جو بھی ہے محبت کا پھیلاؤ ہے!


دن گزرتے جا رہے ہیں۔ بوسیدہ یادیں وقت کی دھول میں زندہ رہنے کے لئے مچل رہی ہیں۔ ماضی کے اجلے چہروں کے خطوط کبھی دھندلاتے ہیں اور کبھی روشن ہو جاتے ہیں۔ اس کھیل میں ایک خیال ہے جو روز بہ روز تقویت پکڑ رہا ہے۔

اماں گزر تو گئیں مگر بہت ہوشیاری سے اپنی محبت کا جال ہمارے گرد بن کر مضبوط کر گئیں۔
ایک البم ہے جس کے ہر صفحے پہ کچھ مختلف ہے، یا شاید اسے اماں نے انوکھا بنا دیا۔

بیٹی پڑھائی میں مگن ہو یا غیر نصابی سرگرمیوں میں گم، نوکری پہ جا رہی ہو یا کسی کانفرنس میں، کوئی امتحان دینا ہو یا غیر ممالک روانگی ہو، گاڑی چلانی ہو یا سہیلیوں سے ملنے جانا ہو، اور مدد کرتے ہوئے اماں کے ماتھے پہ بل؟ ناممکن!

راتوں رات نیا سوٹ سلوا کر پہننا ہو، انگلش میگزین سے ڈیزائن نقل کر کے سویٹر بنوانا ہو، قمیض کے دامن پہ پھول کاڑھنے ہوں، کروشیے کی لیس بنانی ہو، سموکنگ سے ڈیزائن بنانا ہو اور اماں انکار کر دیں؟ ہو ہی نہیں سکتا!

آدھی رات کو گرم گرم پھلکا کھانا ہو، برستی بارش میں پکوڑوں پہ دل مچل اٹھے، کریلے اور بھنڈیوں کا سالن ہوسٹل میں کھانے کو جی چاہے، دن کے پچھلے پہر بھی سو کر اٹھنے پر بل والا پراٹھا کھانے کی خواہش ہو اور اماں نہ بنائیں، سوال ہی پیدا نہیں ہوتا!

بیٹی کو کھانا پکانے اور گھریلو کام کاج کرنے کی تربیت دینے کی سوچ ہو، یا نت نئے شوق پورا کرنے سے روکنا ہو، کسی بدتمیزی کے جواب میں سرزنش کرنی ہو، یا سیر و تفریح سے منع کرنا ہو، اماں تو ایسا سوچیں گی بھی نہیں۔

اماں نے اپنی بے انتہا محبت کا جادو عمر بھر جگا کر اپنا عادی بنایا اور پھر سوچ میں پڑ گئیں کہ اب کیا کروں، میرے بعد کیا ہو گا؟ وہ عادات بگاڑ تو چکی تھیں سو ایسی بگڑی تگڑی کا کچھ ایسا بندوبست چاہیے تھا کہ وہ جب چاہے رخصت ہو جائیں، لیکن کچھ ایسا ہو کہ غم گسار و دلدار بیٹی اسی محبت کی پھوار میں بھیگ کر زندگی کے نرم گرم دھوپ میں چلتی رہے۔

اماں نے اسی محبت و شیرینی میں بھیگے ہوئے دو ایسے کلون تیار کیے جیسی محبت سے وہ خود گندھی تھیں۔ کلوننگ تو آپ سمجھتے ہی ہوں گے نا۔ جنیاتی کوڈنگ سے چھیڑ چھاڑ کر کے اصل جیسا دوسرا نفس تیار کرنا جو ہو بہو اصل جیسا ہو، دیکھنے میں بھی اور برتنے میں بھی۔ مشہور زمانہ بھیڑ ”ڈولی“ اسی تجربے کے تحت بنائی گئی تھی جو تھی تو اصل کی نقل لیکن حقیقت میں اصل ہی تھی۔ سو یہی کچھ کیا ہماری اماں نے!

اماں کی کلون بننے والی دونوں عورتوں نے اماں کی دکھائی ہوئی راہ پہ چلنا دل و جاں سے قبول کیا اور ان کی بیٹی کے سر پہ ابر بھرا سایہ بن گئیں۔ اماں کی خیال رکھنے کی شکستہ ہینڈ رائٹنگ میں لکھی گئی نصیحتیں پلو میں باندھ لی گئی اور وقت کے سفر میں وقتاً فوقتاً لکھے گئے وہ رقعے سنبھال لیے گئے۔

اب ایسا ہے کہ وہ دونوں اماں کا پرتو بن چکی ہیں اور ان کی الفت و چاہت کی لو ہمیں احساس دلاتی رہتی ہے کہ اماں تو یہیں ہیں، یہیں آس پاس!

ہم کھانا ٹھیک سے کھا رہے ہیں کہ نہیں؟ صحیح وقت پہ سو رہے ہیں کہ نہیں؟ ورزش کرنے جیم کتنی دیر کے لئے جاتے ہیں؟ ہمیں کسی نے کچھ کہہ تو نہیں دیا؟ ہم اداس ہیں کہ خوش؟ ہم کیا لکھ رہے ہیں؟ ہم بستر میں کسلمندی سے کیوں اینٹھ رہے ہیں؟ ہمیں چائے تو نہیں پینی؟ ہمارا موڈ تو نہیں آف؟ ہمیں مارکیٹ میں کوئی چیز تو پسند نہیں آ گئی؟ کچھ پسند آنے پہ ہم نے کیوں نہیں خریدا؟ ہم بیچ پہ کافی پینے جا رہے ہیں کہ نہیں؟ ہمیں کیا کھانا ہے؟ ہم برتن دھونے کی کوشش کیوں کر رہے ہیں؟ ہمیں اپنے کن دوستوں سے زیادہ ملنا چاہیے اور کن سے کم؟

ہمیں ریٹائرمنٹ کب لینی ہے؟ ہمیں کیسے جوتے پہننے چاہئیں؟ ہم کچھ خریدتے وقت بچت کرنے کا تو نہیں سوچتے؟ ہم جہاز کی اکانومی میں کیوں سفر کرتے ہیں؟ ہمیں کون سی کتابیں پڑھنی چاہئیں؟ ہمیں کن لوگوں سے ملنا چاہیے اور کن سے نہیں؟ ہمیں اپنی پرسنل باؤنڈری کا احترام کروانا چاہیے؟ ہماری سالگرہ کیسے منائی جائے گی؟ کیا کیا تحفے دیے جائیں گے؟ ہمیں کون سا میوزیم دیکھنے جانا چاہیے؟ ہمیں ڈائٹنگ کرنی ہے یا نہیں؟ ہم چلتے چلتے تھک تو نہیں گئے؟ ہمیں پیاس تو نہیں لگی؟ کافی تو نہیں پینی؟ ہمیں ڈپریشن تو نہیں ہو رہا؟ اماں ابا تو یاد نہیں آ رہے؟

اماں کی کلون بننے والی یہ دونوں عورتیں سارا وقت اس فکر میں رہتی ہیں کہ ہمارا ہر لمحہ ایسے گزرے کہ جیسے کسی خاص چیز کو سینت سینت کر رکھا جاتا ہے۔ ہمیں گرم ہوا نہ چھو سکے اور ہم زمانے کی چیرہ دستیوں سے محفوظ رہیں۔

ان میں اور اماں میں بس ایک فرق ہے! ہم نے اماں کے رحم سے جنم لیا تھا اور ان دونوں نے ہمارے رحم سے، لیکن کیا کہیں کہ نانی اور نواسیوں کی محبت کا مرکز بھی ایک ہے اور انداز دلبری بھی مختلف نہیں۔

اماں اور ہمیں بیٹیوں کا دن مبارک!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments