ایسی لائبریری جہاں ‘کتابیں’ چلتی بھی ہیں اور باتیں بھی کرتی ہیں


ہیومن لائبریری۔

ڈنمارک کے شہر کوپن ہیگن میں ایک ایسی لائبریری ہے جہاں ‘کتابیں’ باتیں کرتی ہیں اور اپنی کہانیاں خود سناتی ہیں۔ اس لائبریری میں کاغذ اور گتے کی جامد و ساکت کتابیں نہیں بلکہ چلتے پھرتے انسان ہیں جنھیں آپ کتابوں کی طرح اس لائبریری سے ‘ادھار’ لے سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسے ‘ہیومن لائبریری’ کہا جاتا ہے۔

بطور ‘کتاب’ لائبریری میں موجود افراد سے دوبدو ملاقات بھی کی جاسکتی ہے اور چھوٹے سے گروپ کی صورت میں ان کی کہانی بھی سنی جا سکتی ہے۔​

‘ہیومن لائبریری’ کا یہ خیال سب سے پہلے ڈنمارک میں سامنے آیا اور رفتہ رفتہ دنیا کے کئی دیگر شہروں میں ایسی لائبریریاں قائم ہو رہی ہیں۔

اس لائبریری میں مختلف شعبوں اور پس منظر سے تعلق رکھنے والے افراد اپنے آپ کو کتاب کے طور پر رجسٹرڈ کرا دیتے ہیں۔ ان کا نام ایک بورڈ پر لکھ دیا جاتا ہے لیکن یہ ان کا اصل نام نہیں ہوتا بلکہ کتاب کی طرح ان کا تعارف ان کا ‘عنوان’ ہوتا ہے۔ وہ داستان جسے وہ دوسروں کو سنانا چاہتے ہیں۔

اس لیے لائبریری میں لگے بورڈ پر نظر ڈالیں تو وہاں ناموں کے بجائے ایسے کئی عنوان نظر آتے ہیں۔ جیسا کہ بینائی اور سماعت سے محروم شخص، ایچ آئی وی کا مریض، جنسی حملے کا شکار جیسے عنوانات درج ہوتے ہیں۔

لائبریری میں آنے والے ان ناموں میں سے کسی بھی ایک کہانی کا انتخاب کرتے ہیں جس کے بعد جس شخص کی کہانی منتخب کی گئی ہوتی ہے وہ تیس منٹ کے لیے اپنے ‘قاری’ سے بات کرتا ہے۔

ہیومن لائبریری کا آغاز کرنے والے رونی ایبرگل نے خبر رساں ادارے ‘اے ایف پی’ کو بتایا کہ یہ ایک ایسی جگہ ہے جہاں ہم معلوم کرسکتے ہیں کہ ہم کس طرح ایک دوسرے سے مختلف ہیں اور کتنے ہی ایسے لوگوں سے مل سکتے ہیں جن سے کبھی ملاقات کا ہم نے شاید سوچا بھی نہ ہو۔ اس طرح ہم دوسروں کے بارے میں اپنے غیر شعوری تعصب اور تصورات کو چیلنج کرسکتے ہیں۔

ایبرگل نے 2000 میں ایک میوزک فیسٹیول سے اس منصوبے کا آغاز کیا تھا اور بعد میں ایک غیر منافع بخش تنظیم قائم کی۔ اس کے بعد سے اب تک دنیا کے 70 ممالک میں ایسی لائبریریاں بن چکی ہیں۔

ایبرگل کا ماننا ہے کہ اپنی زندگی اور تجربات کے بارے میں بتانے والے افراد سے گفتگو مطالعے ہی کی طرح ہے۔

ہیومن بک کس طرح اپنے اوراق پلٹتی ہے؟ اس بارے میں ایبرگل کہتے ہیں ’اس کی مثال یوں ہے کہ میں کچھ منٹوں میں اپنا موضوع واضح کرتا ہوں اسے کے بعد اپنا پس منظر بتاتا ہوں۔‘

وہ کہتے ہیں کہ اس کے ساتھ ہی یہ بھی یقینی بنانا ہوتا ہے کہ کہانی سننے والے کوئی بھی سوال پوچھ سکتے ہوں۔ چاہے کوئی ایڈز کا مریض ہے، کسی جسمانی معذوری کا شکار ہے، ٹرانس جینڈر، پناہ گزین ہے یا یہودی یا مسلمان ہے۔ ان مختلف لوگوں کی زندگیوں کی کہانیاں ہی ان کے عنوانات ہیں۔

باتیں کرنے والی کتابوں کے خالی صفحات

عام طور پر یہاں پرسکون ماحول میں گفتگو ہوتی ہے۔ لوگ اپنی ‘کتاب’ کے ساتھ ملاقات کے لیے کسی کمرے یا لائبریری کے باغیچے میں بیٹھ جاتے ہیں اور بات سے بات نکلتی ہے۔

لائبریری میں موجود ایک ‘کتاب’ 36 سالہ اینڈرس فرنسن بینائی سے محروم ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کبھی کبھی لوگ گفتگو میں زیادہ ہی روانی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ لیکن کبھی میرا اپنا جی چاہ رہا ہوتا ہے کہ مزید تفصیلات اور جزئیات بتاؤں اور کوشش کرتا ہوں کہ میرے قارئین مجھ سے معمول سے ہٹ کر بھی کوئی سوال کریں۔

ایبرگل کا کہنا ہے کہ ہم یہاں آنے والے اپنے قارئین کو مشکل سوالات کرنے پر اکساتے ہیں۔ یہاں کوئی بات حد سے تجاوز تصور نہیں ہوتی اور اس سے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا کہ موضوع کتنا ہی حساس کیوں نہ ہو۔

ہیومن لائبریری میں جنسی حملوں کا نشانہ بننے والی 46 سالہ آئبن بھی ’ہیومن بک‘ طور پر اپنی کہانی سناتی ہیں۔ ایسا موقع بھی آتا ہے جب وہ کسی سوال کا جواب دینے سے یہ کہہ کر انکار کر دیتی ہیں کہ کہانی کا یہ ورق لکھا ہی نہیں گیا۔ یہ سن کر ان کے قارئین مسکرا دیتے ہیں اور بات آگے بڑھ جاتی ہے۔

لیکن گزشتہ چار برسوں میں انہیں کسی ناخوشگوار تجربے سے نہیں گزرنا پڑا۔ ان برسوں میں انہیں مختلف قارئیں ملے اور آئبن کے بقول وقت کے ساتھ ساتھ ان کے قارئین میں بتدریج تبدیلیاں بھی آئی ہیں۔

بینائی سے محروم فرنسن کا کہنا ہے کہ اس لائبریری کا حصہ بننے پر انہیں اس لیے فخر ہے کہ وہ جسمانی طور پر معذور افراد کے بارے میں لوگوں کے تصورات بہتر کرنے میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔

انہوں ںے بتایا کہ حال ہی میں آٹھویں جماعت کے طلبہ کے ساتھ ہونے والی ‘مطالعے’ کی ایک نشست کے بعد انہوں نے بچوں کو آپس میں بات کرتے ہوئے سنا۔ وہ کہہ رہے تھے کہ اس شخص کی کہانی بہت اچھی ہے، یہ کتنا اچھا انسان ہے۔

یہ بتاتے ہوئے فرنسن کے چہرے پر مسکراہٹ آگئی اور وہ اس بات پر خوش ہیں کہ ان کی کہانی توجہ سے سنی گئی۔

ہیومن بک کتنی کارآمد ہو سکتی ہے؟

ایبرگل بتاتے ہیں “ایک ‘قاری’ نے 2004 میں ہماری ایک ‘ہیومن بک’ سے بات کی تھی جو مسلمان تھی اور اس نے مسلمانوں کے بارے میں اُس خاتون قاری کا زاویۂ نظر تبدیل کر دیا تھا۔

ایبرگل کا کہنا ہے کہ اس خاتون قاری نے حال ہی میں رابطہ کر کے انہیں بتایا کہ 17 برس قبل ‘ہیومن بک’ سے کی جانے والی گفتگو اور اس دوران حاصل کردہ معلومات آج بھی ان کے کام آتی ہے۔

ایبریگل کا کہنا ہے کہ دنیا میں دوریاں بڑھتی جارہی ہیں۔ اس لیے ایسا ماحول بنانے کی ضرورت ہے جس میں لوگ بلاخوف اور زیادہ کھل کر بات کریں اور ایک دوسرے کے مختلف ہونے کے حق کو کھلے دل سے تسلیم کریں۔

ان کا اصرار ہے کہ وہ اپنے اس منصوبے کے ذریعے ایک معروضی ماحول پیدا کرنا چاہتے ہیں جس میں ہر طبقے اور گروہ سے تعلق رکھنے والوں کو ایک دوسرے کو جاننے کا موقع ملے۔ وہ ایک دوسرے کی کہانی سنیں اور اس کے بعد وہ اپنی رائے بنانے میں آزاد ہیں۔

ایبرگل کا کہنا ہے کہ بہت سی کہانیاں دل کو چھو جاتی ہیں، آپ کے تصورات تبدیل کر دیتی ہیں۔ یہ سب اس لیے ہے کہ آخر میں ہم سب سمجھیں کہ ہماری زندگی کے عنوانات بھلے ہی کتنے جدا جدا ہوں لیکن ہم سب ایک جیسے ہیں، گوشت پوست کے بنے انسان!

اس مضمون میں شامل معلومات خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ سے لی گئی ہیں۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments