پیہم دواں ہے زندگی



تو اسے پیمانہ امروز و فردا سے نہ ناپ
جاوداں، پیہم دواں، ہر دم جوں ہے زندگی

رحم مادر سے باہر آتے ہی انسان کے منہ سے جو چیخ نکلتی ہے، وہ شاید اس تحیر کی ترجمانی کرتی ہے جو وہ ”تین تاریکیوں،“ جنہیں قرآن نے ”ظلمات ثلاث“ کہا ہے، سے نکل کر دنیا کی چکاچوند میں پہنچتے ہی محسوس کرتا ہے! علم جنین اور علم نفسیات کی رو سے بچہ رحم مادر کے اندر ہی خواب دیکھنا شروع کرتا ہے۔ باہر آتے ہی انسان جب اپنے ہاتھ پیر مارنا شروع کرتا ہے تو گمان ہوتا ہے کہ جیسے وہ ”اندر کی دنیا“ میں دیکھے ہوئے خوابوں کی تعبیر ڈھونڈنے کی تگ و دو میں لگ گیا ہو۔ اس طرح یہ ان مشکلات اور مسابقتوں کی تمہید ہوتی ہے جو اسے آگے کی زندگی میں سر کرنا ہوتی ہیں۔ انہی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے قرآن نے واضح کیا ہے کہ ”لقد خلق الانسان فی کبد،“ یعنی ”ہم نے انسان کو مشکلات میں پیدا کیا ہے۔“

دراصل خالق کائنات نے انسان کی شخصیت کے اندر امکانات کی ایک اتھاہ کائنات پوشیدہ رکھی ہے۔ امکانات کی یہ پوری دنیا جمود کا شکار ہو کر انسان کے ساتھ ہی دفن ہو جائے گی اگر انسان کو مسابقت (چیلنجز) کی بھٹی سے نہ گزارا جائے۔ ادنی (مائیکرو) سطح پر انسان کو اسی طرح محو عمل رہنا پڑتا ہے جس طرح اعلی (میکرو) سطح پر پوری کائنات رواں دواں ہے۔ البتہ دونوں کے عمل میں ایک فرق، بلکہ ایک بدیہی فرق یہ ہے کہ کائنات فطرت کے لگے بندھے قوانین میں جکڑی ہوئی ہے، جس کی وجہ سے مظاہر فطرت میں ہمیں کوئی جدت نظر نہیں آتی۔ تاہم انسان کو بحیثیت اشرف المخلوقات فکر و نظر کی ایسی آزادی عطا کی گئی ہے کہ وہ ہر آن اپنے اعمال کے متنوع نتائج پیدا کرتا رہتا ہے۔

البتہ خوش کن نتائج جو انسانیت کی فلاح کا باعث بنتے ہیں، کا حصول تبھی ممکن ہوتا ہے جب انسان کے اندر کچھ کر گزرنے کی ”جستجو“ اور ”آرزو“ پیدا ہو جائے۔ کچھ نیا، کچھ نرالا اور کچھ اعلی عمل انجام دینے کی یہ آرزو دراصل انسان کے اندر ایک چنگاری کی طرح ہوتی ہے جو قنوطیت اور جمود کے آسیب کو بھسم کرنے کے لئے کافی ہوتی ہے۔ آرزو اور جستجو انسان کو کبھی کبھی اپنی استطاعت سے بڑا کام کرنے کے لئے جوکھم اٹھانے کے لئے بھی تیار کرتی ہے۔ البتہ ظاہر ہے کہ جو کام انسان انجام دینے میں کامیاب ہو جائے وہ کسی بھی صورت میں اس کی صلاحیت سے بڑا نہیں ہو سکتا ۔ البتہ ہر اس شخص کو ایسا کام کامیاب شخص سے بڑا نظر آتا ہے جس کو انسانی شخصیت کے اندر پنہاں صلاحیتوں کا اندازہ نہیں ہوتا۔

جستجو انسان کو عقلی، اخلاقی اور جمالیاتی میدانوں میں سے کسی ایک میدان یا کئی میدانوں میں اپنے جوہر دکھانے کے لئے تیار کرتی ہے۔ عقلی میدان میں انسان فطرت کے راز ہائے سربستہ پر غور و فکر کر کے علم کی راہوں میں نئے سنگ میل طے کرتا ہے اور انسانیت کے شرف میں چار چاند لگا دیتا ہے۔ اخلاقی میدان میں جستجو انسان کو انسانی شخصیت کے ساتھ ساتھ انسانی معاشرے کی ایسی تنظیم قائم کرواتی ہے کہ انسانیت اور بہیمیت کا امتیاز واضح ہوتا ہے۔ جمالیاتی میدان میں جستجو انسان کو انسانی معاشرے کی تزئین اور تہذیب کی راہ پر گامزن کرتی ہے جس سے انسانی تہذیب کا ارتقاء برقرار رہتا ہے۔

تعقل اور تفہم کے میدانوں میں صدیوں پر محیط انسان کی جستجو نے انسان کو فلسفے اور سائنس کے میدانوں میں کارہائے نمایاں انجام دینے کے قابل بنایا۔ اخلاقی میدان میں جستجو نے انسان کو رسم و رواج اور قوانین کی صورت میں اخلاقیات کا ایک قصر تعمیر کرنے میں کامیاب کیا۔ جمالیاتی میدان میں انسان کی جستجو نے انسان کو فطرت کی کاریگری کا ایسا نقال بنا دیا کہ اس نے ایک طرف کوئل کی کوکو اور جھرنوں کے ترنم کو اپنے گلے سے منتقل کرنا شروع کیا اور دوسری طرف پہاڑوں کی چٹانوں کو کاٹ کاٹ کر اپنے رہن سہن کے لئے ایک دلکش ماحول فراہم کیا۔

بلند نظری سے جڑے مہم جوئی کے جذبے کو بھی کبھی کبھی جستجو سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ تاہم یہ ایک ایسا جذبہ ہوتا ہے جس میں خواہش کا غلبہ ہوتا ہے۔ اس لئے یہ جذبہ قلیل مدتی اہداف کو پانے میں فائدہ مند تو ہو سکتا ہے لیکن اس کے بل بوتے پر طویل مدتی نصب العین کو پانا محال ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مہم جوئی کے جذبے کے تحت اٹھایا ہوا قدم اگر ناکامی پر منتج ہو گیا تو اس سے انسان کے اندر مایوسی کی ایک ایسی لہر دوڑ جاتی ہے جو انسان کے لئے تباہ کن ہو سکتی ہے۔

خود سوزی انہی تباہ کن نتائج کی ایک انتہائی شکل ہے۔ اس طرح مہم جوئی میں انسان کے قوى بے ہنگم انداز میں کام کرتے ہیں جس میں تنظیم کا بھی فقدان ہوتا ہے۔ تاہم اگر مہم جوئی مثبت نتائج بھی پیدا کرے تو اس سے بھی زیادہ منفی جذبہ ”دکھاوے کی حوصلہ مندی“ ہے جس کے تحت انسان کسی قابلیت اور جدوجہد کے بغیر جاہ و حشمت کا طلبگار بنتا پھرتا ہے۔ ایسا انسان ہر کام ”علا دین کے چراغ“ کی طاقت سے انجام دینا چاہتا ہے۔

اس طرح جستجو ہی ایک ایسا جذبہ ہے جو انسان کے لئے کامیابی کے در وا کرتا ہے۔ نتیجتاً انسان اپنی معاشرتی، معاشی، اخلاقی اور سیاسی حیثیت کو منوانے میں کامیاب ہوتا ہے۔ تاہم جستجو کے لئے قرآن نے واضح حدود و قیود کو متعین کیا ہے۔ اس لئے اگر انسان کی جستجو کا مرکز و محور صرف بے ثبات زندگی کے آرام و آرائش کا حصول ہو تو اس کے لئے آخرت کی پائیدار زندگی میں کوئی حصہ نہیں رہتا۔ از روئے قرآن: ”بلکہ اس سے بھی زیادہ بعض لوگ وہ بھی ہیں جو کہتے ہیں اے ہمارے رب!

ہمیں دنیا میں دے۔ ایسے لوگوں کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔“ (البقرہ: 200 ) تاہم اگر جستجو کرنے والا دنیا کے ساتھ ساتھ آخرت کے فضل کی آرزو بھی رکھتا ہے، تو اسے دونوں جہانوں میں فضل سے نوازا جاتا ہے۔ ”اور بعض لوگ وہ بھی ہیں جو کہتے ہیں اے ہمارے رب! ہمیں دنیا میں نیکی دے اور آخرت میں بھی بھلائی عطا فرما اور ہمیں عذاب جہنم سے نجات دے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے لئے ان کے اعمال کا حصہ ہے اور اللہ تعالٰی جلد حساب لینے والا ہے۔“ (البقرہ: 201۔ 202 ) واضح ہوا کہ اللہ تعالٰی کا فضل انسان کو اس کی سعی و جہد کے مطابق ہی ملتا ہے۔

اس طرح واضح ہوتا ہے کہ جستجو کے ذریعے انسان اپنے اندر پنہاں صلاحیتوں، جو بالقوہ اس کے اندر موجود ہوتی ہیں، کا بالفعل اظہار کرتا ہے جس سے نہ صرف اس کی شخصیت نکھر کر سامنے آتی ہے بلکہ یہ اپنے آس پاس موجود انسانوں کی راہنمائی کا سبب بھی بنتا ہے۔ تاہم ضرورت اس بات کی ہوتی ہے کہ وہ اپنے اندر کی صلاحیتوں کا ادراک کرسکے اور ان کو پروان چڑھانے کا سامان کرسکے۔ عرفان ذات کے اس عمل کے لئے انسان کے اندر مختلف داعیات رکھے گئے ہیں جن کو بروئے کار لاکر وہ اپنی حیثیت کو متعین کرتا ہے۔

اس کی طرف قرآن نے یوں اشارہ کیا ہے : ”اللہ تعالٰی نے تمہیں تمہاری ماؤں کے پیٹوں سے نکالا کہ اس وقت تم کچھ بھی نہیں جانتے تھے، اسی نے تمہارے کان اور آنکھیں اور دل بنائے کہ تم شکرگزاری کرو۔“ (النحل: 78 ) یعنی انسان سن کر ، دیکھ کر اور سوچ کر آفاق اور انفس کے مختلف حالات کا تجربہ کر کے اپنا کردار ادا کرنے کے لئے اپنی حیثیت متعین کرتا ہے۔

تاہم خالی جستجو اور آرزو کو ہمیشہ جمود کا شکار ہونے کا خطرہ لاحق رہتا ہے اگر اس جذبے کو ہر آن اور ہر سطح پر حوصلہ افزائی اور داد کے ذریعے مہمیز کرنے کا سامان نہ کیا جائے۔ دراصل جستجو ایک چنگاری کی مانند ہوتی ہے جسے حوصلہ افزائی کا ایندھن بھڑکائے رکھتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو یہ چنگاری بجھ کر انسان کے ساتھ ہی دفن ہو جائے گی۔ حوصلہ افزائی کا یہ آب حیات جستجو کرنے والے کو بچپن سے ہی ملنا شروع ہوجاتا ہے۔

والدین سے ہی سب سے پہلے اٹھنے بیٹھنے، چلنے پھرنے بلکہ گر کر سنبھلنے کا حوصلہ فراہم ہوتا ہے۔ اس کے بعد بلکہ اس کے ساتھ ساتھ بھائی بہن اور دوست احباب بھی انسان کو حوصلہ افزائی کی مشق کرواتے رہتے ہیں۔ اگر ماں کا اپنے بچے کو چبا کر منہ میں نوالہ ڈالنا حوصلہ افزائی کی ابتدائی شکل ہوتی ہے تو باپ کا کاندھوں پر سوار کرنا بھی اسی کی ایک صورت ہوتی ہے۔ بڑے بھائی بہنوں کا ہاتھ پکڑ کر اپنے ساتھ چلانا بھی حوصلہ افزائی کی ہی اور ایک شکل ہوتی ہے۔ دوستوں کا اپنے ساتھ، یہ جان کر بھی کہ ان کے دوست کو کھیلنا نہیں آتا، کھیل کود میں شریک کرنا بھی حوصلہ افزائی کا ایک اور مرحلہ ہوتا ہے۔

البتہ اساتذہ کی طرف سے ملنے والی حوصلہ افزائی، جو اکثر اوقات داد اور شاباشی کی شکل میں ملتی ہے، حوصلہ افزائی کی نفیس اور اعلی ترین شکل ہوتی ہے۔ حوصلہ افزائی کا یہ مرحلہ اتنا موثر اور نتیجہ خیز ہوتا ہے کہ اس سے انسان کا پورا طرز عمل (بہیوئر) تبدیل ہوجاتا ہے۔ اس سلسلے میں ماہرین تعلیم کا یہ ماننا ہے کہ ”تعلیم طرز عمل کے مثبت تغیر کا ہی (دوسرا) نام ہے۔“ اس طرح استاد کی طرف سے حاصل ہونے والی حوصلہ افزائی انسان کی جستجو اور آرزو کو ایک فیصلہ کن شکل فراہم کرتی ہے۔

اسی لئے مولانا رومی نے فرمایا ہے کہ ”استاد کی طرف سے ملنے والی چھوٹی موٹی حوصلہ افزائی طالب علم کے لئے بہت ہی نتیجہ خیز ثابت ہوتی ہے۔“ ایسی حوصلہ افزائی نہ صرف یہ کہ انسان کو علم کے حصول میں مفید ثابت ہوتی ہے بلکہ یہ اسے تنظیم اور تہذیب سے آراستہ کر کے ایک فیصلہ ساز شخصیت کے طور پر ابھرنے میں مدد کرتی ہے۔

حوصلہ افزائی کی یہ اقسام ہر انسان کو زندگی کے مختلف مراحل میں ملتی ہی رہتی ہیں۔ تاہم حوصلہ افزائی کی ایک قسم ایسی بھی ہے جسے ہم نفسیاتی یا روحانی حوصلہ افزائی کا نام دے سکتے ہیں۔ اس طرح کی حوصلہ افزائی جستجو کرنے والے کی اپنے ہدف کے ساتھ لگن اور اس میں استغراق پر منحصر ہوتی ہے۔ یہ حوصلہ افزائی اکثر اوقات بشارتوں بھرے خوابوں یا رویا میں ملتی ہے۔ اسلامی تاریخ میں اس قسم کی کئی مثالیں ملتی ہیں۔ مثال کے طور پر امام غزالی کو جب حقیقت کی تلاش میں عقلیات کے ذریعے تشفی نہ ہوئی تو انہوں نے اپنے تمام علاق بشمول نظامیہ کی پروفیسر شپ، ترک کر کے سلوک کی راہ اختیار کی۔

اس راہ میں اچھا خاصا وقت گزارنے کے بعد ان کو کچھ ایسے انکشافات ہوئے جن سے انہیں اطمینان ہوا کہ ذات رسالت مآب (ص) ہی دراصل حقیقت اعلی کے لئے علم و عرفان کا چشمہ صافی ہیں۔ ان بشارتوں کے حصول کے بعد امام صاحب نے مشائی فلسفے (پریپٹیٹک فلاسفی) کا رد کیا اور اپنے عہدے پر پھر فائز ہوئے۔ یہی وجہ ہے کہ اپنی آخری عمر میں امام غزالی نے عقلیات سے نقلیات کی طرف اس طرح رجوع کیا کہ جب آپ کی وفات ہوئی تو صحیح بخاری آپ کے سینے پر پائی گئی اور اس طرح یہ بات مشہور ہوئی کہ: ”مات الغزالی والبخاری علی صدرہ!

“ امام غزالی کے روحانی سفر اور ان کو حاصل ہونے والی بشارتوں کو سید ابوالحسن علی ندوی کی کتاب ”تاریخ دعوت و عزیمت“ میں ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح شاہ ولی اللہ دہلوی نے اپنا علمی اور فکری کام حرمین شریفین میں ملنے والی بشارتوں کے بعد ہی شروع کیا۔ واضح رہے کہ شاہ صاحب کا یہ کام برصغیر میں دین کی نشات ثانیہ کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔ شاہ صاحب کو حاصل ہونے والی بشارتیں انہی کی کتاب ”فیوض الحرمین“ میں دیکھی جا سکتی ہیں۔

لیکن یہاں پر یہ مغالطہ نہیں ہونا چاہیے کہ خوابوں میں بشارت یا حوصلہ افزائی صرف مذہبی اور دینی کام میں ہی ملتی ہے۔ دراصل ہر قسم کی جستجو کرنے والے کو اس قبیل کی بشارتیں ملتی ہیں۔ سلائی مشین کے موجد، الیاس ہووے (ایلیا ہیز) کو اپنی ایجاد کردہ سلائی مشین میں سوئی کے ناکے کا مسئلہ درپیش تھا جو دھاگے کو کاٹتا رہتا تھا۔ اس نے کئی طرح سے ناکے کو کو تبدیل کیا، لیکن مسئلہ حل نہیں ہوسکا۔ اسی ذہنی کشمکش کے دوران اس نے ایک رات میں خواب دیکھا کہ اس کو ایک آدم خور قبیلہ پکڑنا چاہتا ہے۔

ظاہر ہے کہ وہ اپنے آپ کو بچانے کے لئے بھاگتا ہے۔ لیکن کئی آدمی اس کے قریب پہنچ کر اس کو نیزہ مارتے ہیں اور جونہی نیزہ اس سے ٹکراتا ہے تو وہ بیدار ہوجاتا ہے۔ دوسرے دن سوئی کے ناکے کا مسئلہ حل ہوجاتا ہے۔ اس کو یاد آتا ہے کہ خواب میں جو نیزہ اسے مارا گیا تھا اس کے شافٹ میں ناکہ تھا، یعنی ناکہ عمودی تھا۔ اس نے سوئی میں اسی طرح ناکہ بنایا اور وہ کامیاب رہا۔ اس طرح سلائی مشین نے امریکی صنعتی انقلاب کے دوران گھریلو صنعت و حرفت کی جہت ہی تبدیل کی۔ ساتھ ساتھ اس ایجاد نے جوتا سازی اور صوفہ سازی میں ایک انقلاب عظیم برپا کیا۔

جستجو اور حوصلہ افزائی کو جو جذبہ نتیجہ خیز بناتا ہے وہ ہے جفاکشی، عمل مسلسل اور عرق ریزی۔ اس عرق ریزی کو عظیم موجد، ٹھامس الوا ایڈیسن نے پرسپائیریشن کہا ہے۔ اس بارے میں ان کا ایک مشہور قول ہے : ”کامیابی کا ایک فیصد تعلق حوصلہ افزائی سے ہے، جبکہ کامیابی کا ننانوے فیصد تعلق عرق ریزی یعنی محنت و مشقت سے ہے۔“ یہ ایک ایسے موجد کا قول ہے جس کی پوری زندگی مشاہدات اور تجربات اور محنت شاقہ میں گزری ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ عمل مسلسل کے بغیر خالی جستجو کوئی خاص نتیجہ پیدا نہیں کر سکتی اگرچہ حوصلہ افزائی کرنے والوں کی پوری کھیپ بھی انسان کو مہیا کی جائے۔

”ہمت مرداں، مدد خدا“ کے اس اصول کو قرآن نے ایک خاص پیرائے میں بیان کیا ہے : ”ہم نے ہر انسان کی برائی بھلائی کو اس کے گلے لگا دیا ہے۔“ (بنی اسرائیل: 13 ) اس سلسلے میں قرآن اس حقیقت کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے کہ انسان کی زندگی کی ابتدا ہی اسی مشقت یعنی چیلنج سے ہوتی ہے : ”یقیناً ہم نے انسان کو (بڑی) مشقت میں پیدا کیا ہے۔“ (البلد: 4 ) تاہم چیلنجز کا سامنا کرنا انسان کا کوئی جز وقتی عمل نہیں ہوتا، بلکہ انسان کی پوری زندگی اور اس کی نتیجہ خیزی کو اسی مشقت سے جوڑ دیا گیا ہے تاکہ یہ محرک کائنات میں جمود کا شکار ہو کر اپنے اصلی جوہر کو ضائع نہ کر بیٹھے۔

قرآن کا بیان ہے : ”اے انسان! تو اپنے رب سے ملنے تک یہ کوشش اور تمام کام اور محنتیں کر کے اس سے ملاقات کرنے والا ہے۔“ (الانشقاق: 6 ) محنت و مشقت کے اس عمل میں انسانوں کے درمیان مسابقت اور کشمکش بھی جاری کردی گئی ہے تاکہ انسانی دنیا کے ارتقاء کا عمل جاری و ساری ر ہے۔ اس مسابقت کو بھی قرآن نے ایک بلیغ انداز میں بیان کیا ہے : ”زیادتی کی چاہت نے تمہیں غافل کر دیا۔“ پ (التکاثر: 1 )

جہد مسلسل اور محنت شاقہ نے ہی انسان کو غاروں گپھاؤں سے نکال کر ایسے گھروں کا مکین بنایا جو بڑی بڑی چٹانوں کو کاٹ کر بنائے جاتے تھے۔ اسی سعی و جہد نے انسان کو ماضی میں بڑے بڑے عجوبوں (اہرام، قصر، وغیرہ) کا معمار بنایا اور حال میں فلک بوس عمارتوں (اسکائی کریپرس) کا خالق بھی انسان اسی جوہر کو آشکارا کر کے بنا۔ یہی صفت انسان کو ، شاہ ولی اللہ دہلوی کے الفاظ میں، ”ظریف“ بنا دیتی ہے جو ہر آن اپنی حالت کو خوب سے خوب تر کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔ اسی صفت کو علامہ اقبال نے خلاقی، مشتاقی اور آفاق گیری سے تعبیر کیا ہے جو اسے باقی مخلوقات سے ممیز کرتی ہے!

زندگانی کی حقیقت کوہ کن کے دل سے پوچھ
جوئے شیر و تیشہ و سنگ گراں ہے زندگی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments