شفاف انتخابات اور ٹکراؤ کی پالیسی سے گریز


سیاست، جمہوریت، قانون کی حکمرانی اور منصفانہ نظام کے لیے شفاف انتخابات ناگزیر ہیں۔ کیونکہ شفاف انتخابات کی بنیاد پر ہی ہم اپنے سیاسی اور انتخابی نظام کی ساکھ قائم کر سکتے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ یہاں ہر انتخابات کے بعد انتخابی ساکھ پر بنیادی نوعیت کے سوالات اٹھائے جاتے ہیں جو انتخابی ساکھ کو متنازعہ بنانے کا سبب بنتے ہیں۔ ماضی میں ہم نے انتخابات کی شفافیت کے لیے کئی اہم اقدامات اٹھائے لیکن مسائل حل ہونے کی بجائے اور زیادہ انتشار پیدا کرتے ہیں۔ 2014 میں تمام سیاسی پارلیمانی جماعتوں کی سربراہی میں بننے والی 35 رکنی کمیٹی برائے انتخابی اصلاحات کی جانب سے دی جانے والی تجاویز سمیت انتخابی دھاندلی کا جائزہ لینے والے جو عدالتی ڈیشل کمیشن کی 42 کے قریب الیکشن کمیشن کو بے ضابطگیوں پر دی جانے والی تجاویز سے بھی کوئی مثبت نتیجہ برآمد نہیں ہوسکا۔

حالیہ دنوں میں ہمیں 2023 کے انتخابات کی شفافیت کے تناظر میں حکومت، حزب اختلاف، الیکشن کمیشن اور نادرا کے درمیان ٹکراؤ پر مبنی پالیسی دیکھنے کو مل رہی ہے۔ سیاست اور جمہوریت کی بنیادی کنجی اصلاحات کے نظام سے جڑی ہوتی ہے اور اصلاحات کی بنیاد پر ہی ہم ملکی سطح پر اپنے سیاسی اور انتخابی نظام کو شفاف بنا سکتے ہیں۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ یہاں حکومت، حزب اختلاف، الیکشن کمیشن اور نادرا انتخابی سطح پر اصلاحات کے مقابلے میں ایک دوسرے کے مدمقابل کھڑے ہیں۔ حالانکہ مجموعی صورتحال کو مدنظر رکھ کر اصولی طور پر ان تمام فریقین یا اہم اداروں کو تصادم کی پالیسی سے گریز کرنا چاہیے تاکہ ٹکراؤ کی پالیسی سیاسی نظام کو کمزور کرنے کا سبب نہ بنے۔ عام انتخابات سے قبل اس سطح پر ٹکراؤ یقینی طور پر نئے انتخابی عمل کو بھی متنازعہ بنا سکتا ہے۔

الیکشن کمیشن کے بقول الیکٹرانک ووٹنگ کے استعمال سے نہ تو دھاندلی رک سکتی ہے اور نہ ووٹر کی شناخت خفیہ رہے گی اور بیلٹ پیپرز کی کسی بھی سطح مناسب رازداری اور ووٹرز کی شناخت بھی گم رہے گی۔ اسی طرح ووٹنگ مشین کے سافٹ ویر، اخراجات کا تخمینہ سمیت مشین کو ہیک کرنے یا ٹیمپر کرنے، ایک ہی روز میں انتخابات کے انعقاد، ووٹر کی تعلیم و تربیت جیسے سوالات کو اٹھا کر انتخابات کی شفافیت اور ساکھ پر بھی سوالات اٹھائے ہیں۔

الیکشن کمیشن نے سینٹ کی قائمہ کمیٹی میں جمع کرائی گئے اپنی رپورٹ میں 37 اعتراضات اٹھائے ہیں۔ اہم بات یہ کہی گئی کہ ووٹنگ مشین پر عوام کا اعتماد نہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ الیکشن کمیشن کے 37 نکات میں سے 27 نکات کا کوئی براہ راست تعلق ووٹنگ مشین سے نہیں ہے۔ جو دس نکات ووٹنگ مشین سے متعلق ہیں اس پر حکومت پہلے ہی الیکشن کمیشن کو بات چیت کی دعوت دے کر عملاً مذاکرات اور تصفیہ کا دروازہ کھولا ہے۔

ایک بات سب کو سمجھنی ہوگی کہ الیکشن کمیشن کا کام انتخابات کے انعقاد کا ہوتا ہے۔ انتخابات کے تناظر میں قانون سازی کرنا پارلیمنٹ کا کام ہوتا ہے۔ یہ عمل حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان باہمی تعاون سے ہی ممکن ہوتا ہے۔ اس لیے اگر الیکشن کمیشن پارلیمنٹ سے خود کو عملاً سپریم بنانے کی کوشش کرے گی تو یقینی طور پر یہ حکومت، پارلیمنٹ اور اداروں کے درمیان ٹکراؤ کا سبب بن سکتا ہے۔ الیکشن ایکٹ 2017 کی دفعہ 103 کے تحت الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے لیے آئین میں ترمیم کی ضرورت نہیں، پارلیمنٹ ایکٹ کے ذریعے اس ابہام کو دور کیا جاسکتا ہے۔ اس کے لیے حکومت پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلا کر بھی اس مسئلہ کا حل نکال سکتی ہے۔ اسی طرح یہ کوشش بھی ہو رہی ہے کہ حکومت حزب اختلاف کے بعض جماعتوں اور ارکان کی مدد یا حمایت سے یہ نیا نظام لا سکتی ہے۔

سوال یہ ہے کہ الیکشن کمیشن نے جو اعتراضات میڈیا کے سامنے پیش کیے ہیں وہ کیونکر حکومت اور الیکشن کمیشن تک محدود نہیں ہو سکے۔ کیوں ہمیں الیکشن کمیشن اور حکومت کے درمیان ٹکراؤ نظر آتا ہے۔ یہ بات تو کافی حد تک درست ہے کہ الیکشن کمیشن حکومت کو ڈکٹیشن دے کر خود بھی اختیارات سے تجاوز کر رہا ہے۔ اسی طرح حکومت اور الیکشن کمیشن کے درمیان بیان بازیاں اور ایک دوسرے پر الزام تراشی کی سیاست بھی مناسب نہیں اور یہ جتنی جلدی ختم ہوگی اتنا ہی یہ سب کے مفاد میں ہو گا۔

ویسے جو لوگ الیکٹرانک ووٹنگ مشین پر اعتراض کر رہے ہیں ان کو یہ بنیادی بات تو سمجھنی ہوگی کہ ہمیں آج نہیں تو کل یقیناً اسی فارمولے کو اختیار کرنا ہو گا۔ کیونکہ دنیا جس تیزی سے ڈیجیٹل دنیا میں جا رہی ہے اس کو مدنظر رکھ کر ہمیں مستقبل کی منصوبہ بندی کرنی چاہیے۔ بحث الیکٹرانک ووٹنگ پر نہیں بلکہ اس کے طریقہ کار پر ہونی چاہیے اور جو بھی ان پر اعتراضات اٹھائے جا رہے ہیں اس پر تمام فریقین کے درمیان بات چیت اور کسی متفقہ فیصلہ پر پہنچنا ہی مسئلہ کا حل ثابت ہو گا۔ اگر ہم آنکھیں بند کر کے اور وہی روایتی یا فرسودہ سوچ و خیالات کو اپنی انا کا مسئلہ بنا کر کھڑے رہیں گے تو ہمیں جدیدیت کی بنیاد پر وہ بڑے فیصلے نہیں کرسکیں گے جو ہماری مستقبل کی ضرورت بنتے ہیں۔

الیکٹرانک ووٹنگ مشین پر تو گنتی یا ووٹ کو جانچنے کا عمل دو دفعہ ہو گا ایک مشین کی مدد سے اور دوسرا کاغذ بیلٹ کی بنیاد پر یعنی ووٹوں کی گنتی کا کا ؤنٹر چیک موجود رہے گا۔ اصولی طور پر تو الیکشن کمیشن کو الیکٹرانک ووٹنگ مشین پر جو تحفظات ہیں ان کو دور کرنے کی بات پر زیادہ زور دینا چاہیے تھا، مگر اس کو مجموعی طور پر مسترد کرنے سے حکومتی سخت ردعمل بھی سمجھ میں آتا ہے۔ ویسے حکومت کو چاہیے کہ اس برس خیبر پختونخوا اور اگلے برس ابتدائی سہ ماہی میں پنجاب میں مقامی حکومتوں کے انتخابات کی طرف بڑھ رہے ہیں۔

بہتر ہو گا کہ حکومت اگر ان دونوں صوبوں میں مکمل نہیں تو کم ازکم ایک خاص حصہ کو بنیاد بنا کر الیکشن کمیشن کی مدد سے ان صوبوں میں مقامی حکومتوں کے انتخابات میں ہم الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا تجربہ کر سکتے ہیں، تاکہ بہتر نتائج کو جانچا اور آگے کی طرف پیش قدمی کی جا سکے۔ الیکشن کمیشن محض حکومت سے ہی نہیں بلکہ وہ نادرا کے ساتھ بھی ٹکراؤ کی سیاست کا حصہ بن گیا ہے۔ نادرا کے مقابلے میں الیکشن کمیشن کا رویہ نادرا کے بارے میں کافی سخت گیر ہے جو عملاً ردعمل کی سیاست کو جنم دینے کا سبب بن رہا ہے۔

پاکستان میں انتخابات کی نگرانی میں کام کرنے والے اہم ادارہ فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک) فافن (بھی ہے۔ ان کے بقول اصولی طور پر کسی بھی طرز کی انتخابی اصلاحات کا عمل تمام فریقین کی مشاورت سے ہونا چاہیے۔ تاکہ انتخابی اصلاحات کا عمل متنازعہ نہ بن سکے۔ فافن کا موقف ہے کہ انتخابی اصلاحات ایک جامع پیکج ہے اور محض اس عمل کو الیکٹرانک ووٹنگ یا سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ دینے کے حق تک ہی محدود نہ کیا جائے۔

یہ بات درست ہے کہ اس وقت بحث کا محور ترمیمی بل 2021 پر ہو رہی جس میں الیکٹرانک ووٹنگ اور سمندر پار لوگوں کو ووٹ کا حق دینے پر ہے۔ لیکن انتخابی اصلاحات کے تناظر میں اور بھی بہت سی خرابیاں ہیں جن میں خود سیاسی جماعتوں کے ایکٹ میں کافی ترامیم کرنا ہوگی۔ کیونکہ سیاسی جماعتوں کا اپنا داخلی نظام شفاف انتخابات کے عمل میں رکاوٹ ہے۔ اسی طرح پیسوں کی بنیاد پر انتخابی نظام کا یرغمال ہونا اور کارپوریٹ انتخابی نظام کا عمل ہی شفاف اور منصفانہ انتخابات میں رکاوٹ کا سبب بنتا ہے۔

الیکشن کمیشن کی خود مختاری او ر ان سے جڑی شفافیت کیسے ممکن ہوگی او رجب بھی انتخابی عمل ہوتا ہے تو سب سے زیادہ شکایات کا عمل انتخابی دھاندلی سمیت انتخابی سطح کی بے ضابطگیوں کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ اچھی بات یہ ہے کہ اب حکومت اور حزب اختلاف اسپیکر قومی اسمبلی کی سربراہی میں مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کی تشکیل پر متفق ہو گئی ہیں اور خود الیکشن کمیشن نے معاملات میں مفاہمت کا رویہ اختیار کیا ہے۔ کیونکہ یہ معاملات اصولی طور پر پارلیمنٹ میں ہی طے ہونے ہیں او راچھا ہو گا کہ تمام فریقین مل کر شفاف انتخابات کے عمل کو یقینی بنائیں تاکہ اس ملک میں دھاندلی کی عملی سیاست کا خاتمہ ہو۔ یہ ہی عمل ملک میں انتخابات کی سیاسی ساکھ کو قائم کرنے اور سیاسی و جمہوری عمل کو مضبوط بنانے میں معاون ثابت ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments