رنگوں سے فطری حسن کو سامنے لانے والا مصور: وصی حیدر


انگریز کو بڑی تگ و دو کے بعد مغل حکمران جہانگیر ( 1627۔ 1569 ) سے ہندوستان میں اپنی تجارت کا اجازت نامہ ملا۔ یہ دور مغلیہ سلطنت ( 1707۔ 1526 ) کے عروج کا زمانہ تھا۔ جس میں فنون لطیفہ اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ موجود تھے۔ اس میں فنون لطیفہ سے متعلقہ ماہر افراد کو دربار میں خاص مقام اور اعلی کارکردگی پر اعزاز و انعامات سے نوازا جاتا تھا۔ تمام بڑے گلوکار، آرٹسٹ، صاحب علم وغیرہ اس میں شامل تھے۔ مصوروں میں استاد منصور:نادرالعصر اور ابوالحسن: نادر الزماں کا طوطی بولتا تھا۔

وقت جس کی عمر کا کوئی فرد یا سلطنت مقابلہ نہیں کر سکی۔ وہ ایک رفتار کے ساتھ مسلسل دوڑے چلا جا رہا ہے۔ یہ دونوں وقت کے ساتھ اپنے حصے کا کھیل کھیلنے کے بعد اپنے انجام کو پہنچ جاتے ہیں۔ اورنگ زیب عالمگیر ( 1707۔ 1618 ) کے دور میں جنگوں کی بہتات سے مغلیہ سلطنت لڑکھڑانے لگی۔ ایک طرف سلطنت کے رقبے میں اضافہ ہوا۔ دوسری طرف خزانہ خالی ہونے لگا۔ اورنگ زیب کی وفات کے بعد مغلیہ سلطنت کا زوال شروع ہوا۔ جس کی کئی سیاسی، معاشرتی، معاشی اور مذہبی وجوہات تھیں۔ جس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایسٹ انڈیا کمپنی کو پیر جمانے کا موقع مل گیا۔ مذکورہ فنون لطیفہ کے افراد شاہی دربار میں عیش و عشرت کی زندگی گزارتے تھے۔ معاشی و سیاسی زوال ان کی معاشرتی پریشانیوں کا سبب بنا۔ جس سے وہ دربار چھوڑنے پر

مجبور ہوئے۔ ان کو ہندوستان میں موجود مختلف ریاستوں کے راجاؤں کے پاس جانا پڑ گیا۔ درباری عیش و عشرت کے مزے چھوٹ گئے۔ وہیں دربار کی اجارہ داری سے ان کی تخلیقی سوچ کو آزادی ملی۔ اب وہ عام بندے کو مدنظر رکھ کر اپنے فن پارے تخلیق کرنے لگے۔

جب انگریز نے یہاں معاشی طور پر پیر جما لیے تو انہوں نے سیاسی طور پر علاقوں اور ریاستوں پر قبضے جمانے شروع کر دیے۔ 1849 ء میں پنجاب کو اپنے قبضے میں لے لیا۔ انہوں نے اپنے اقتدار کو مضبوطی دینے کے لیے بہت سی پالیسیاں متعارف کروائیں۔ جن میں ایک کلچرل پالیسی تھی۔ جس کے تحت انہوں نے آرٹ کو معیشت سے جوڑا۔ انہوں نے

کارآمد افراد کی تشکیل کے لیے آرٹسٹوں اور کلچرل اداروں جیسے آرٹ سکولز، نمائشیں اور عجائب گھر بنائے۔ جن کی مدد سے اپنے من پسند افراد پیدا کیے ۔ جو ان کے بیانیے کی تشہیر میں اہم کردار ادا کرتے تھے۔ پنجاب میں یہ انیسویں صدی میں برٹش کلونیل کلچرل پالیسی کا ایک نمایاں پہلو تھا۔

مغل اور کلونیل ادوار میں فن مصوری نے دربار سے نمائش تک کا سفر اختیار کیا۔ دوسرے الفاظ میں اسے صرف امراء تک محدود کیا گیا۔ جس کا نقصان یہ ہوا کہ آرٹسٹ کی مصوری میں چھپی سوچ کا اطلاق عام بندے تک نہ ہوا جس سے آرٹ کا اصل مقصد یعنی معاشرے کی بہتری میں اپنے کردار کو ادا کرنے کا مقصد پورا نہ ہوا۔ جب ہندوستان تقسیم ہوا تو پاکستان تیسری دنیا کے ملک کے طور پر ابھرا۔ ایسے ملکوں میں حالات فنون لطیفہ کے لیے سازگار نہیں ہوتے۔ مگر خوش قسمتی سے ہمارے ملک کو ان ناسازگار حالات میں بہت سے

نامور آرٹسٹ میسر آئے ہیں۔ جنہوں نے عالمی سطح پر اپنے فن سے داد سمیٹی۔ جن میں عبدالرحمن چغتائی ( 1975۔ 1897 ) ، شاکر علی ( 1975۔ 1916 ) ، صادقین ( 1987۔ 1923 ) ،

گل جی ( 2007۔ 1926 ) ، احمد پرویز ( 1979۔ 1926 ) ، جمیل نقش ( 2019۔ 1939 ) ، وغیرہ شامل ہیں۔ میرے خیال میں اس کی بڑی وجہ حلقہ ارباب ذوق اور ترقی پسند مصنفین جیسے پلیٹ فارم پر آرٹسٹوں، گلوکاروں، شاعروں کا مل بیٹھنا تھا۔ وہ ایک دوسرے کے کام پر تنقیدی گفتگو کرتے تھے۔ جس سے نہ صرف کام میں نکھار پیدا ہونا بل کہ نئے نئے عالمی رجحانات سے شناسائی بھی ہوتی تھی۔ یوں ان کے تخلیقی فن پارے مقامی کے ساتھ ساتھ عالمی سطح کے موضوعات کو حصہ بناتے تھے۔

مگر آج کل برداشت کا لفظ فنون لطیفہ کے لوگوں کے ہاں ناپید ہو چکا ہے۔ جس کی وجہ سے ہر فنکار اڑھائی اینٹ کی مسجد تعمیر کر کے اپنی ڈگڈگی بجانے کی پوری کوشش کر رہا ہے مگر تخلیقی کام برائے نام سامنے آ رہا ہے۔ فن مصوری کی ایسی شاندار روایت کے ہوتے ہوئے بھلے نئے تخلیقی آرٹسٹ ( جو اپنی سوچ رکھتے ہوں ) کی تعداد بہت کم سامنے آ رہی ہے۔ جس کی بنیادی وجہ پاکستان کا سیاسی اور معاشی اعتبار سے مسائل کے بھنور میں گھرا ہونا ہے۔

مٹی ذرخیز ہو تو بغیر مصنوعی خوراک و حفاظت کے پودے تناور درخت بن جاتے ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے موجودہ دور میں

کراچی سے تعلق رکھنے والے ایک آرٹسٹ وصی حیدر کے کام کی جامعیت اور تنوع کسی بڑے استاد آرٹسٹ کے کام سے کم نہیں۔ آپ کا تعلق ایک علمی خانوادے سے ہے۔ آپ کے دادا

محدث صورتی، احمد رضا بریلوی ( 1921۔ 1856 ) اور پیر مہر علی شاہ ( 1937۔ 1859 ) کے ہم مکتب رہے تھے۔ دادا اور والد حکیم قاری احمد نے تحریک آزادی میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا۔ والد اسی بنا پر محترمہ فاطمہ جناح ( 1967۔ 1893 ) کے بہت قریب رہے۔ بڑے بھائی

خواجہ رضی حیدر ایک شاعر اور تاریخ دان ہیں۔ چھوٹے بھائی ولی حیدر، بیٹا حمزہ حیدر (مصنف) اور بیٹی عمامہ (Interior designer) سبھی مصور ہیں۔

فن مصوری کے علاوہ آپ شعر و شاعری کو بہت پسند کرتے ہیں اور خود بھی شعر کہتے ہیں۔ انگلش میں ایک ناول بھی لکھا ہے۔ آپ روز نامہ جنگ میں آرٹ پر تنقیدی مضامین لکھتے رہے ہیں۔ آج کل اپنی سوانح عمری لکھ رہے ہیں۔

آپ کی فن مصوری کا آغاز خطاطی اور عقاب کی تصویریں بنانے سے ہوا۔ مگر باقاعدہ آغاز 1976 میں قائداعظم کے صد سالہ جشن پر چھپنے والی ایک کتاب کے ٹائیٹل سے ہوا۔ اب تک ڈیڑھ سو سے زائد کتابوں کے بلا معاوضہ ٹائیٹل بنا چکے ہیں۔ اس ضمن میں آپ نے جو بڑا کام کیا ہے وہ مصوری کو شاعری اور فنون لطیفہ کی دوسری اصناف سے جوڑا ہے۔ مثال کے طور پر آپ نے اختر رضا سلیمی کی شاعری کی کتاب ’خواب دان‘ میں سے پچیس نظموں کو کینوس پر رنگا۔ اب احمد فراز کے چالیس سے زائد فن پاروں کو کینوس کی زینت بنا چکے ہیں۔ جس کی نمائش کرونا کی وجہ سے رکی ہوئی ہے۔ آپ سے پہلے اسی نوعیت کا کام عبدالرحمن چغتائی نے غالب ( 1869۔ 1797 ) اور اسلم کمال نے اقبال ( 1938۔ 1877 ) اور فیض ( 1984۔ 1911 ) کی شاعری کو کینوس پر اتارا تھا۔

آپ کی پہلی سولو نمائش اسمائے ربانی کے موضوع پر 1989 میں ہوئی۔ وقت اور حالات کی ادلا بدلی سے آپ کے کام میں کچھ نئے موضوعات نے جنم لیا۔ اسی، نوے کی دہائیوں میں کراچی جیسے شہر میں جوانی چڑھنے والے فنکار کے کام میں تبدیلی ایک فطری عمل تھا۔ جہاں روزانہ کی بنیاد پر زندگی گزارنے کا دائرہ تنگ ہوتا جا رہا ہو۔ اس اضطراب اور بے بسی کو وصی حیدر نے اپنے کام سے ختم کرنے کی کوشش کی۔ آپ جمالیات پسند آرٹسٹ ہیں اس لیے خون خرابہ اور ظلم ستم کو کینوس پر نہ اتارا بل کہ اپنی مٹی سے جنمی تہذیب، فوک کلچر، موسیقی وغیرہ کو زماں و مکاں کے سانچے میں کینوس پر اتنی خوب صورتی سے اتارا کہ یہ ٹیکنیک آپ کی فن مصوری کا طاقتور موضوع بن کر سامنے آیا ہے۔

اس میں مہارت کے بعد انسانی چہروں اور ان کے پیچھے چھپے خیالات کا بغور مطالعہ شروع کیا۔ جس سے انسانی نفسیات کو جاننے کا موقع ملا۔ جب ان کے تاثرات کے اتار چڑھاؤ سے بخوبی واقف ہوئے تو پھر کینوس پر چہروں کو رنگنا شروع کیا تو اس میں موڈز اور شیڈز کو اس کا حصہ بنایا۔ پھر دونوں زماں و مکاں اور چہروں کو ملا کر کینوس پر رنگا۔ اس ملاپ سے جو شاہکار سامنے آئے وہ اپنی نویکلتا میں ثانی نہیں رکھتے۔

جب آپ نے فن مصوری کی مختلف forms میں اپنے کام سے اپنی ایک علیحدہ شناخت بنا لی تو تب پھر آپ نے پاکستانی فن مصوری کے اساتذہ کو اپنے کام کے ذریعے نئی نسل سے متعارف کروانے کا بیڑہ اٹھایا۔ بڑے انسان اپنی مٹی یا ملک، کلچر، فنون لطیفہ اور آرٹسٹوں کو ان کا اصل مقام دلانے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔ اسی سلسلے میں آپ نے اپنا حصہ ڈالتے ہوئے ایک پروجیکٹ شروع کیا۔ جس کے تحت ”ماسٹرز“ کے نام سے ایک سیریز شروع کی۔ جس کے تحت تین عظیم پاکستانی آرٹسٹوں کے پورٹریٹ بنائے۔ جن میں صادقین، عبدالرحمن چغتائی اور شاکر علی شامل تھے۔

اس کے بعد آپ نے ایک اور سیریز The legends of Pakistani artists بنائی۔ جس میں آپ نے پچیس نامور آرٹسٹوں کو کور کیا۔ جس میں ان کے پورٹریٹ اور شاہکار کام کا نمونہ دکھایا گیا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ کمرشل ازم کی بجائے من کی سنتے ہیں۔ آپ ایک جنونی آرٹسٹ ہیں۔ آپ کے جنون کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ اختر رضا سلیمی کے ناول ”جاگے ہیں خواب میں“ کے ایک ہزار ایک ٹائیٹل صرف چھ ماہ کی قلیل مدت میں بنائے ہیں۔ ہر کاپی مختلف ڈسٹ کور کے ساتھ چھپی۔ جو عالمی ریکارڈ ہے۔ ایک ناول کے لیے ایک ہزار ایک موضوعات کو کینوس پر رنگ کر ٹائیٹل کے لیے ساز گار بنانا آرٹسٹ کی تخلیقی سوچ کو واضح طور پر سامنے لاتی ہے کہ اسے اپنے کام پر کتنا عبور حاصل ہے۔

وصی حیدر اپنے کام میں نت نئے تجربات کرتے ہیں۔ جن سے ان کے کام میں موضوعات اور ٹیکنیک کے اعتبار سے نیا پن اور diversity نظر اتی ہے۔ آپ کو بنیادی ڈرائینگ پر کمال عبور حاصل ہے۔ جس کی بنیاد پر آپ اپنے فن پاروں میں نئے نئے تجربات سامنے لاتے ہیں۔ آپ کے بقول ”جس کو بنیادی ڈرائینگ کا علم نہیں وہ نیا تجربہ کیا کرے گا۔“ تجربات کی وجہ سے آپ کے کام میں بہت تنوع پایا جاتا ہے۔

آپ ایک آزاد منش آرٹسٹ ہیں۔ آپ اپنے اندر کو چھپانے کے قائل نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آپ themes پر کام کرتے ہیں۔ آپ نے کاما سوترا پر کام کیا ہے۔ جو بطور آرٹسٹ آپ کی boldness کی واضح گواہی ہے۔

آپ کے نزدیک جمالیات فن مصوری کی ایک بنیادی چیز ہے جب یہ فن کار کے احساس سے ملتی ہے تو پھر شاہکار فن پارے سامنے لاتی ہے۔ مصور کو اپنے آپ کو بصری آلودگی سے بچانا ہوتا ہے۔ مثلاً دہشت گردی وغیرہ کیونکہ اس سے مصور

کی حساسیت کو نقصان پہنچتا ہے۔ جو مصور ایسے موضوعات کو اپنے فن کا حصہ بناتے ہیں وہ وصی حیدر کے حساب سے جمالیات سے عاری ہوتے ہیں۔

آپ کی اب تک 23 سولو اور 250 گروپ نمائش ہو چکی ہیں۔ آپ کو جدید رجحانات اور جمالیات کا مصور کہا جا سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کی دنیا کے ہر بڑے شہر میں گروپ نمائش ہو چکی ہے۔

زندگی اگر انسان کی من چاہی خواہشات کے مطابق بسر ہو رہی ہے تو اسے مثالی زندگی سے تشبیہ دی جا سکتی ہے مگر ایسا ہوتا شاذونادر ہے۔ انسانی زندگی میں خوشیوں کا دورانیہ بہت قلیل مدت کے لیے ہوتا ہے۔ اس مفہوم کو رائے محمد خاں ناصر نے یوں زبان دی۔

خوشیاں نوں جے جینا آکھاں
ہک دو سال نیں لوکی جیندے
وصی حیدر کے لیے پچھلا سال کسی قیامت سے کم نہ تھا۔

کراچی میں ہونے والی بارشیں وصی حیدر کے فن پاروں کے لیے موت بن کر آئیں۔ جس میں چھے ہزار سے زائد فن پارے بیسمنٹ میں ہونے کی وجہ سے بارش کی نظر ہو گئے۔ اگر معاشی نقصان کی بات کریں تو ایک اندازے کے مطابق اڑھائی سے تین کروڑ کا نقصان ہوا۔ جس سے وہ crisis کا شکار ہو گے۔

ایک طرف معاشی نقصان تو دوسری طرف ان تصویروں سے جڑی یادوں کا عذاب۔ یہ تصاویر ان مسخ شدہ زندگیوں کی ہیں۔ جن کو سوائے وصی حیدر کے کسی نے غور سے ابھی دیکھا بھی نہیں تھا، سو ان کی یادوں کا عذاب وصی حیدر نے اکیلے ہی جھیلنا ہے۔ اختر رضا سلیمی کے بقول

”بطور ایک فن کار کے اس آدمی کا دکھ محسوس کیجیے، جس کی پچاس سالہ فنی زندگی پر ایک ہی رات میں پانی

پھر گیا ہو۔ اپنی فنی زندگی کے وہ سارے خدو خال جنھیں ترتیب دینے میں اس نے پچاس سال صرف کیے ہوں ایک صبح جب وہ جاگے تو اسے معلوم ہو کہ اب اس نے اپنا فنی سفر دوبارہ سے شروع کرنا ہے تو اس پر کیا گزری ہو گی ”۔

اگر آپ کے کام کا جامع احاطہ کیا جائے تو

آپ کمال مہارت کے ساتھ زمان و مکاں، چہروں کے تاثرات، مسلم فن خطاطی وغیرہ کو دیکھنے والوں کے سامنے لاتے ہیں۔ یہ فن پارے دیکھنے والوں پر ایسے تاثرات چھوڑتے ہیں کہ وہ خود کو اسی فضاء اور زمانے میں محسوس کرتے ہیں۔ میرے خیال میں بڑا تخلیق کار وہ ہی ہوتا ہے جو اپنے چاہنے والوں پر مذکورہ تاثرات چھوڑے۔

آپ ایک ورسٹائل آرٹسٹ ہیں جو مختلف جہتوں میں پینٹنگز
بناتے ہیں۔ آپ نے pointilism کی ٹیکنیک کو اپنے کام میں نہایت مہارت سے برتا ہے۔

آپ کینوس پر ڈرائنگ کے ساتھ ساتھ رنگوں پر بھی خصوصی توجہ دیتے ہیں۔ اس کے ساتھ vibrant colours اور composition کو اعلی techniques کے ساتھ کنٹرول کرتے ہیں۔ مصوری میں موضوعات کا بہت تنوع نظر آتا ہے۔ آپ کا فن ہر لحاظ سے مختلف اور فکر انگیز ہے۔ آپ اپنے کام میں اپنا مافی الضمیر کھل کر بیان کرتے ہیں۔ آپ مختلف شیڈز، موڈ اور ایکسپریشن کو دکھاتے ہیں۔ آپ نے ہندوستانی فوک کلچر اور مقامی تہذیب کے مختلف پہلوؤں کو اپنے فن پاروں میں سامنے لانے کی کوشش کی ہے۔ آپ کے بقول ”آرٹ انسان کے اندر کا فن ہے اس کو سیکھنے کے لیے کسی خاص علم کی ضرورت نہیں پڑتی“ ۔ آپ اپنے آپ کو فن مصوری کے رائج structutes کے اسیر نہیں ہونے دیتے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ آپ موسیقی کے ردھم کو بھی پینٹ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

وصی حیدر اپنے کام میں post modernist approach کے پیروکار نظر آتے ہیں۔ جو فن مصوری کے رائج پیراڈائم سے انحراف کرتے ہیں۔ تیسری دنیا کے ملکوں کے لیے اس approach میں ہی بقا اور ترقی پنہاں ہے ورنہ تو عالمی طاقتیں ان کو کبھی بھی اپنے پیروں پر کھڑا نہیں ہونے دیں گی۔

آپ کے بارے میں عام تاثر یہ پایا جاتا ہے کہ آپ مغرور انسان ہیں۔ میرے خیال میں آپ کی یہ مغروریت آپ کے مزاج اور تخلیق کی وجہ سے ہے کیوں کہ جو افراد آپ کو قریب سے جانتے ہیں ان کی رائے اس سے یکسر مختلف ہے۔ آپ کے دوست اختر رضا سلیمی کے بقول ”آپ حقیقت میں بہت نفیس اور عمدہ انسان ہیں۔ اپنے قریبی دوستوں کے لیے ہر وقت حاضر ہیں“ ۔

مذکورہ باتوں سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ آپ ایک ہمہ جہت شخصیت ہیں۔ جس نے اپنے کام، خاندان، پرستاروں اور دوستوں میں اپنے وجود و کردار کو منوایا ہے۔ ہم ویسے وہ ہر کام برٹش دور کی نقل میں کر رہے ہیں جو ہماری جڑgوں کو کھوکھلا کیے جا رہا ہے مگر ہم ایسا کیوں نہیں کر پاتے جس سے ہمارے لوگوں کا اصل میں بھلا بھی ہو۔ انگریز نے یہاں آرٹ، فن پاروں کے نمونے وغیرہ نہ صرف نقل کیے بل کہ ان کو theorise کر کے اپنی علمی برتری ثابت کی اور مقامی کو کم تر بنا کر پیش کیا۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ مقامی تخلیق کو بڑھاوا

دیں تاکہ تخلیق کار معاشرے میں جائز مقام حاصل کر سکے۔ آرٹ کو سرکاری پروجیکٹ کے ساتھ جوڑا جائے تاکہ سفارشی بھیڑیوں کی بجائے تخلیقی آرٹسٹوں کو ان کے کام کا معاوضہ اور قدردان مل سکیں۔

بقول ’وصی ”مصوری ایک پر مسرت معاشرے میں جنم لے سکتی ہے“ ۔ اس کے لیے وصی جیسے اپنی تخلیقی سوچ رکھنے والے آرٹسٹوں کے کام کو قومی اور عوامی سطح پر عام کیا جائے تاکہ معاشرے میں بڑھتی ہوئی گھٹن کو کم یا ختم کر کے ایک حقیقی پر مسرت معاشرہ جنم لے سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments