تھوڑے سے موٹے دماغ کے بنیں


ارسطو کے مطابق مسرت کی تین صورتیں ہوتی ہیں۔

مسرت کی پہلی صورت لذت اور لطف اندوزی کی زندگی ہے۔ مسرت کی دوسری صورت آزاد اور فرض شناس شہری کی زندگی ہے۔ مسرت کی تیسری صورت مفکر اور فلسفی کی حیثیت سے زندگی ہے۔ اس لحاظ سے کسی لمحے سے لطف اندوز ہونا پہلے آتا ہے جبکہ کسی چیز کو فلسفی اعتبار سے دیکھنا آخر میں آتا ہے۔

اس لیے یہ ضروری تو نہیں کہ چلتے پھرتے اٹھتے بیٹھتے ہر وقت ہر چیز سے فلسفہ نکالا جائے۔ ہر چیز کو ہر وقت کمپلیکس بنانے کی سعی کرتے رہیں۔ ڈھلتی شام کے منظر کو دیکھ کر اسے انجوائے کرنے کے بجائے اس میں سے فلسفہ نکالنے بیٹھ جائیں۔ ٹھنڈی گھاس پر چلتے ہوئے اس کی راحت کو محسوس کرنے کے بجائے کہیں اپنی ہی خیال میں مگن اس کے لطف کو بھول جائیں۔ چائے کا سپ لگاتے ہوئے کسی فلسفے یا کسی کی کڑوی بات کو یاد کر کے چائے کے ساتھ جوڑے احساس کو لفٹ نہ کروائے۔ رات کو ٹمٹماتے ستاروں کو دیکھ کر ٹھنڈی رات کے لطف کو چھوڑ کر ستاروں کی سائنس پر بحث کرنا شروع کر دیں۔

بہت ساری چیزوں کو جانتے ہوئے بھی انھیں انجان کر دیا کریں۔ ہر وقت باریکیوں میں نہ پڑے۔ ایک مزدور دیہاڑی لگا کر یہ نہیں سوچتا کہ رات کو آسمان پر ٹمٹماتے ستارے کب کے ختم ہو گئے ہوں گے اور ان کی یہ روشنی ہم تک اب پہنچ رہی۔ وہ دیہاڑی لگا کر، شام کو نہا دھو کر کھانا شانا کھا کر دوستوں کے ساتھ چہل قدمی پر نکل جاتا ہے۔ پھر کسی ہوٹل پر بیٹھ کر دوستوں کے ساتھ چائے انجوائے کرتا ہے۔ وہ ہر وقت اس کوشش میں نہیں رہتا کہ ہر چیز اسے سمجھ آئے۔ جو سمجھ آ جائے آ جائے۔ نہیں تو اللہ اللہ خیر صلا۔

پھر وہ لوگوں کی باتوں کو ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دیتا ہے۔ اسے اس چیز سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ دن کو پانچ منٹ آرام کرنے پر مستری نے اسے جھڑکا تھا۔ اسے یہ بھی نہیں یاد کہ سامنے بیٹھے دوست سے اس کی کل تلخ کلامی ہوئی تھی۔ وہ حال کو انجوائے کرتا ہے۔ اس کے موٹے دماغ میں یہ سمجھ نہیں آتا کہ کس سے کس بات پر ناراض ہونا ہے۔ وہ دوستوں سے بات کرتے ہوئے ڈرتا نہیں۔ جو کچھ اس کے موٹے دماغ میں آتا ہے دوستوں کے ساتھ شیئر کرتا ہے۔

وہ رات کو سونے سے پہلے یہ نہیں سوچتا کہ فلاں بندے سے فلاں بات کرنی چاہیے تھی کہ نہیں۔ وہ ہر دن فریش ہو کر کام پر جاتا ہے اور اسی مستری کے ساتھ کام کرتا ہے جس نے اسے کل ڈانٹا تھا۔ اسے اس چیز سے قطعی فرق نہیں پڑتا کہ اس کے دوست نے جو کل شام اچھی گھڑی پہنی تھی، وہ کہاں سے آئی۔ وہ اس سوچ میں نہیں پڑتا کہ مرنے کے بعد انسان کے شعور کے ساتھ کیا ہو گا۔ وہ ہر وقت ہر چیز میں مثبت پہلو دیکھتا ہے۔ وہ مستقبل میں ہونے والوں کاموں کو انشاءاللہ کہہ کر پرسکون ہو جاتا ہے۔ وہ لوگوں کے ساتھ معاشرتی قدریں ملانے کی کوشش نہیں کرتا۔ وہ جو کماتا ہے شام کو کھا کر سوتا ہے۔ غرض کہ وہ زندگی کو بھر پور طریقے سے جینے کی کوشش کرتا ہے۔

دوسری طرف سمجھدار طبقہ ہے جو ذرا سی بات ہونے پر منہ بنا کر بیٹھ جاتا ہے۔ دل میں ہفتے پہلے کی بات کو یاد رکھتے ہیں۔ ہر وقت عداوت پالتے رہتے ہیں۔ اپنے دل کو بھی بھاری رکھتے ہیں اور دوسرے کو بھی پنچ ڈاؤن کرنے کی کوشش میں رہتے ہیں۔ ہر وقت ایک دوسرے سے حسد کرتے رہتے ہیں۔ ہر وقت ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش میں رہتے ہیں۔ کون کیا کھا گیا، کون کیا پہن گیا سب پر نظر رکھتے ہیں۔ اس کے بچے پڑھائی میں اتنے آگے ہیں میرے کیوں نہیں؟ اس کے پاس فارچونر ہے میرے پاس کیوں نہیں؟

کبھی کبھار ہر چیز کو کھوجنے، سمجھنے اور ہر چیز کے ملنے سے زیادہ قیمتی وہ لمحہ ہوتا ہے جو آپ کے پاس ہوتا ہے۔ انسان اس میں سے فلسفہ نکال کر یا پھر لالچ میں آ کر اس لمحے کو کھو دیتا ہے۔ زندگی یہ نہیں کہ انسان نے کتنی چیزیں خریدی یا پھر کتنے لوگوں سے زیادہ پیسا کمایا۔ زندگی تو لمحوں کا مجموعہ ہے۔ جس نے ان لمحوں کو صحیح طرح سے جی لیا۔ سمجھیے کہ اس نے زندگی کو جیا لیا۔ چیزیں خریدنے کے بجائے ان لمحوں کو خریدیے جو آپ کے لیے خوشی کا باعث ہو۔ ہر وقت باریکیوں میں پڑے رہے تو کچھ ہاتھ نہیں آنا۔ پوری ایک صدی کے بعد نہ ہم نے رہنا ہے اور نہ انھوں نے رہنا ہے جن سے ہم حسد کرتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments