من کہ مسّمی منیر نسیم…. (2)


پہلی قسط کا آخری حصہ

آپ کا خادم من کہ مسمی منیر نسیم اے ایس آئی، ان دنوں معطل ہے۔ معاملہ کچھ خاص نہیں تھا مگر ہم پنجابی ملازمان، سندھی میں کہتے ہیں ” شل نہ“ جس کا مطلب ہوتا ہے ’اللہ نہ کرے‘ ان کم بخت، ڈی ایم جی افسران کے ہتھے چڑھ جائیں۔ میری معطلی کے احکامات خاص طور پر سیکر ٹری محکمہءداخلہ سے موصول ہوئے تھے۔ ہم پولیس والوں سے تو یوں بھی یہ زکوٹے جن، اینٹ کتے کی دشمنی رکھتے ہیں۔

٭٭٭ ٭٭٭

کرنی یہ ہوئی کہ ہمارے جوہر آباد کے تھانے کے علاقے میں بھنگوریہ گوٹھ میں قبضے کے پلاٹ پر گارمنٹ فیکٹری تھی۔ وہاں بھتہ مانگنے موومنٹ کے کچھ لڑکے پہنچ گئے۔ مالک امپورٹ کے آرڈرز لینے ملک سے باہر گیا تھا۔ فیکٹری پر صرف بیگم صاحبہ موجود تھیں۔ اب ان عورتوں کو بھلا بھتے اور ٹیکس کا کیا پتہ۔ انہیں تو یہ بھی نہیں معلوم تھا کہ فیکٹری بنی ہی قبضے کی بستی میں رہائشی علاقے کی ناجائز زمین پر تھی۔ وہ اس امر سے بے خبر تھیں کہ یہ لڑکے اگر اپنی پر اتر آئیں تو بلدیہ عظمی کراچی تو ویسے بھی ان کی جوتی کی نوک پر ناچتی ہے۔ ان کے ساتھی اس بلدیہ میں بھرے پڑے ہیں۔ یہ بھتہ خور لڑکے ایک جھوٹی درخواست دیں گے یونٹ والوں کو کہیں گے تو سارا بوریا بستر گول ہوجائے گا۔ ایک منٹ نہیں لگے گا فیکٹری جل کر بھسم ہوجائے گی۔

یہ لفنگے گلی کے کتورے، وہاں بھتہ مانگنے پہنچے تو انہوں نے یعنی بیگم صاحبہ نے اٹھا کر تھانے فون کر دیا۔ وائرلیس پر میسج چلا۔ خاکسار موبائیل ڈیوٹی پر تھا۔ لڑکے واقف کار تو نہ تھے، موقع پر پہنچا۔ موبائیل سے اترتا دیکھا تو تھوڑے ہول گئے۔ پنجابی افسر کی علاقے میں دھاک ہوتی ہے۔ سندھی افسر ہو تو رواجی ہوتا ہے۔ پیسے پکڑتا ہے۔ خوش رہتا ہے۔ میرا جیسا کڑیل پنجابی افسر ہو تو یہ سمجھتے ہیں کہ ساری فوج ہماری پشت پر ہے۔ اس کے باوجود میں نے بھی دھیما مصلحتانہ لہجہ اپنایا۔ مان گئے۔

 میں نے سمجھایا کہ ”ابے باجی کے لاڈلے، بھتہ مردوں سے مانگتے ہیں۔ سسری کا خصم آ جائے تو وس سے ڈبل بھتہ پھڑکا لیؤ۔ زنانیوں سے کون بھتہ مانگے۔ تس پر وہ مان گئے، باہر نکل کر کہنے لگے ”یہ دیکھو سرگودھا کا ڈھگا ہمارے علاقے میں آن کر امراﺅ جان کا ماموں بن گیا ہے۔ ہم کو بھاشن دیتا ہے۔ اپنے ایس ایچ او سے پوچھ کر بتا کہ رنڈی اور مولوی کے سو رپے کے نوٹ میں کیا فرق ہوتا ہے۔ سالے خود تو مردہ واپس کرنے کے بھی پیسے مانگتے ہیں اور ہمیں پاکیزہ بناسپتی سے نہلاتے ہیں۔ سن لے بے سرگودھے کے سانڈ، گولی کی بات کرے گا تو ہمارے پاس تیرے سے زیادہ گولیاں ہیں۔ ہمارے بھائی لوگ نے گلی کے آوارہ کتوں کے سر کے ایسے تاک تاک کے نشانے لے رکھے ہیں کہ گولی ادھر اُدھر نہیں ہوتی۔ تیرا کام تو چھ فٹ کے فریم پر آدھی گولی میں ہی ہوجائے گا۔ بوریاں البتہ دو لینی پڑیں گی۔ مٹھا ٹوانہ بس پر بھیج دیں گے“۔ مہاجر لڑکا زیادہ ہی چر چر کررہا تھا۔ پنجاب بہت یاد آیا کہ وہاں اتنی زبان چلاتا تو اس جھینگر کے جنازے کو لشکر جھنگوی یا تحریک پنجابی طالبان والوں کے ساتھ پویس مقابلے میں کب کا ٹپکا دیا ہوتا۔

وہ واپس چلے گئے تو خاکسار اوپر گیا اور بیگم صاحبہ کو جن کی نگاہوں میں مجھے وہی سلگتی سیکسی طلب دکھائی دی تھی جو راجہ سہیل سے ٹوٹنے کے بعد یاسمین بشریٰ کی آنکھوں میں میری اسکوٹر کی سیٹ دیکھ کر دکھائی دیا کرتی تھی۔ وہی دریائے شہوت و لطافت میں ڈوب جانے کی ہوس جسے خاکسار نے پینلٹی اسٹروک جان کر محبت کا گول کیا تھا۔

 میں آپ کو بتادوں یہ فیکٹری فیاسکو (افراتفری) کے وقت خاکسار نے یونی فارم نہیں پہنی تھی۔ موسم سرما کی وردیاں ابھی تھانوں پر پہنچی نہیں تھیں۔ گرما کی وردی نومبر کی رات میں ناکافی ہوتی تھی۔ اس لیے من کہ مسمی منیر نسیم زینب مارکیٹ (کراچی میں سستے مغربی کپڑوں کی مارکیٹ) سے خریدی ہوئی جیکٹ، چیک کی شرٹ اور لنڈا سے خریدی ہوئی لیوائے کی پانچ سو نمبر والی سیریز کی جینز پہن رکھی تھی۔ تھانے کے ساتھ ہی ایک جم تھا۔ جہاں خاکسار باقاعدگی سے ورزش بھی کرتا تھا جس کی وجہ سے دور سے اس پر ہالی ووڈ کے اداکار Daniel Craig کا شبہ ہوتا جس نے جیمز بانڈ کا کردار بھی ادا کیا ہے۔ بیگم صاحب میری آمد سے لے کر رخصتی تک ایک انداز تغافل جس میں تغافل کی آڑ میں گھات زیادہ تھی، مجھے دیکھتی رہیں۔

 بھتہ خور لڑکے چلے گئے تو میں نے عملے سے ان کے کوائف جمع کیے۔ بتایا گیا کہ سیٹھ کا نام ناصر ہمدانی ہے اور بیگم صاحبہ کا نام علیزے ہے۔ شادی کو چھ سال ہوگئے ہیں۔ دوسری بیگم ہیں۔ اولاد کوئی نہیں۔ میں انہیں خاطر جمع (دل کی تسلی) کرانے اور ان کی گھات کا مزید جائزہ لینے اوپر دفتر میں ان کے کمرے میں پہنچا۔ اپنا سیل فون نمبر دیا اور یہ بھی یقین دلایا کہ وہ مجھے اپنا محافظ خصوصی سمجھیں۔ پورے کراچی میں ہمارے سرگودھا اور پنجاب سے تعلق رکھنے والے پولیس کے کئی دوست ہیں۔ تھانے، ٹریفک، جہاں کہیں گی مجھے اپنا معاون و ہمدرد پائیں گی۔ یوں بھی ہمارا نعرہ ہے کہ پولیس کا ہے فرض مدد آپ کی۔

اسی دوران میں نے بیگم صاحبہ کو پہلی دفعہ غور سے دیکھا۔ ہائے وہ ایک ایسا حسن ناآسودہ جس کی دید میں لاکھوں مسرتیں پنہاں۔ ایک وجود بے اعتنا۔ بیلجئم کے قیمتی آئینے کی مانند بے داغ ہموار اور اجلی جلد، جس طرح بچے کبھی کبھار آئینے اور شیشے سے اپنا گال لگا کر خوش ہوتے ہیں میرا بھی دل چاہا کہ ان کے گال سے گال ملا لوں۔

نشست سے کھڑی ہوئیں تو مجھے کراچی کی دیگر خواتین کی نسبت دراز قد لگیں۔ ایسا لگا کہ یہ وفور جذبات سے کبھی خاکسار کے کاندھے پر سر رکھیں گی تو مجھے ان کے ہونٹوں تک پہنچنے کے لیے صرف اپنی گردن کو خم دے کر ان کی سانسوں کو اپنے ہونٹوں کے پیالے میں بھرنا ہو گا۔ دوپٹہ گو بہت احتیاط سے سمیٹا گیا تھا مگر پیشانی کو وسعت دینے کے لیے سیاہ بالوں کو پیچھے دھکیلنے کے لیے ایک ایس سنہری اسٹریک کھینچی گئی تھی جس کی وجہ سے پیشانی کی تنگی، کشادگی میں بدل گئی تھی۔ اس نقشہ بندی میں بالوں اور پیشانی کا ملاپ ایسا دل فریب ہوگیا تھا جیسے ریت کے نم ساحل اور آتی جاتی دھمی دھمی لہروں کا ہوتا ہے۔ نصیر ترابی نے اسے یوں بیان تھا کہ دھوپ چھاﺅں کا عالم تھا پر جدائی نہ تھی۔ سیاہ آنکھیں جن میں ایک مقناطیسیت تھی۔ کراچی میں اکثر خواتین کے چہرے پر کرختگی اور نگاہوں میں بے اعتبار سی بے لطفی ہوتی ہوتی ہے۔ ان آنکھوں کو دیکھو تو لگتا تھا کہ اپنے پسندیدہ سپنے کے انتظار میں وہ کئی رت جگوں کے ہاتھوں لٹ چکی ہیں۔ معلوم ہوا کہ میڈم علیزے کی آنکھوں کے ساتھ سپنوں اور نیند کی کھلواڑ کا راز زندگی میں آسودگیوں کی بھرمار تھی۔ ہونٹ پر البتہ لپ اسٹک میں بہتے پہاڑی چشموں کے پانی کی روانی تھی۔ یہ اندازہ کرنا مشکل تھا کہ ہونٹوں کا رنگ کہاں ختم ہوتا ہے اور لپ اسٹک اپنی رنگیلی جسارت کا آغاز کہاں سے کرتی ہے۔

دوپٹے نے سر اور چہرے سے نیچے کے مناظر کو ڈھانپ رکھا تھا لہذا میرا بیان حلفی سر دست صرف اتنا ہے کہ خد و خال کا مزید اظہار محض میرے تخیل کی جولانی ہوگی۔ ایک ذمہ دار پولیس افسر ہونے کے ناطے خاکسار صرف اتنا ہی بیان کرے گا جو موقع معائنہ پر دکھائی دیا۔ مزید حقائق تفتیش جوں جوں آگے بڑھے گی یوں یوں داخل مسل (فائل) ہوں گے۔ پاکستان کے ضابطہ فوج داری میں جسے کرمنل پروسیجر کوڈ کہتے ہیں اس کی دفعہ 173 کے تحت عدالت میں داخل چارج شیٹ میں نئے شواہد دستیاب ہونے پر فرد جرم میں اضافہ یا تخفیف کی جا سکتی ہے۔

میاں واپس آئے تو یہ کم بخت لڑکے بھتہ مانگنے پھر پہنچ گئے۔ مجھے کل ہی معلوم ہوا تھا کہ ان تین میں سے صرف ایک لڑکا ہی تھوڑا بہت پارٹی سے جڑا ہوا ہے مگر باقی دو میں سے ایک پاک کالونی کا  مکرانی ہے اور دوسرا بھنگوریہ گوٹھ کا کوئی ڈشکرا اعوان۔

مجھے علیزے کا فون آیا تو میں اپنے کسی دوست سے ملنے اختر کالونی آیا ہوا تھا۔ وہ بتا رہی تھی کہ سیٹھ سے بھتہ مانگنے یہ لڑکے پھر پہنچ گئے ہیں۔ اسلحہ بھی لہرایا ہے۔ کل تک لاکھ روپے کا بندوبست کرنے کا کہا ہے۔ ناصر سیٹھ تو ڈر کے مارے فیکٹری چھوڑ کر گھر کی طرف روانہ ہوئے ہیں۔ گھر قریب ہی ڈیفنس کے علاقے فیز ون میں واقع تھا۔ میں پتہ پوچھ کر پہنچا تو ملازم نے پولیس کے حاضر سروس افسر کو اپنے گھر میں دیکھا تو بوکھلا گیا۔ جھٹ پٹ ڈرائینگ روم میں بٹھایا۔ بتانے لگا کہ میڈم ورزش آوٹ کرتی ہیں۔ اس نے ورک کی جگہ ورزش شامل کرکے آوٹ کو اپنی جگہ برقرار رکھا۔ میں یہ سن کر کھڑا ہو گیا اور مین دروازے کی طرف بڑھا تو وہ گھبرا گیا اور کہنے لگا ’ایک منٹ دیں میں جا کر بتادوں۔ میری عجلت نے خوب اثر دکھایا۔ علیزے تقریباً دوڑتی ہوئی آگئی۔ گلے میں چھوٹا سا جامنی جم ٹاول، ویسے ہی رنگ کا ہالٹر جس سے عریاں شانے اور بازو پسینے کے جھلملاتے قطروں سے چمکتے تھے اور سیاہ چست دو رنگی ایکسرسائز پتلون جو گندھی ہوئی ڈوری سے بندھی تھی۔ ہالٹر چونکہ ناف سے بہت پہلے اوپر آن کر رک گیا تھا لہذا سنہرے بالوں کی ایک پتلی سی لکیر ناف کے دھرنا دینے اورراستہ روکنے پر احتجاج کرتی ہوئی ڈوریوں کے نیچے لاسٹک سے سرکش دریاوں کی طرح راستہ بناتی ہوتی ہوئی غائب ہوجاتی تھی۔

علیزے نے میری ناف۔ تاڑ کاروائی کو بھانپ لیا اور اپنا جم ٹاول ایک جانب سے کھینچ کر یوں گرایا کہ میں اس گرداب خوش جمال کے درشن سے بہت حد تک محروم ہوگیا جسے ناف کہتے ہیں۔ اس دوران میں یاسمین بشریٰ اور علیزے کی ناف کا موازنہ انیس و دبیر کرچکا تھا۔ یاسمین بشریٰ پینڈو پنجابن کی ناف ایک اندھی کھوئی (کنواں) لگتی تھی۔ اس کے پنڈ ہڈالی کا ایک ہنگامہ پرور کنواں۔ جب کہ علیزے کی ناف ناران کی جھیل سیف الملوک پریوں کا زرین تالاب۔ دیکھ دیکھ دل نہ بھرے۔ بال پونی ٹیل کی صورت میں بندھے تھے۔ مجھے کہنے لگی کہ میں ایک Fitness Freak ہوں۔ مجھے لگتا ہے تم کو بھی ورک آﺅٹ کا بہت کریز ہے۔ تم اس دن دیگر پولیس والوں کی نسبت مجھے بہت مختلف لگے تھے۔ بالکل Daniel Craig جیسے۔ اینٹی ہیرو۔ میں نے بھی جواب میں کہہ دیا وہ بھی مجھے کرینہ کپور جیسی لگتی ہیں۔

انہوں نے کہا ان کے ورک آﺅٹ سیشن کے ختم ہونے میں دس منٹ باقی ہیں۔ تم بیٹھو ناصر آتے ہی ہوں گے۔ میں نے ترپ کا پتہ پھینکا کہ اجازت ہو تو میں بھی ان کا جم دیکھ لوں۔ وہ مان گئیں اس شرط پر کہ گھنٹی بجے تو میں بھاگ کر ڈرائینگ روم میں آ جاﺅں۔ ناصر کو اچھا نہیں لگتا کہ کوئی مجھے اس حلیے میں مجھے دیکھے۔ اچھا ہے تم ہو تو میں چھت میں لگے Suspension Trainer  کا لیول اونچا کر کے ورک آﺅٹ کروں گی۔ چھت میں لٹکتے ہوئے بیلٹس اور رنگز کا لیول دو فٹ اوپر ہوا تو علیزے جمپ لگا کر بھی خود کو اونچا نہ کر پائی۔ میں نے جسارت کی اور بہت آہستگی سے اسے پیچھے سے تھام کر اوپر اٹھا دیا اور وہ رنگ پکڑ کر جھلارے لینے لگی، میرے لیے اب دید و درشن کے نئے مناظر بے رکاوٹ سامنے تھے۔ چند منٹ بعد جب وہ تھک گئی تو اتارنے کا مرحلہ آیا۔ نیچے میں نے تھام کر اتارا تو مان لو کہ کرسٹل کے قیمتی جام میں Vintage-Wine  سما گئی ہو۔ خاکسار کی نیت تو چومنے کی تھی مگر وہ کم چالاک نہ تھی جوں ہی میرے لب قریب پہنچے اس نے ایک سرعت سے منھ پھیرلیا، بس ہونٹوں کو ہونٹوں سے رسمی علیک سلیک کا موقع ہی ملا۔ کہنے لگی چھی۔

I smell like a pig. Some other time some other place.Mr. James Bond.

اتنے میں گھنٹی بجی تو خاکسار لپک کر ڈرائینگ روم میں اچھا بچہ بن کر بیٹھ گیا۔

ناصر صاحب کو دیکھ کر مجھے بھی اتنی ہی مایوسی ہوئی جتنی شاید علیزے کو روز مرہ کی بنیاد پر ہوتی ہوگی۔ بدن مائل بہ فربہی، رنگت، سکے ہوئے توس جیسی، چشمے کے پیچھے سے جھانکتی شاطر آنکھیں۔ چاکلیٹی رنگ کا شلوار سوٹ، جیسے توے پر چاکلیٹ پڑی ہو۔ تعارف کے مراحل ابھی ادھورے ہی تھے کہ ان کی بیگم بھی آگئیں۔

علیزے کا شاور بہت عجلت کا ہو گا مگر بہت دھلی دھلی اور شگفتہ لگ رہی تھی۔ شمپو اور پرفیوم کی گیلی گیلی خوشبو بغیر دوپٹے کا جلد کی رنگت کا پتلا سا لان کا کرتا نیچے پھولدار کاٹن کی برا، سفید سیدھا پاجامہ۔ میاں کے ساتھ پیش آنے والی واردات کا تذکرہ اسی نے چھیڑا۔ بتانے لگیں کہ ان لڑکوں نے بہت بدتمیزی کی۔ میرے میاں تو ویسے بھی اودے پور راجھستان کے مہاجر ہیں۔ میری امی پٹھان اور ابو سندھ کے ہیں۔ ہمارا سیاست سے کیا لینا دینا۔ سمپل بزنس مین فیملی ہے ہماری۔ میں سمجھ گیا کہ وہ اس بدمعاشی سے میرے ذریعے نجات چاہتی ہے

رات کو اس سہ فریقی گینگ کے دو لڑکوں سلیم اعوان اور کالا شاہ مکرانی کو تو میں نے خود اٹھا کر بڑی کٹ لگائی۔ اس چر چر کرنے والے مٹروے کی شکایت سیکٹر میں کی تو سیکٹر والوں نے مار مار کر اس کے کولہے بھی لال پیلے کر دیے۔ تین ماہ میں تک مجال ہے جو کسی لڑکے نے ان کی فیکٹری کا رخ کیا ہو۔ علیزے سے میری قربت رہی مگر رسائی کے جو سپنے میں نے دیکھے تھے وہ پورے نہ ہوئے۔ اس میں کچھ قصور تو اس کے میاں کی ملک میں موجودگی اور کچھ اس کی شہری احتیاط کا بھی تھا۔ پنڈ اور چھوٹے شہروں کی لڑکیاں دھوپ میں رکھی برف ہوتی ہیں جلد پگھل جاتی ہیں۔ انہیں یہ بنیادی شعور ہوتا ہے کہ آنے والے مرد کو بہن بھابھی کی نہیں جنس کی بھوک مٹانے کی حاجت ہے۔ سو کیا کھیت کیا کھلیان۔ ان دیہاتی عورتوں پر باہر کی قدغن بہت ہوتی ہے۔ سارا پنڈ محلہ دوربین لے کر بیٹھا رہتا ہے۔ گاﺅں کے کتے بھی سوائے ان کے سوروں اور یاروں پر بھونکنے کے علاوہ کوئی اور کام میں نہیں کرتے۔ اس کے برعکس شہر کی عورت فریزر کی برف جیسی ہوتی ہے۔ کچھ دیر بعد درجہ حرارت کی تبدیلی سے اس کا بندھن کمزور پڑتا ہے تب cubes زور لگانے پر ٹرے سے باہر آتے ہیں۔ اس کی ساری پابندی اندر سے ہوتی ہے۔ غیرت اور عصمت کے کوئی جھوٹے بت اس کے دماغ کے مندر میں پالتی مارے نہیں بیٹھے ہوتے۔ مجھے یہ بھی خدشہ تھا کہ کراچی کے مالدار لوگ پولیس والوں سے تعلقات کو بلا وجہ کا بوجھ سمجھتے ہیں۔ خواتین بالخصوص یہ بھی سوچتی ہیں کہ ان تعلقات کو اگر بڑھنے دیا اور مال اور ساکھ دونوں کو نقصان پہنچنے کا احتمال ہے۔ ہم پولیس والوں میں یوں حیوانیت (Animalism) بہت ہے۔

میری جانب سے علیزے کی اس جسمانی ٹال مٹول کے باوجود خلوص میں کوئی کمی نہیں آئی۔ دن میں چھوٹی ہی سہی مگر مختصر سی فون پر بات بھی ہوجاتی تھی۔ یہ گرے بلیو نوکیا 3310 سیل فون کا زمانہ تھا۔ وائبر فیس بک واٹس اپ کا کسی نے سوچا تک نہ تھا۔ جس طرح صالحین مسجد سے اللہ اکبر کی پہلی صدا پر لپک کر مسجد کا راستہ لیتے ہیں من کہ مسمی منیر نسیم بھی علیزے کی ایک کال پر دوڑا دوڑا اس کی خدمت میں بلا معاوضہ حاضر ہو جاتا تھا۔ ایک سوال کا جواب جو شاید آپ کے لیے ان دو میاں بیوی کے حوالے سے دل چسپی کا ہو میں نے ایک رات علیزے سے پوچھ لیا کہ وہ سیٹھ ناصر کے ساتھ رہ کر بھی جسمانی حوالے سے ان سے کیسے لاتعلق رہتی ہے۔

 یہ وہ رات تھی جب وہ مہندی میں جوہر آباد تھانے سے کچھ دور نارتھ ناظم آباد تنہا ہمارے علاقے میں کسی تقریب میں آئی تھی۔ ساری سڑک ان دنوں شاہراہ مناکحت بنی رہتی تھی۔ شادی ہال ہی ہال۔ علیزے کا ڈرائیور قریب ہی کے علاقے اورنگی کا تھا۔ وہ ہفتے کی شام چلا جاتا تھا۔ اسے وہ تقریب میں ہال پر چھوڑ، چابیاں دے کر چلا گیا۔ میری ڈیوٹی لگی کہ واپسی پر کہ میں اسے گھر چھوڑ کر آﺅں۔ رات جب وہاں مہندی کی تقریب سے اس کے رخصت ہونے کا وقت آیا تو مجھے فون پر وہاں شادی والے بنگلے پر پہنچنے کا اذن ملا۔

 خاکسار نے اپنے معمول کو سرکاری مصروفیت کا رنگ دینے کے لیے تھانے کے روز نامچے میں کسی مفرور مجرم کی ڈیفنس کراچی کے ایک مجرے میں موجودگی کا اطلاع ڈالی۔ ہیڈ محرر صاحب کو سمجھایا کہ مجھے نارتھ ناظم آباد کی فلانی جگہ پر اتار دیا جائے میں میں وہاں سے مخبر خاص کے ساتھ جائے مطلوبہ پر موٹر سائیکل پرجاﺅں گا۔ ملزم اگر موقع پر پایا گیا تو بغرض گرفتاری ڈیفنس تھانے سے نفری منگالیں گے۔

 تقریب ابھی جاری تھی مگر علیزے کے دل میں شاید خیال آیا ہو کہ کچھ وقت میرے ساتھ گزار لے۔ شادی والے بڑے سے ایک بنگلے سے نکل کر آئی تو خاکسار دیکھتا رہ گیا۔ قیمتی جارجیٹ کی سمندر جیسے ہرے رنگ کی ساڑھی جس کا بلاﺅز بقول غالب، ہے بس کہ ہر اک اس کے اشارے میں نشاں اور۔۔۔ لگتا تھا۔ گیٹ پر رخصت کی غرض سے آنے والی ایک میزبان خاتون نے گفتگو کرتے وقت شہر کے حالات اور اس کے لباس کی بے باکی کی جانب اشارہ کیا توعلیزے نے فی الفور مجھے حکم دیا کہ ڈرائیور جاﺅ یہ چابی لو اور میری چادر کار کی پچھلی سیٹ سے لے آﺅ۔ سبز ساڑھی پر چادر ڈالنے کا معاملہ ایسا ہی تھا جیسے کسی نے پستہ آئس کریم پر قورمے کے دو چمچے انڈیل دیے ہوں۔ علیزے نے اتنی کمینگی ضرور کی کہ مجھے اپنے میزبانوں کے سامنے ڈرائیور کہہ کر پکارا۔

 اس بے باک ڈرائیور یعنی آپ کے خادم منیر نسیم ٹلے نے کسی صاحب کی کار کے آگے لائن توڑ کر جب میں نے اسے بٹھانے کے لیے اپنی کار پارک کی تو علیزے نے سب کے سامنے اس جسارت پر مجھے جھوٹ موٹ ڈانٹا بھی مگر گاڑی میں پچھلی سیٹ پر بیٹھتے ہی کہنے لگی کہ اچھا کیا لائن توڑی۔ وہ کتیا جانے کتنے دیر مجھے فرحت ہاشمی کی طرح تپاتی۔ پوچھنے لگی کہ میرا تعلق کس قوم سے ہے۔ میرے علم میں یہ بات تھی کہ اس کا وہ لوزر میاں راجھستان کا اور اس کے خود کی امی پٹھان اور ابو سندھ کے ہیں۔ اس لحاظ سے میں نے بات نبھانے کے لیے جتایا کہ ہم دور کے کزن ہیں میری امی بھی پٹھان اور ابو سندھ کے پنجابی ہیں۔ مگر ہم پیچھے سے دوآبے کے جٹ ہیں۔ میرے جد امجد محمد بن قاسم کے وزیر زراعت ہوتے تھے مگر عرب واپس دمشق جانے لگے تو یہ سندھ دھرتی کو ماں سمجھ کر لپٹ گئے اور محمد بن قاسم کے واپسی کے مطالبے پر چیخ چیخ کر کہنے لگے۔۔ مرسوں، مرسوں۔ سندھ نا، ڈے سوں۔ دمشق نہ کھپے (مرجائیں گے مگر سندھ نہیں چھوڑیں گے) ۔ بہت ہنسی۔ کہنے لگی کاش ہمدانی بھی آپ کی طرح Witty ہوتے۔ میں نے کہا Wit اور محبت میری، گھر اور نکاح نامہ ناصر ہمدانی صاحب کا۔ یوں میرے سلیقے سے نبھ گئی میری محبت میں والا حساب ہوگا۔ اس نے کہا How poetic

میں نے پیچھے دیکھنے والے شیشے سے جائزہ لیا۔ ایک عجب سی وحشت آنکھ میں تیرتی تھی۔ ناآسودگی، طلب اور خود آگاہی جو اس رات کی سجاوٹ نے حسن کی رام لیلا رچائی تھی۔ میرے پولیسئے دماغ نے جتایا کہ بس اک آنچ کی کسر ہے اور علیزے ٹوٹ کے چکنا چور ہوجائے گی۔ دور سے حیدری مارکیٹ کی روشنیاں نظر آرہی تھیں۔ میں نے بھی کچھ دور چل کر جب کہا اصل میں جان کے لالے تو دلہن کو پڑے ہوں گے کہ مہندی میری اور لوٹ علیزے بیگم نے لی۔ تو اس نے فوراً کہا گاڑی روکو۔ میں ہڑبڑا گیا کہ یا اللہ ایسی کیا کوتاہی، کون سی خطا ہوئی کہ وہ برہم ہوگئی۔ گاڑی روکتے ہی اگلی سیٹ پر آگئی۔ حیدری مارکیٹ کراس کر کے میں نے اس کا سر کاندھے پر ٹکا یا تو ڈھیلی پڑ گئی۔

ہم نے ڈیفنس تک آتے آتے نیم روشن، خوابیدہ گلیوں میں ایک دوسرے کو رج کر پیار کیا۔۔ یہ مجھے پتہ نہ تھا کہ یہ کراچی کی خواتین آئس برگ ہوتی ہیں۔ جتنی اندر ہوتی ہیں اس سے زیادہ زیر آب ہوتی ہیں بالکل برگد کی جڑوں کی طرح۔ جب اس نے کہا گھر قریب آنے پر بتایا کہ ناصر کسی تجارتی مصروفیت کی بنیاد پر فیصل آباد گئے ہیں تو میر ی امید بندھ چلی کہ وصل و وحشت کے باقی مراحل اس کی اپنی خواب گاہ میں طے ہوں گے۔ وہ کہنے لگی چوکیدار ملازم میرے آنے تک جاگ رہے ہوں گے۔ وہ مجھے گھر نہیں لے جا سکتی۔

میں نے بھی اپنے دماغ میں ایک برق رفتار فیصلہ کیا۔ پولیس کو ویسے کون اچھا سمجھتا ہے کہ اب میں امیج بہتر کرنے کا کہوں۔ سارا دن تو سندھی میں ہم پر تھک بھجا (تھوکنا لعنت بھیجنا) ہوتا رہتا ہے۔ یوں بھی یہ کام ہمارے آئی جی صاحب کا ہے نہ کہ ہم چھوٹے درجے کے افسران کا کہ امیج بہتر بنائیں۔ صرف آدھے گھنٹے کے لیے اسے درخواست کی کہ چلو سی ویو کا ایک چکر لگا تے ہیں۔ درخواست لب و لہجے میں سرایئکی اور لکھنو کی مجموعی شیرینی سمیٹ کر ڈالی۔ وہ مان گئی۔ بس اتنا کہا کوئی زیادتی تو نہیں کرو گے نا۔ میں ناصر کی امانت ہوں۔ اب یہ عورتوں کو چوم چام لو جہاں تہاں ہاتھ پھیر لو تو اس کے بعد کون سی زیادتی رہ جاتی ہے۔ ان پگلوٹ حسیناﺅں کو کون سمجھائے کہ مرد کی الفت و شہوت سمندر جیسی ہوتی ہے۔ کیا قطرہ، کیا موج، جیسا ایک کنارہ ویسا دوسرا کنارہ۔ بہتا پانی اور بہتی لگاﺅٹ کو کیسے علیحدہ کیا جا سکتا ہے.

 اس وقت سی ویو سے آگے دو دریا وغیرہ کا علاقہ ایسا آباد نہ تھا۔ ایک سنسان گوشے میں کوئی عمارت زیر تعمیر ادھوری چھوڑ دی گئی۔ پاس پڑوس میں چوکیدار ہوں تو بھی میرے کار کی بتیاں بجھانے پر دیکھنے سے قاصر رہے ہوں گے

 اجاڑ کمپاﺅنڈ میں کار روکی تو گھبرا گئی، وہ کہاں کی بات ماننے والی تھی۔ شور مچانے پر راز معشوق رسوا ہونے کا خدشہ تھا۔ من کہ مسمی منیر نسیم نے موقع غنیمت جان کر جب پستول کی نالی اس کی ناف پر رکھی تو وہ مجبور ہو گئی۔ میں نے وہ سب کچھ کیا جسے ہندی میں بلد کار کہتے ہیں۔ وہ کہتی رہی کہ زندگی بھر میری شکل نہیں دیکھے گی۔ سچ پوچھئے تو یہ دھمکی ہی تھی جس کے بعد مجھے لگا وہ سب کچھ کرنے میں برابر کی رضامند تھی۔ بوس و کنار سپردگی میں ایک عیارانہ سپردگی کا اہتمام تھا۔

دور کہیں جب افق پر پو پھٹنے کے آثار نمایاں ہونے لگے تو۔ اس کے لہجے میں تھکن غالب آچکی تھی۔ کہنے لگی سپیدی نمایاں ہو رہی ہے اب تو چھوڑ دو۔ دل تو نہ مانتا تھا کہ اس کٹائی کو مجھ جیسا کسان یوں چھوڑ دے۔ اُسے گھر پر چھوڑا۔ ر استہ بھر وہ چپ چپ تھی۔ دروازے پر اتارا تو اللہ حافظ تک نہ کہا۔ چوکیدار کو کار کی چابی لے لینے کا کہا۔

خاکسار نے کورنگی روڈ پر آن کر پہلے تو ایک اسکوٹر والے سے لفٹ لی۔ تھانے تک کا باقی سفر بھی ایک کار والے سے لفٹ لے کر پورا کیا۔ روز نامچے میں واپسی کی انٹری یہ لکھ کر ڈالی کہ مخبر خاص کے پاس مصدقہ اطلاع ہونے کے باوجود مطلوبہ ملزم مجرے کی محفل میں شریک نہ ہوا۔ مزید تفصیلات ان دونوں کی باہمی ملاقات کے بعد ہی پتہ چل پائیں گی۔ کیس کی تفتیش سابقہ تندہی سے جاری رہے گی۔

علاقے میں واقع میں نے اپنے فلیٹ پر آن کر پہلا کام یہ کیا کہ اپنی شکل آئینے میں دیکھی۔ وہ ایسی کچھ بری نہ لگی مگر اب اس کا کیا جائے کہ کوئی اسے دیکھنا ہی نہ چاہے۔ آپ کو علیزے سے میرا کیا جانے والا سوال تو یاد ہوگا کہ وہ سیٹھ ناصر کے ساتھ رہ کر بھی جسمانی حوالے سے ان سے کیسے لاتعلق رہتی ہے۔ کہنے لگی کہ میں نے اس کی طرف محبت بھری نگاہوں سے دیکھنا یکسر چھوڑ دیا۔

اس شب بے باک کے بعد میں نے کوئی تین مرتبہ علیزے کو کال کیا مگر مجھے لگا کہ اس نے میرا نمبر اپنے فون پر بلاک کردیا۔ راجہ سہیل کہا کرتا تھا کہ عورت اور بندوق کو مت چھیڑو کیا پتہ بھری ہوئی ہو۔ سو خاکسار نے اس حوالے سے کوئی مزید جسارت نہ کی۔

 الیکشن ہونے والے تھے۔ پولنگ کے انتظامات کے سلسلے میں میری ڈیوٹی ایک ایڈیشنل شیشن جج صاحب کے لگ گئی، وہ ہمارے ضلع کے ریٹرنگ افسر تھے۔ دوران انتظامات وہ لڑکا جس کی فیکٹری فیاسکو میں پارٹی کے بڑوں نے لترول کی  تھی۔ وہ پارٹی کی جانب سے ضلع وسطی میں انتخابات کا نگران تھا۔ اس کا نام تابش صدیقی تھا۔ الیکشن ہوئے تو ناصر ہمدانی کے فیکٹری مینیجر کا بھائی علاقے کا ایم پی اے بن گیا۔ ایک ماہ میں ان کی فیکٹری بھی محکمہ کچی آبادی کی جانب سے لیز ہوکر باقاعدہ طریقے سے Regularize  ہو گئی۔ اس دوران علیزے کبھی فیکٹری پر آتی جاتی دکھائی نہیں دی۔

ویسے اب وہاں بہت سکون تھا۔ پارٹی کی جانب سے کوئی بھتہ مانگنے وہاں نہ آتا تھا۔ کاروبار بھی بہتر ہوگیا۔ پولیس والے بھی چوروں کی طرح ہیرا پھیری سے باز نہیں آتے۔ پانچ مہینے پورے ہونے پر وہاں میڈم کے دفتر میں کام کرنے والی ایک رشتہ دار لڑکی کی زبانی ہمارے ایک پولیس والے کو علم ہوا کہ مالکن حاملہ ہیں اور بچے کی پیدائش کی غرض سے امریکہ اپنی بہن کے پاس گئی ہیں۔ یقین مانیے کہ من کہ مسمی منیر نسیم بچے کا باپ بننے کی اس اطلاع پر اداس بھی ہوا اور خوش بھی۔ میں نے آپ کو بتا دیا تھاکہ علیزے سیٹھ ناصر کی دوسری بیوی تھی اور ان کی شادی کو چھ برس سے زائد ہو چلے تھے اور بچہ بھی نہ تھا۔

میرے علیزے کے بچے کا باپ بننے کی خوشی اس وقت ہرن ہوگئی جب میں، عبدالمنان جو ان دنوں تھانہ گلبرگ میں اور دیگر دو ساتھی جاوید نہاری والے کے ہاں سے ناشتہ کرکے آ رہے تھے۔ وہاں پہنچتے ہی بتایا گیا کہ تھانے پر میری معطلی اور اس دن موبائیل میں شامل نفری کے تبادلے کے احکامات موصول ہو چکے ہیں۔ آپ کو تو یاد ہوگا کہ میں ہمراہان چار ملازمان بزریعہ وائرلیس پیغام موصول ہونے پر بھتہ خوری کی کاروائی روکنے تھانے پہنچ گیا تھا۔ نئے سیاسی حالات کے پس منظر میں مجھے یا کسی اور ملازم کو یہ سمجھنے میں کوئی دشواری نہ ہوئی کہ یہ سب کیوں ہوا ہے، اس لیے کہ ہماری جگہ ڈیوٹی رپورٹ کرنے مختلف مقامات سے دیگر ملازمان ہمارے چارج چھوڑنے سے پہلے ہی پہنچ گئے تھے۔

 اپنے اسی ساتھی کی مدد سے پتہ چلا کہ امریکہ میں علیزے کے ہاں بیٹی پیدا ہوئی ہے۔ مجھے معطل ہوئے پانچ ماہ ہو چلے تھے۔ تین عدد ایس ایچ او صاحبان سے بحالی کی بات چیت چلی مگر  بے سود رہی۔ وہ جن سیاست دانوں اور سیکٹر والوں سے ڈیل کے ذریعے بحال کرانے کا حوالہ دیتے ہیں ان کے لیے لاکھوں کا نذرانہ مانگتے ہیں۔ وہ میں کہاں سے لاﺅں۔ خاکسار میر و غالب، فراق و فیض پڑھ کر بھی اگر ہوس دنیا میں مبتلا رہے تو یہ تو اردو ادب اور خاکسار کا جس کا پورا نام منیر نسیم ٹُلّا ہے۔ والد کا نام نسیم جمال، جس کی ذات۔ ٹُلّا ہے یہ ہماری سب کی توہین ہے۔

 معطلی کو جب چھٹا مہینہ لگا تو من کہ مسمی منیر نسیم اے ایس آئی بے قرار ہو گیا، پڑے پڑے لوہا بھی زنگ پکڑ لیتا ہے، پتھر بھی گھس جاتا ہے۔ ہماری تو اپنی افتاد طبع کا فتور ہے کہ جس کی روشنی سے ہمیں دہر میں پناہ نہیں ملتی، مزاج بھی خیر سے بے نیازی سے رجا ہوا ہے، کچھ سرگودھا کے افسران کی سندھ پولیس میں بہت کم کم ہیں۔ جھولی کے چھید کی وجہ سے اسے پھیلانا کبھی اچھا نہیں لگا سو جیب اور کیرئیر کی خانہ ویرانی نہیں جاتی۔۔ مجھ کم ترین، افسری کے ادنیٰ ترین درجے پر فائز افسر کا کیا پوچھتے ہو کہ شب و روز کس بے لطفی میں گزرتے ہیں۔ اسی تگ و دو میں خاکسار نے کراچی کے کس مزار پر گریہ زاری نہ کی۔ من کی مراد کہیں سے پوری نہ ہوئی تو ایک دن اچانک ´´نے کھارادر میں درگاہ کے متولی موسی سے کچھ راہ رسم نکالی۔ اس کی درگاہ پر ملک کی ایک اہم ہستی رات کے پچھلے پہر جب وہ اسلام آباد سے کراچی آتی ہے تو چپکے سے جبین نیاز جھکانے آجاتی ہے۔ وہ اس بارگاہ ملکوت سے دنیا لینے آ جاتی ہے اور متولی موسی ان کے دامن سے لپٹی دنیا کی دھول کچھ اپنے لیے بھی جھاڑ لیتا ہے۔

 میری ملاقات موسی سے ہوگئی۔ وہ ایک مزار کا مجاور تھا۔ خود کو اس مقام پر مدفون اعلیٰ مرتبت ہستی کے خانوادے کا چشم و چراغ ظاہر کرتا ہے۔ کم بخت تھوڑا زیادہ ہی دنیا دار ہے۔ میمن ہونے کے باوجود اپنے نام میں سید پہلے اور بعد میں ہاشمی بھی لگاتا ہے۔ یہ سراسر دھوکا دہی ہے۔ سب ہی جانتے ہیں کہ میمن تو بہت آخر میں اپنی دنیا مکمل طور پر سینت سنبھالنے کے بعد مسلمان ہوئے۔ یہ سب پہلے ہندو تھے۔

ا ن کے لیے ذات پات بہت بڑا چیلنج تھی، خود کو گردیزی، سید، کرمانی، علوی، نقوی، جعفری کہلواتے تو بڑی تھوتھو ہوتی۔ سو ان ذہین لوگوں نے ذات پات کے لیے اپنے علاقوں (رنگون، برما، کلکتہ، افریقہ والا) اور پیشوں کو  (مانڈوی (مونگ پھلی) تیلی، موتی والا، کانچ والا) کہلانے  پر اکتفا کیا اور دیر سے بچھڑے ہوئے کعبے میں آنے کا ازالہ خوف خدا اور فلاح انسانیت کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے سے کیا۔ کہاں کراچی کے ضلع وسطی سے راندہ درگاہ ہوا من کہ مسمی منیر نسیم اے ایس آئی اور کہاں یہ مرقد اکرام اور متولی موسی۔ مجھے یہاں وہ سدوال ضلع چکوال سے تعلق رکھنے والا دوست علی اشرف راجپوت لے کر آیا تھا۔ میری نوکری سے معطلی کے معاملے کو سردست ایک طرف رکھتے ہیں۔ ورنہ کہانی میں علی اشرف راجپوت کی شمولیت میں تاخیر ذرا اڑچن پیدا کرے گی۔

علی اشرف راجپوت کا تعلق چکوال سے ہے۔ اسے پنجاب میں لانس نائیکوں کا ضلع کہتے ہیں۔ فوج کو یہاں انگریزوں کے زمانے سے گبھرو کڑیل جوان بہتات سے ملا کرتے تھے۔ علی اشرف کہتا ہے کہ چکوال کا ضلع ایک عجب مجموعہ تضاد ہے۔ یہاں کے لانس نائیک خود کو جرنیل اور دنیا یہاں کے جرنیلوں کو لانس نائیک سمجھتی ہے۔

یہاں کے مرد کڑیل، عورتیں حسین، گھوڑے اور بیل ناچنے کے شوقین ہوتے ہیں۔ یہ سب کے سب نہ تو اپنا کام ٹھیک سے کرتے ہیں نہ ہی مل جل کر علم و عقل، دولت اور نرم مزاجی سے کوئی معمولی سا شرم دلانے والا ہی تعلق رکھتے ہیں۔ شدید روایت پسند لوگ ہیں۔ بالخصوص وہاں کے راجپوت تو ابھی تک رسم و رواج کی چتا میں جل رہے ہیں۔ قتل کا بدلہ ضرور لیتے ہیں۔ اس میں بھی ایک شان رکھ رکھاﺅ ہے۔ بیٹی گھر میں کنواری بیٹھی ہے تو بدلہ موقوف رہے گا۔ بیٹی سب کی سانجھی ہے۔ اس بے چاری کو اپنے گھر کی ہو لینے دو۔ بدلہ کبھی پرانا نہیں ہوتا۔ دشمن کی بیٹی رخصت ہوکر جائے گی تو اسے رخصت کرنے گاﺅں کی سرحد تک دیگر گھر والوں کے ساتھ آئیں گے۔ شادی موت پر مہمان بھی ساجھے ہوں گے۔ رخصت ہوکر گاﺅں کی سرحد سے نکل جائے گی تو ایک نائی، جولاہا یا میراثی آن کر کہے گا مغرب کی نماز پر اپنا بندوبست رکھیں۔

اول تو لڑکی کسی لڑکے سے سیٹ نہیں ہو گی اور اگر سیٹ ہو جائے تو درمیان میں رکنے کا نام نہیں لے گی۔ ڈیٹ پر آئے ہوئے محبوب کی حفاظت پر مامور دوست کا بھی دل خوش کردے گی۔ معاملہ خراب ہونے کی صورت میں گھر کی سیانیاں جڑی بوٹیوں کی مدد سے اسقاط حمل میں مدد کریں گی۔ (جاری ہے)

اقبال دیوان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

اقبال دیوان

محمد اقبال دیوان نے جوناگڑھ سے آنے والے ایک میمن گھرانے میں آنکھ کھولی۔ نام کی سخن سازی اور کار سرکار سے وابستگی کا دوگونہ بھرم رکھنے کے لیے محمد اقبال نے شہر کے سنگ و خشت سے تعلق جوڑا۔ کچھ طبیعتیں سرکاری منصب کے بوجھ سے گراں بار ہو جاتی ہیں۔ اقبال دیوان نےاس تہمت کا جشن منایا کہ ساری ملازمت رقص بسمل میں گزاری۔ اس سیاحی میں جو کنکر موتی ہاتھ آئے، انہیں چار کتابوں میں سمو دیا۔ افسانوں کا ایک مجموعہ زیر طبع ہے۔ زندگی کو گلے لگا کر جئیے اور رنگ و بو پہ ایک نگہ، جو بظاہر نگاہ سے کم ہے، رکھی۔ تحریر انگریزی اور اردو ادب کا ایک سموچا ہوا لطف دیتی ہے۔ نثر میں رچی ہوئی شوخی کی لٹک ایسی کارگر ہے کہ پڑھنے والا کشاں کشاں محمد اقبال دیوان کی دنیا میں کھنچا چلا جاتا ہے۔

iqbal-diwan has 96 posts and counting.See all posts by iqbal-diwan

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments