تارکین وطن کے لئے خوشخبری


اوورسیز پاکستانی جو معاشی خوشحالی کے باوجود اپنے تمام خونی رشتوں سے کٹ کر اپنے بچپن و جوانی کی یادوں کو قربان کر کے رات دن کڑھتے ہوئے اپنے شب و روز گزارتے ہیں اور اپنے ملک پاکستان کی ترقی کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت بھی رکھتے مگر جب ان کے مسائل کا مسئلہ ٔ اتا تو اوورسیز پاکستان کمیشن پنجاب میں بغیر میرٹ کے تعین لوگ ان کے ساتھ ایسا ایسا کھلواڑ کر جاتے تھے کہ انہیں اپنے پاکستانی ہونے پر بھی شک ہونے لگ جاتا تھا۔

پاکستان میں زرمبادلہ کے سب سے بڑے سورس اوورسیز پاکستانی رہتے تو دوسرے ممالک میں ہیں مگر ان کی ہر ہر سانس کی ہر ہر دھڑکن میں پاکستان ہی دھڑکتا ہے۔ ترقی پذیر ممالک کے باشندوں کا حصول روزگار کے لئے ترقی یافتہ ممالک کا رخ کرنا تو اقوام عالم میں اکثر و بیشتر دیکھا جاتا ہے مگر پڑھے لکھے اور قابل ترین اوورسیز کی زندگی۔ جائیداد اور سرمایہ سے کھلواڑ جو میرے پیارے دیس میں دیکھا جاتا ہے وہ شاید کسی اور ملک میں نہیں دیکھا جاتا۔ اوورسیز پاکستانی جو اس ادارے کو شک کی نظر سے دیکھنا شروع ہو گئے تھے ان میں کچھ دن پہلے ایک امید کی کرن جاگ گئی تھی جب سید طارق محمود الحسن کا نام مقتدر حلقوں کی جانب سے سامنے آنے لگا تھا۔

سید طارق محمودالحسن جو اب باقاعدہ طور پر وائس چیئرپرسن اوورسیز کمیشن پنجاب بن چکے ہیں میں ان کو پچھلے دس سالوں سے ذاتی طور پر جانتا ہوں۔ صاحب ذکر کو ہم نے زندگی کے ہر شعبے اور تعلق میں ایک معیاری انسان پایا۔ سید طارق محمودالحسن جس کی زندگی ایک جان لیوا حادثے سے ایک تحریک کی طرف لوٹی میں ان کا تھوڑا سا تعارف کچھ یوں کرواتا ہوں کہ۔

دو معصوم بیٹوں کی لاشیں ہاتھ میں اٹھائے جب پاگل پن یا پھر خودکشی مخدوم طارق کا پیچھا کر رہی تھی تو اس مرد مجاہد نے مایوسی کو گناہ سمجھتے اور خدا کے فیصلے کے آگے اپنا سر تسلم خم کرتے ہوئے اپنی زندگی کو تحریک میں بدل دیا اور اوورسیز پاکستانیوں کے مسائل کا بیڑہ اٹھایا۔ وہ OPC میں پہلے سے ہی اپنی ذمہ داریاں نبھا رہے تھے مگر اب خداوند کریم کے بعد پی ٹی آئی کی اعلی کمان نے انہیں مزید ذمہ داریاں سونپ دی ہیں۔

سید طارق محمود الحسن، عام طور پر ٹی ایم حسن کے نام سے جانے جاتے ہیں، ایک قانونی ماہر، مایہ ناز تجزیہ کار، اور مصنف ہیں۔ ٹی ایم حسن نے نارتھمپٹن یونیورسٹی (برطانیہ) ​​سے بزنس کی ڈگری کے ساتھ قانون میں ایل ایل ایم کیا ہوا ہے۔ وہ عالمی تھنک ٹینکس کے رکن رہ چکے ہیں جن میں انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار اسٹریٹجک اسٹڈیز، رائل کامن ویلتھ سوسائٹی، چاتھم ہاؤس، اور رائل سوسائٹی آف آرٹس کے فیلو بھی ہیں۔ انہوں نے کئی تعلیمی، تربیتی اور مشاورتی ورکشاپس کی قیادت بھی کی ہے۔

سید طارق محمود الحسن بین الاقوامی تعلقات، عالمی امور اور سیاست کے ماہر کے طور پر پہنچانے جاتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے بہت سے عالمی اداروں اور یونیورسٹیوں میں مختلف سیمینارز میں شرکت کی ہے۔ ان کی بین الاقوامی تعلقات اور عالمی امور پر دو کتابیں بھی شائع ہو چکی ہیں جن کے نام ”A world in Chaos“ اور ”دنیا بدل رہی ہے“ ہیں۔ ”دنیا بدل رہی ہے“ ، کتابوں کی دنیا میں انقلاب لانے والے بھائیوں کی جوڑی نے بک کارنر جہلم سے چھاپی ہے اور چھاپنے کا حق ادا کیا ہے۔

تقریباً آٹھ برس سے سید طارق محمود الحسن کو تارکین وطن کے قانونی حقوق کے لئے سرگرم عمل دیکھ رہا ہوں۔ وہ ورلڈ کانگریس آف اوورسیز پاکستانیز کے برطانیہ کے صدر بھی ہیں اور سابق وزیر اعظم تھیریسا مے کے ساتھ وومن کانگریس کے انعقاد میں بھی پیش پیش تھے۔ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ تارکین وطن کو ووٹنگ کا حق دلانے کے لئے پانچ سال تک سپریم کورٹ میں جو جنگ لڑی گئی جس کا فیصلہ 2018 میں ہوا، سید طارق محمود الحسن اس کے ہراول دستے میں شامل تھے۔ انہوں نے تارکین وطن کے مقدمات کی فاسٹ ٹریک شنوائی کے لیے پیش رفت میں بھی بیش بہا کام کیا جسے سلسلے میں لاہور ہائی کورٹ کے ساتھ تین چار سال تک جدوجہد کی گئی اور گزشتہ برس اس سلسلے میں ایک خصوصی بنچ کا قیام عمل میں لایا گیا ہے۔

جب 2018 میں ان کے دو معصوم بچوں کی پاکستان میں حادثے میں وفات ہوئی تو ان پوری دنیا میں ان کے دوستوں نے سوگ منایا۔ پچھلے تین برسوں میں سید طارق محمود الحسن کو راکھ کا ڈھیر ہوتے، پارہ پارہ ہوتے اور بکھیرتے دیکھا اور پھر ان کو قطرہ قطرہ مجسم ہونے کی کوشش بھی کرتے دیکھا گو کہ شاید یہ کبھی بھی نہ ہو پائے گا کہ ایسی دراڑیں بھرتی کب ہیں۔ اب کا آدھا وقت اب پاکستان گزرتا ہے اور وہ ہر دوسرے روز کمالیہ میں موجود ہوتے ہیں جہاں ایک وسیع و عریض خانقاہ اور لنگر خانہ زیر تعمیر ہے۔

بات بے بات ان کے آنسو رواں ہوتے ہیں اور کبھی کبھی یہ نالے چڑھ جاتے ہیں۔ یہ سانحہ بلاشبہ ایسا جانکاہ سانحہ ہے کہ پہاڑ کو بھی سرمہ بنا دے۔ سید طارق محمود الحسن نے دو سال بہت شدید مشکل نفسیاتی کیفیت میں گزارے، پھر انہوں نے اپنے صدمے کو ہی اپنی طاقت بنانے کی ٹھان لی۔ ایک طرف انہونی نے اپنی روحانی اور قلبی وارداتوں کو کتاب کی شکل دینی شروع کر دی۔ ان کا لکھا جب دنیا کے بڑے دماغ اور امریکی دانشور سٹیون کوہن نے پڑھا تو وہ بھی عش عش کر اٹھا۔ وہ گزشتہ پانچ برس سے بیرون وطن پاکستانیوں پر تحقیق پر مبنی ایک کتاب لکھ رہے ہیں جو اردو زبان میں اپنی نوعیت کی پہلی کتاب ہوگی۔

سید طارق محمود الحسن نے اپنے بچوں سید زمام امام اور سید محمد علی امام کی یاد میں 15 کروڑ کی خطیر رقم سے ”علی زمام ٹرسٹ“ بنا دیا جس کی مدد سے وہ بے شمار بچوں کی زندگیوں کو اجالنا چاہتے ہیں، یہی اب ان کی زندگی کا مشن بن چکا ہے اور انہوں نے اپنے آپ کو اسی مقصد کے لیے وقف کر دیا ہے۔ وہ خانقاہی نظام کو بھی ایک نئے زاویے سے روشناس کرنا چاہتے ہیں۔ اس سال 18 جون کو علی زمام ٹرسٹ کا باضابطہ آغاز ہو چکا ہے جس کے تعلیمی اور خیراتی اداروں سے ان گنت زندگیاں فیض یاب ہوں گی۔

”دنیا بدل رہی ہے“ گزشتہ کچھ برسوں میں اردو میں بین الاقوامی تعلقات ہر شائع ہونے والی بہترین کتابوں میں سرفہرست ہے جس کی تقریب رونمائی جلد ہونے والی ہے۔ اپنے گردوپیش کو سمجھنے والوں کے لیے اور سی ایس ایس میں بیٹھنے والے امیدواروں کے لیے اس کا مطالعہ لازمی ہے۔ کتاب میں پاکستان، ہندوستان، ترکی، سعودی عرب، چین اور امریکا کے مستقبل کے حوالے سے شاندار بحث کی گئی ہے۔ سید طارق محمود الحسن خود ان لوگوں میں شامل ہیں جو اس دنیا کو بدلنے میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ ہم دعا گو ہیں کہ وہ ہر آنے والے چیلنج کو اپنی ذمہ داری سمجھتے ہوئے نبھائیں اور نوے لاکھ اوورسیز پاکستانیوں کی مایوسی دور کر کے ان کے حقوق کے علمبردار بنیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments