کیا سوچا تھا کیا ہو گیا


چوہتر برس کے بعد بھی قانون کی بالادستی قائم نہیں ہو سکی کہ غریب پر یہ لاگو ہے اور امیر کو اس کی کوئی پروا نہیں۔

کیا جمہوریت پروان چڑھی بالکل نہیں۔

ہر سیاسی جماعت اپنوں میں ریوڑیاں بانٹتی نظر آتی ہے۔ نسل در نسل یہ سلسلہ جاری و ساری ہے مگر حیرت یہ ہے کہ سیاستدان و حکمران خود کو جمہوریت کے چیمپئن قرار دیتے ہیں مگر عوام کی کسی ایک بات کو بھی تسلیم کرنے سے گریزاں ہیں۔

عوام کو تو ایوانوں میں ہی نہیں آنے دیا جاتا ویسے وہ آ بھی جاتے ہیں تو اس سے کیا ہو گا شرائط و مطالبات تو آئی ایم ایف اور عالمی بینک کے ہی ماننے ہیں لہٰذا جب تک ان سے چھٹکارا نہیں حاصل کیا جاتا یعنی اس نظام زر سے دامن نہیں چھڑایا جاتا کوئی تبدیلی نہیں آ سکتی۔ پی ٹی آئی نے ان سے نجات حاصل کرنے کا اعلان کیا تھا کہ وزیراعظم عمران خان نے اپنی چند تقریروں میں کہا تھا کہ وہ ان سے قرضہ نہیں لیں گے مگر دیکھ لیجیے قرضے پے قرضہ لیا جا رہا ہے۔

اس کے باوجود لوگوں کے حالات ٹھیک نہیں ہو رہے روز بروز مہنگائی بڑھ رہی ہے نت کوئی نہ کوئی نیا ٹیکس لگایا جا رہا ہے لہٰذا کہا جا سکتا ہے کہ سہانے دنوں کا اس دور میں آنا مشکل ہے بلکہ اشرافیہ کی حکمرانی میں عوام کی حالت بدلی نہیں جا سکتی کیونکہ اس نے اپنا سوچنا ہے دوسروں کا نہیں پھر اسے اقتدار سے محبت ہے غریب عوام سے نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی رشوت عام ہے اداروں کے اندر من مرضی کا منظر ابھرا ہوا ہے۔ ہر ادارے کا سربراہ خود کو عقل کل سمجھتا ہے لہٰذا وہ کسی کی نہ سنتا ہے نہ مانتا ہے۔ عام آدمی ذلیل و خوار ہو رہا ہے اسے تو اب مایوسی نے آن گھیرا ہے مگر اسے یہ امید بھی ہے کہ موجودہ صورت حال اسی طرح برقرار نہیں رہے گی۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ حالات کبھی بھی ایک جیسے نہیں رہتے بدلتے رہتے ہیں لہٰذا آج جن مشکلات سے لوگوں کی ایک بڑی تعداد دوچار ہے کل ان میں ضرور کمی آئے گی کیونکہ اب اشرافیہ کے اپنے اختلافات بڑھ رہے ہیں کسی کو اقتدار چاہیے تو کسی کو دولت لہٰذا یہ گھپ اندھیرا باقی نہیں رہے گا کہ جس میں طاقتوروں نے اودھم مچا رکھا ہے۔

بہرحال یہاں کبھی حقیقی جمہوریت آ سکی ہے نہ قانون کی حکمرانی قائم ہو سکی ہے لہٰذا ہر کمزور رل رہا ہے آنسو بہا رہا ہے۔ وہ سوچتا ہے کہ آخر اسے کیوں تڑپایا جا رہا ہے کیوں اسے زندگی کی آسائشوں سے محروم رکھا جا رہا ہے۔

اس بارے اہل اقتدار و اختیار کچھ نہیں بتاتے۔ بس صبح شام وعدے کیے جا رہے ہیں اور دلاسے دیے جا رہے ہیں۔ وہ دن کب آئے گا جب ہمیں مہذب ممالک کے عوام کی طرح کی سہولتیں میسر ہوں گی۔

ہر آنے والا حکمران باتیں دل موہ لینے والی کرتا ہے اس نظام کو بدلنے کا بھی سینے پر ہاتھ مار کر کہتا ہے مگر نجا نے پھر اسے کیا ہوجاتا ہے کہ سب وعدے اور نعرے بھلا دیتا ہے۔ عوام کو حقیر جا ننا شروع کر دیتا ہے۔

اسے کہتے ہیں اقتدار کا نشہ کہ جس میں اپنے پرائے کی تفریق مٹ جاتی ہے۔ وہ ساتھی جو اس کے ہم سفر رہے ہوتے ہیں یکسر نظر انداز کر دیے جاتے ہیں۔ اب ذرا محترم عمران خان وزیراعظم کو ہی لیجیے انہوں نے اقتدار میں آتے ہی پہلا کام یہ کیا کہ اپنے ساتھیوں کو خدا حافظ کہہ دیا۔ اس کی کئی مثالیں موجود ہیں۔

پھر ہوا یہ کہ جو نئے ساتھی آئے تھے انہوں نے انہیں مفید مشورے دینے کا آغاز کر دیا جس سے پی ٹی آئی، پی ٹی آئی نہ رہی ایک عام روایتی جماعت بن گئی، اگرچہ عمران خان حوصلہ دیتے رہتے ہیں کہ آپ نے گھبرانا نہیں ہے مگر اس کا انہیں کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ لہٰذا آج پی ٹی آئی میں دراڑیں پڑ چکی ہیں اس کے عہدیداروں اور کارکنوں کے مابین فاصلے بڑھ گئے ہیں مگر پی ٹی آئی کی قیادت کو شاید اس کی کوئی فکر نہیں وگرنہ خواجہ جمشید امام (جمشید بٹ) ایسے با صلاحیت، قابل اور مخلص کا کارکنان آج کہیں نہ کہیں اپنی ذمہ دار یاں نبھا رہے ہوتے۔ خواجہ جمشید امام نے پی ٹی آئی کے لئے انتھک محنت کی ہے وہ اس کے قدم بہ قدم ساتھ رہے ہیں انہوں نے موسموں کی شدت کو بھی بردا شت کیا تا کہ ان کا سیا سی سفر نہ رکے مگر افسوس ان کی خدمات کو فراموش کر دیا گیا۔

شا ید ایسے لوگوں کی قربت سے محرومی ہی کی بنا پر حکومت کو سخت فیصلے کرنا پڑ رہے ہیں، جس سے عوام کی اکثریت اسے اگلے عام انتخابات میں ناکام دیکھنا چاہتی ہے کہ اس نے جو اب ان کے ساتھ سلوک کیا ہے، وہ دوبارہ بھی کر سکتی ہے مگر سوال یہ بھی ہے کہ پی ٹی آئی نہیں تو کون؟ بعض تجزیہ نگاروں کے مطابق ایک نئی سیاسی جماعت تشکیل پا رہی ہے جو عوام کو کوئی بڑا ریلیف بھی دے سکتی ہے مگر وہ اکیلے حکومت نہیں بنا سکے گی لیکن ایک پریشر گروپ کے طور سے متحرک رہے گی اور عوامی مفادات کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے آ گے بڑھے گی۔ اس صورت میں جو بھی حکومت بنتی ہے وہ پوری طرح آزاد نہیں ہوگی کیونکہ نئی سیا سی جماعت اس پر اثر انداز ہو گی اور غیر عوامی فیصلوں کی راہ میں رکا وٹ بنے گی۔

خیر ابھی یہ محض قیاس آرائی ہی ہے آنے والے دنوں میں صورتحال واضح ہو جائے گی کہ سیاست کیا رخ اختیار کرتی ہے کیونکہ ایک خیال یہ بھی ہے کہ تین چار ماہ کے بعد موجودہ حکومت مہنگائی پر قابو پانے سے متعلق اقدامات کرنے جا رہی ہے مگر سیانے کہتے ہیں کہ جو قیمتیں اوپر جا چکی ہیں، وہ واپس نہیں آ سکتیں لہٰذا حکومتی اقدامات سے کچھ حاصل نہیں ہو گا کیونکہ جب تک مافیاز پر آہنی ہاتھ نہیں ڈالا جاتا کچھ نہیں ہو گا مگر آنے والی نئی حکومت سے توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ صورت حال کو تبدیل کر سکتی ہے اور اگر اس نے بھی پچھلی حکومت کو معاشی ابتری کا طعنہ دیا تو پھر عوام سڑکوں پر آ سکتے ہیں اور جب عوام سڑکوں پر آتے ہیں تو پھر منظر بدل جاتے ہیں پس منظر بدل جاتے ہیں!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments