کھیلوں میں سیاست کا کردار


”کھیل کو سیاست سے الگ رکھو“

”اپنے کھیل پر دھیان دو “

یہ دو فقرے آپ کو اکثر سننے کو ملتے ہوں گے یہی دو فقرے آپ تسلسل سے آج کل پھر سن رہے ہوں گے کیونکہ حال ہی میں نیوزی لینڈ اور انگلینڈ کی کرکٹ ٹیموں نے کرکٹ سیریز کھیلنے پاکستان کا دورہ کرنا تھا لیکن دونوں ممالک نے سیریز کھیلنے سے انکار کر دیا۔ نیوزی لینڈ کی ٹیم نے تو میچ شروع ہونے سے چند گھنٹے پہلے سیکیورٹی وجوہات بتاتے ہوئے دورہ ختم کرنے کا اعلان کر دیا جس سے پاکستانی کرکٹ شائقین کافی مایوس ہوئے ساتھ ہی سیاسی و سازشی تھیوریاں گردش کرنے لگیں۔

ہم میں سے بہت سے لوگ یہ یقین رکھتے ہیں کہ کھیلوں کو سیاست کی نذر کر کے متنازع نہیں بنانا چاہیے کیونکہ یہی کھیلوں کے لئے بہتر ہے۔ لیکن جب ہم وسیع سماجی، سیاسی اور معاشی تناظر میں دیکھتے ہیں تو محسوس ہوتا ہے کہ کیا اب کھیلوں کو سیاست سے دور رکھنا ممکن ہے۔ مختلف ممالک میں رائج مختلف سیاسی نظاموں کے تحت سیاست میں حصہ لیتی سیاسی جماعتوں کے منشور میں اب کھیلوں کی ترقی باقاعدہ ایک سائنس کا درجہ اختیار کر چکی ہے۔ حال ہی میں پاکستان کے مختلف شہروں میں ہوئے کنٹونمنٹ بورڈ کے انتخابات میں حصہ لینے والے امیدواروں نے نوجوان ووٹرز کی اپنی جانب راغب کرنے کے لئے انہیں کھیلوں کے میدان مہیا کرنے کا وعدہ کیا جو ایک اچھا سیاسی وعدہ ہے (رہے نام سٹیشن کمانڈر کا)۔

جب بات کھیلوں میں سیاست کی ہو تو اس میں برصغیر کے مشہور کھیل کرکٹ کا ذکر لازمی آئے گا جو اب سیاسی کھیل بنتا جا رہا ہے۔ نو آبادیاتی نظام سے آزاد ہونے والے ممالک میں ہی کرکٹ زیادہ مقبول ہے بلکہ اگر یہ کہا جائے یہی ممالک اب اس کھیل کے بادشاہ گر ہیں تو غلط نہ ہو گا۔ اگر دنیائے کرکٹ نے معاشی فوائد سمیٹنے ہوں تو انڈیا کی سپورٹ اور انڈیا کے ساتھ کھیلے بغیر ممکن نہیں حتٰی کہ آئی سی سی بھی انڈین کرکٹ بورڈ کے سامنے بے بس نظر آتا ہے۔

انڈیا نے کھیلوں کے میدان میں پاکستان کو تنہا کرنے کے لئے کرکٹ کو بطور ہتھیار استعمال کیا ہے۔ جیسا کہ انڈین پریمیئر لیگ جس میں دنیا بھر کے کرکٹرز حصہ لیتے ہیں اس سے پاکستانی پلیئرز کو دور رکھا۔ گو کہ سرمایہ دار اکانومی کے زیر اثر پاکستان اور انڈیا کے میچز وافر سرمایہ اکٹھا کرنے کا سبب بنتے ہیں لیکن سیاسی فوائد حاصل کرنے کے لئے اس منافع کو بھی سائیڈ لائن کر دیا گیا ہے۔ انڈیا نے بہت سے مواقع پر یہ کہا ہے کہ پاکستان کو انڈیا کے ساتھ کرکٹ کھیلنے کے لئے اپنی فارن سیکیورٹی پالیسی بدلنا پڑے گی۔ ہم ضیاء دور کی کرکٹ ڈپلومیسی بارے سنتے آئے ہیں لیکن انڈیا کرکٹ کو بطور انفلواینشل پالیسی کے استعمال کرنا چاہتا ہے جو بارڈر کے اس طرف قابل قبول نہیں۔

پاکستان اور انڈیا کے تناظر میں کرکٹ کا بطور ”سیاسی ہتھیار“ استعمال کوئی نئی بات نہیں تاریخ میں ایسا پہلے بھی ہوتا رہا ہے 1936 کے برلن اولمپکس میں جب افریقن امریکن ایتھلیٹ جیسی اوون نے چار گولڈ میڈل جیتے تو اس فتح کو ایتھلیٹکس کی کامیابی کے ساتھ ساتھ نازی جرمنی کے خلاف سیاسی فتح کے طور پر بھی منایا گیا۔ اسی طرح یوگوسلاویہ میں برسر اقتدار کمیونسٹ پارٹی نے فٹبال کو بطور یوگوسلوائی شہری اتحاد کے طور پر استعمال کرنے کی کوشش کی جس کا مقصد کوئی میڈل جیتنا نہیں تھا بلکہ اتحاد اور بھروسے کا مظہر ہونا تھا۔

جس دنیا میں ہم جی رہے ہیں وہاں کھیل اب معاشرتی حیثیت کا بھی تعین کرتے ہیں کیونکہ جیتنے والا سماجی، سیاسی، مذہبی علامت کے طور پر سامنے آتا ہے اور اس کے مداح اس کی پیروی کرتے ہیں۔ اس لئے یہ بات کہ کھیل کو سیاست کی نظر سے نہ دیکھا جائے اب قصہ لگتا ہے کیونکہ سیاست بھی اب کھیل کا اتنا ہی حصہ ہے جتنی کہ سیاست ہماری روز مرہ زندگی کا حصہ ہے۔

 

عمران یونس، راولپنڈی
Latest posts by عمران یونس، راولپنڈی (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments