہ سکتا ہوں لو سنو، امریکی صدر فلاں ڈھمکاں ہے۔’

اسی طرح اگر آپ نے چیئرمین پارلیمانی کمیٹی برائے امور کشمیر شہریار آفریدی کی وہ ویڈیو نہیں دیکھی جس میں وہ مین ہنٹن میں مٹرگشت کرتے ہوئے امریکہ کی تعریف کر رہے ہیں، تو بھی اچھا ہی کیا، کیا کہا؟ تعریف نہیں کر رہے تھے؟ معلوم خود ان کو بھی نہیں لیکن جناب وہ کر ایسا ہی رہے تھے، چلو سمجھائے دیتا ہوں۔

رہ گئی بات ایئرپورٹ پر ہونے والے ‘سلوک’ کی تو اس کی ایک وجہ یہ سمجھ آتی ہے کہ مٹرگشت میں جس طرح وہ چل رہے ہیں وہ کسی حکومتی نمائندے سے زیادہ ‘ریسلرز’ جیسا تھا، ہو سکتا ہے ایئرپورٹ بھی وہ ایسے ہی داخل ہوئے ہوں اور اس غرض سے تلاشی لی گئی ہو کہ کہیں وہ انڈر ٹیکر کو مارنے کے لیے چقو شقو نہ لائے ہوں یا پھر شاید انہیں کسی نے بتا دیا ہو کہ یہ موصوف وہی ہیں، جنہوں نے کہا تھا کہ چرس کی فیکٹریاں لگائی جائیں  گی۔

خیر تو بات ہو رہی تھی شہریار آفریدی کے بھاشن کی، جو انہوں نے لیوائز کی ٹی شرٹ پہنے دیا۔ پاکستان میں کبھی انہیں شلوار قمیض کے علاوہ دوسرے لباس میں دیکھا گیا، یقیناً ان کا حق ہے کہ جو وہ چاہتے ہیں، پہنیں، لیکن بیرون ملک جاتے ہی وہیں کے مشہور برانڈ کو زیب تن کرنے سے عیاں ہے کہ وہ اسے پسند کرتے ہیں لیکن پاکستان میں نہیں پہنتے۔

لیوائز پہننے کی وجہ کچھ بھی ہو لیکن اپنے اس عمل سے انہوں نے امریکہ کی تعریف بن کہے الفاظ میں یوں کی ہے کہ انہیں وہاں اتنی آزادی کا احساس بہرحال ہوا کہ ہلکے پھلکے اور ڈھیلے ڈھالے کپڑے پہن سکیں۔

اپنی طرف سے انہوں نے امریکہ میں پھرتے ہوئے ٹائٹ کپڑے پہنی خواتین کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ بھی کسی بیٹیاں ہیں، کسی کی بہنیں ہیں اور یہ رات کے وقت بازاروں میں پھر رہی ہیں، یہاں پر پھر وہ تعریف کے ہی مرتکب ہوئے ہیں۔

یعنی انہوں نے مان لیا کہ امریکہ میں خود ان کے علاوہ خواتین بھی جیسا چاہیں لباس پہن سکتی ہیں جبکہ پاکستان میں چاہنے کے باوجود اس لیے نہیں پہن سکتیں کہ یہاں کے مرد بقول وزیراعظم روبوٹ نہیں ہیں، تاہم یہاں انہوں نے وزیراعظم کے قول کے برعکس خود کو ‘روبوٹ’ ہی ثابت کیا کیونکہ ارد گرد ہر قسم کے لباس میں  خواتین دیکھنے کے باوجود ان کے سافٹ ویئر میں کوئی ‘ایرر’ دیکھنے میں نہیں آیا۔ 

اب آئیے ان لوگوں کی طرف جو باہر سوئے ہوئے تھے اور جن کی طرف اشارے کر کر کے وہ خود کو بہتر ثابت کرنے کی کوشش کر رہے تھے، نشئی اور پی پلا کر ادھر ادھر گرنے والے لوگ ظاہر ہے ان معاشروں میں زیادہ ہوتے ہیں جہاں پینے پلانے پر پابندی نہیں، اسی طرح بے گھر اور فٹ پاتھوں پر سونے والے لوگ بھی ہر جگہ ہوتے ہیں اور ریاستیں اپنے طور پر ان کو اکاموڈیٹ کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔

امریکہ میں ایسے لوگوں کو وظیفہ بھی دیا جاتا ہے اور ظاہر ہے یہ لوگ ریاست کی ایک منفی شکل دکھاتے ہیں تاہم کم سے کم شہریار آفریدی کو ایسی پھبتی کسنے کی ضرورت اس لیے نہیں تھی کہ پاکستان کے کسی بھی بڑے شہر میں صبح کے وقت داخل ہو کر دیکھ لیں کہ کتنے لوگ فٹ پاتھوں پر سوتے ہیں، رہ  گئیں پناہ گاہیں اور لنگر خانے تو ان کا وجود بذات خود یہ بتاتا ہے کہ ملک میں بے شمار لوگوں کے پاس رہنے کی جگہ ہے اور نہ کھانے کو کچھ، بہ نسبت اس کے اگر سب کو روزگار ملے، ضروریات زندگی سستی ہوں اور زندگی جبر مسلسل کی طرح نہ کاٹنا پڑے تو شاید ان کی ضرورت نہ رہے اور متذکرہ چیزوں کا انتظام کرنا بھی حکومت کی ہی ذمہ داری ہے نہ کہ صرف پناہ گاہوں اور لنگر خانوں کا۔

لطف کی بات یہ بھی ہے کہ شہریار آفریدی سیاسی منورنجن کرتے ہوئے بھی مصر رہے کہ یہ سیاسی سلوگنز نہیں ہیں، اور عمران خان کی تعریف اس لیے نہیں کر رہے کہ وہ ان کی پارٹی کا حصہ ہیں، اب اس پہ بندہ کہا ہے سوائے اس کے:

خطا وار سمجھے گی دنیا تجھے

اب اتنی زیادہ صفائی نہ دے

انہوں نے عوام کے ضمیر کو بھی جھنجھوڑنے کی بھی کوشش کی اور کہا کہ خدا کے لیے اپنی قدروں کو پہچانو اور اس کے بعد تقریباً ویسا ہی لمبا سلسلہ جو اکثر جمعہ کے خطبوں میں سننے کو ملتا ہے۔

موصوف محترم امریکہ کی ایک اور خوبی کا اعتراف بھی کرتے ہوئے پائے گئے، جس کو سمجھنے کے لیے ایک منظر فرض کریں، کوشش تو کریں۔

اگر موصوف لاہور، کراچی، پشاور یا پھر اپنے شہر کوہاٹ میں کہیں اسی طرح چلتے ہوئے، کیمرے کی طرف دیکھ کر آڈیشن دینے والے شوقین اداکار کی طرح لہک لہک کر کہیں، یہ کیا ہو رہا ہے، ہماری خواتین کا دم برقعوں میں گُھٹ رہا ہے اور کسی کو احساس نہیں، آپ امریکہ جا کر دیکھیں کہ وہاں خواتین کیسی آزادی سے رہ رہی ہیں، ان کی اقدار ہم سے بہت بلند ہیں، اور میں امریکی حکومت کے لیے سیاسی سلوگن نہیں کر رہا بلکہ حقیقت میں وہ ہم سے بہت آگے ہیں۔

اس کے بعد کیا ہو گا؟ خود ہی سوچ لیجیے اور داد دیجیے کہ ان امریکیوں کی جنہوں نے سرعام ان کے طرز زندگی کے بخیے ادھیڑے جانے پر بھی ان کو ایسے نظرانداز کیا جیسے ان کے پاس وقت ہی نہیں۔

اس کو شاید موصوف سمیت بہت سے لوگ نہ سمجھ سکیں لیکن اسی کو شخصی آزادی کہتے ہیں۔

 وہی شخصی آزادی جو ہمارے ہاں دیواروں میں چنوائی جا چکی ہے، وہی شخصی آزادی جس کو ہمارے ہاں شجر ممنوعہ قرار دیا جا چکا ہے، وہی شخصی آزادی جو میڈیا پر بین ہے، اور سوشل میڈیا پر بھی اس کے آگے بند باندھنے کی کرنے کی تیاری ہو رہی ہے، اس کے علاوہ بھی کبھی مذہب کے نام پر، کبھی کلچر کے نام پر کبھی اقدار کے نام پر، کبھی کسی بہانے اور کبھی کسی اور طور اسے اکھاڑ پھینکنے کی کوشش ہو رہی ہے۔

ایسے میں ٹوئٹر پر رنگ برنگی میمز بنا کر موصوف پر تنقید کے بجائے توصیف کرنے کی ضرورت ہے کہ انہوں نے ایک لحاظ سے شخصی آزادی کی اہمیت ہی اجاگر کی ہے۔

ویسے تو وزیراعظم بھی ہر بیرونی دورے میں اپنے بس کے مطابق حصہ ڈالتے ہی ہیں لیکن اگر دیگر شخصیات کو بھی ایسے بیرونی خصوصاً مغربی دوروں پر بھیجا جائے اور ویڈیوز بنانے دی جائیں تو شاید شخصی آزادیوں کے لیے کام کرنے والوں کا کام کچھ آسان ہو جائے۔

میں نے کسی کا نام نہیں لیا، اگر آپ کے ذہن میں فیاض الحسن چوہان، فردوس عاشق اعوان و دیگر کے نام اور ان کی متوقع ویڈیوز کا کانٹینٹ آ رہا ہے تو میرا اس میں کوئی دوش نہیں۔ 

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments