جناح کا پاکستان


گزشتہ ماہ سے افغانستان میں طالبان نے اپنی حکومت کا اعلان کیا افغانستان کے حالات واقعات سے تقریباً ہر پاکستانی خاص و عام آگاہ ہے رشین فیڈریشن کے زمانے سے لے کر آج تک افغانستان بحران در بحرانی کیفیت میں مبتلا رہا ہے اپنے بچپن سے آج تک ہم نے افغانستان کو ایک پرامن اور ترقی کی جانب پیش قدمی کرتے ہوئے ملک کی طرح کبھی نہیں دیکھا وہاں کے عوام اور مختلف طرز حکومتوں کو گوناگوں مسائل کا شکار ہی دیکھا۔

اور یہ صرف ہماری ہی نہیں ایک عام پاکستانی جو حالات حاضرہ سے معمولی سی بھی واقفیت رکھتا ہو وہ افغانستان کے حالات کو کبھی بھی عوام الناس کے لیے آئیڈیل تصور نہیں کرتا۔

مسلسل بد امنی، سیاسی شورشیں، سازشی عناصر کی دخل در معقولات، مختلف طبقاتی و مذہبی اختلافات میں گھری اور تعلیم، صحت، ملکی انفرانسٹرکچر کی زبوں حالی، غیر مستحکم کٹھ پتلی حکومتیں اور امن وامان کی مخدوش ترین صورتحال اور ان سب کے ساتھ ساتھ بنیادی انسانی ضروریات سے محرومی کی وجہ سے ہی افغان قوم شاید دنیا کی واحد قوم ہے جو سب سے زیادہ مہاجرین کی شکل میں دنیا کے تقریباً ہر ملک میں ہی موجود ہے۔

اور آج بھی صورت حال یہی ہے کہ ہر دس میں سے آٹھ افغانی افغانستان چھوڑ کر دوسرے ممالک میں پناہ لینا چاہتے ہیں جن میں سر فہرست پاکستان ہے۔

اب یہ پاکستان کی بدقسمتی کہیں یا مجبوری کہ افغانستان پاکستان کا پڑوسی بھی ہے اور ساتھ ہی پاکستان کا صوبہ خیبرپختونخوا لسانی و دیگر کئی مماثلتیں رکھنے کی وجہ سے افغانیوں سے کافی قریب بھی ہے۔ اس بناء پر پہلے روسی مداخلت کے نتیجے میں پاکستان کو افغانیوں کو پناہ دینی پڑی اور پھر روس تو تقسیم ہو گیا مگر امریکہ افغانستان میں پراکسی کھیلتا رہا۔

نائن الیون کے بعد بن لادن بچے کھچے افغانستان میں وارد ہو کر اسے مزید پیچھے دھکیل دیا۔

ایسے غیر مستقل اور ہیجانی حالات کا شکار اقوام تعلیم کے ساتھ ساتھ آگہی، شعور، سیاسی فیصلے، طرز حکمرانی کے بارے میں کوئی بھی فیصلہ کن رائے نہیں دے سکتے شاید اس لیے آج تک افغان قوم ابہام اور نفسیاتی عوارض میں مبتلا افراد جیسی زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔

یہ تو افغانستان کے تاریخی پس منظر کی ہلکی سی تصویر ہے اب افغانستان میں اشرف غنی رجیم کا صفایا ہو گیا ہے۔ جو یقیناً طالبان کی کامیابی ہے۔ موجودہ طالبان رجیم کو اگر افغان قوم قبول کر لیتی ہے تو بہت اچھی بات ہے ہر قوم کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے لیے جیسا چاہے طرز حکومت منتخب کرے جس پر افغان قوم اعتماد کرے ضرور ان پر حکومت کرے۔

مگر اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ طالبان نامی عفریت سے گزرے برسوں میں پاکستان نے بہت زیادہ نقصان اٹھایا ہے۔ اچھے طالبان اور برے طالبان کیا ہوتے ہیں؟

اس سے کسی عام پاکستانی کو غرض نہیں مگر طالبان کا نام سن کر زیادہ تر افراد کے ذہن میں دہشت گردی، خودکش دھماکے، قتل و غارت گری کے وہ سارے واقعات تازہ ہو جاتے ہیں جن کو پاکستان نے جھیلا ہے اور کئی آپریشنز کے بعد پاکستان اس دہشت گردی کے عفریت سے نجات حاصل کرنے میں کامیاب ہوا ہے۔

ہو سکتا ہے موجودہ افغان طالبان رجیم کی سوچ مختلف ہو اور افغان قوم اسے قبول کر لے۔ مگر کچھ ایسے بھی خود ساختہ دانشور ہیں جو افغانستان میں طالبان اسٹائل طرز حکومت کو پاکستان میں نافذ کرنے کے خواب دیکھ رہے ہیں۔

سوشل میڈیا خصوصاً ایسے عقل کل دانشوروں کی خصوصی آماجگاہ ہے چاہے وہ کوئی بھی سوشل ایپ ہو ہر گروہ اپنی مرضی کا منجن بیچنے میں مصروف ہے۔

کہیں خواتین کے لباس کو لے کر خبر میں ہوا بھری جا رہی ہے کہ خواتین کے جینز اور ٹائٹس پہننے پر پابندی لگا دی گئی۔ کہیں تو باقاعدہ خلافت کے اعلانات کا چرچا کیا جا رہا ہے۔

کچھ لوگ حجاب لینے اور نہ لینے والی خواتین کے تقابلی جائزے کے رہے ہیں اور کچھ فنون لطیفہ و دیگر سرگرمیوں کو لے کر ایک دوسرے پر لفظی جنگ کے سارے حربے آزما رہے ہیں۔

ہر گروہ اس بات پر خم ٹھوک کر میدان میں ایک دوسرے سے نبرد آزما ہے کہ ہم سب سے بہتر ہیں اور دوسرے سب غلط ہیں۔

عدم توازن اور عدم مساوات میں پاکستان اپنی طرز کا شاید واحد ملک ہے۔ شدت پسندی، طبقاتی کشمکش، سماجی و معاشی ناہمواریاں قوموں کو جس انتشار اور ذہنی خلفشار میں مبتلا کر دیا کرتی ہے انتہائی بھاری دل سے کہنا پڑتا ہے کہ پاکستانی قوم بحیثیت مجموعی اس عارضے میں مبتلا ہو چکی ہے۔

کسی بھی قضیے کو لے کر یہ قوم ایک موقف تو دور کی بات ہے مزید تقسیم در تقسیم کا شکار ہو جاتی ہے۔ ایک دوسرے کو برداشت کرنا اپنے علاوہ دوسرے کی بات پر بھی دھیان دینے کی روش تقریباً ناپید ہو چکی ہے۔ اور اس کی بنیادی وجہ اس خطے میں ہونے والی غیر روایتی جغرافیائی تبدیلیاں تو ہیں مگر اس کے ساتھ ناقص حکمت عملی اور کسی ایک مضبوط اور جامع پالیسی کی شدید کمی ہے۔

افغانستان شوق سے سے طالبان طرز معاشرت، طرز حکومت کو اپنائے کسی پاکستانی کو اعتراض نہیں مگر پاکستان کسی مذہبی یا جہادی گروپ نے نہیں بنایا تھا۔

برصغیر کی تقسیم دوقومی نظریے کی بنیاد پر ہوئی کہ ہندو اور مسلم دو علیحدہ قومیں ہیں۔ لیکن برصغیر کے مسلمانوں نے اپنا مشترکہ لیڈر، بانی، اور قائد مسٹر محمد علی جناح کو بنایا تھا۔ کسی مولوی جناح کو ہر گز نہیں اس وقت کے مسلمان اتنا شعور رکھتے تھے کہ وہ بحیثیت مجموعی مسلم قوم بن کر ایک بہترین لیڈر کی قیادت میں الگ

ملک حاصل کر سکتے ہیں۔ مگر کسی مخصوص فرقے، مخصوص سوچ اور مخصوص گروہ کی زیر قیادت صرف آپس میں دست و گریباں ضرور ہو سکتے ہیں کوئی ملک حاصل نہیں کر سکتے۔ اس لیے انہوں نے مسٹر جناح کو پسند کیا۔

دینی و مذہبی جماعتیں تو اس زمانے میں بھی قیام پاکستان کی مخالف تھیں اور قائد اعظم کو کافر اعظم قرار دے چکی تھیں۔

مسٹر جناح کو قائد اعظم بنانے کا فیصلہ کسی فرد واحد کا نہیں پاکستان میں رہنے والی ہر کمیونٹی پنجابی، سندھی، پشتون، بلوچی، بنگالی، اور یوپی سی پی کے تمام مسلمانوں کا مشترکہ فیصلہ تھا اور ہے۔

آج بھی پاکستان کے بانی مسٹر جناح ہی ہیں وہ مسٹر جناح جو تھری پیس سوٹ پسند کرتے تھے۔ وہ مسٹر جناح جو سگار پیتے تھے۔ کتے پالنے کے بھی شوقین تھے، انگریزی زبان بھی بولتے تھے۔ صرف اپنے نظریات دوسروں پر ٹھونسنے کی کوشش نہیں کرتے تھے۔ بلکہ تمام کمیونیٹیز کی بات سنتے اور سمجھتے تھے۔ وہ پاکستان کو سیکولر ریاست نہیں بنانا چاہتے تھے مگر وہ یہاں موجود تمام غیرمسلموں اور اقلیتوں کو برابر سمجھتے تھے۔

لہذا اب وقت آ گیا ہے کہ تمام پالیسی میکرز، ارباب اختیار اور تھنک ٹینک اس حقیقت کو سمجھ لیں کہ پاکستانی آج بھی صرف ”جناح کا پاکستان“ چاہتے ہیں

وہ اسے کسی طالبان کا پاکستان ہر گز بننے نہیں دیں گے آپ اس ملک میں آزاد ہیں جیسے چاہیں زندگی گزاریں اگر کوئی ماڈرن طرز زندگی پسند کرتا ہے تو اسے اس کی مرضی سے زندگی گزارنے کا حق ہے۔ اور اگر کوئی قدیم طرز زندگی پسند کرتا ہے تو اسے بھی پورا حق ہے کہ وہ اپنی مرضی سے اس ملک میں زندگی بسر کرے۔

ایک دوسرے پر اپنے نظریات و خیالات نافذ کرنے کی کوششیں مت کریں۔ ہمارے نبی کریم ﷺ نے اسلام نفاذ کے ذریعے نہیں تبلیغ کے ذریعے پھیلایا۔

محبت، علم و حلم، صبر، اور مواخذات کا درس دیا۔ ایثار کرنا سیکھیں برداشت کرنا سیکھیں۔ قوموں کی ترقی کا راز انسان دوست رویوں میں ہی پنہاں ہوتا ہے شر انگیز جبر میں نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments