ہم کہاں سدھریں گے؟


بڑے بوڑھے ہمیشہ سے اچھی باتیں بتاتے اور نصیحتیں کرتے تھے، یہ سب ایک دفعہ کا ذکر والی کہانیوں تک رہ گیا ہے، وہ باتیں کیا ہوتی تھیں، سچ بولو، کسی کا دل مت دکھاؤ، برا کام کرنے والے کے ساتھ اچھا نہیں ہوتا، لیکن کچھ کہانیاں بھی سناتے جس میں نیک آدمی کو انعام ملتا اور غلط کار سزا پاتا تھا۔ یہ بڑے اللہ کی بندگی کا درس دیتے اور آخرت سے ڈراتے تھے۔ اب تو شاید ہماری عمر کے لوگوں کے ذہنوں سے ایسی کہانیاں اور نصیحتیں بھی محو ہو چکی ہوں گی۔

یہ سب کچھ نہ جانے کیوں آج یک دم یاد آ گیا، وہ بھی کچھ بے ترتیب سی خبروں کو سننے کے بعد ۔ صرف اتنا سوال ابھرا کہ ہم کدھر جا رہے ہیں، اور چاہتے کیا ہیں؟

پہلی خبر، کندھ کوٹ میں تین ماہ پہلے بجلی کے گرے تاروں میں الجھ کر تین بھینسیں ہلاک ہو گئی تھیں جس پر ان کے مالک نے الیکٹرک کمپنی سیپکو اہل کاروں کے خلاف عدالت میں درخواست دائر کی تھی۔

سول کورٹ کے جج نے فیصلہ سناتے ہوئے ایس ڈی او، لائن سپرنٹنڈنٹ اور لائن مین کو دو سال تک پانچ وقت نماز پڑھنے، 40 درخت لگانے، ہر جمعہ کو دو مساجد کی صفائی اور ہر ماہ 10 حدیثیں یاد کرنے کا حکم سنا دیا۔ پولیس کو حکم دیا کہ ہر ماہ سزا پر عمل درآمد کی رپورٹ عدالت میں پیش کی جائے۔
دوسری خبر
ریلوے انتظامیہ نے ٹرین ڈرائیورز کے دوران سفر موبائل فون استعمال کرنے پر پابندی عائد کر دی۔ پابندی مسافروں کی حفاظت اور ڈرائیور کو مستعد رکھنے کے لیے لگائی گئی۔ سیفٹی سے متعلق حفاظتی پیغامات والے پوسٹر تیار کر کے انجنوں میں لگانا شروع کر دیے گئے تاکہ ڈرائیور ان کو پڑھ کر سیفٹی کو فالو کریں۔

تیسری خبر۔
تھر کے علاقے مٹھی میں مختلف مقامات پر آسمانی بجلی گرنے کے واقعات میں خاتون اور بچوں سمیت 5 افراد اور 50 بھیڑ، بکریاں بھی ہلاک ہو گئے۔
چوتھی خبر۔
بالی وڈ کو خیرباد کہنے والی سابقہ اداکارہ ثنا خان اور مفتی انس سے متعلق اہم پیشگوئی
فلمی ناقد کمال راشد خان المعروف کے آر کے نے ٹویٹ میں کہا کہ آئندہ تین سالوں میں اداکارہ اور ان کے شوہر کی طلاق ہو جائے گی۔

میڈیا میں ایسی ہی خبریں آتی ہیں، جن میں عدلیہ کسی ناصح کی مانند محسوس ہوتی ہے۔ کوئی چاہے کچھ بھی کہے، ان کی باتوں میں ایک بزرگی پائی جاتی ہے، ایویں ای بڑے بوڑھے یاد آ جاتے ہیں۔ وہ ایسی ہی سزائیں دیتے جس سے اصلاح ہو، مگر نتیجہ کیا نکلا، آج زبردستی کرنے سے نہ کوئی پانچ وقت کا نمازی بن سکا، نہ اسے ہفتے میں دس حدیثیں یاد ہوئیں۔

آسمانی آفت ہمیشہ اللہ کا عذاب کہلاتی، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سائنس کے توجیہات سامنے آنے لگیں، لیکن موت سے سائنس بھی انکار نہیں کرتی، اب بجلی جس بھی وجہ سے گری، وہ انسان اور جانور دونوں کی جان لے گئی۔

ہم اپنے کام پر توجہ نہیں دیتے، اس کے لئے پہلے بھی ایسی پابندی لگائی جاتی، جیسے کہ کام کے دوران گانے نہیں سننا، لیکن لوگوں کی اکثریت آج کل کھانا کھانے سمیت کچھ بھی کرتے ہوئے وڈیو یا فلم دیکھتے ہیں۔ آپ جتنا مرضی روک لیں۔ ڈرائیور موبائل کا استعمال کیسے بند کردے جبکہ یہ اس کی آکسیجن بن چکا ہے۔ اب پابندی لگائیں یا پوسٹر لگائیں۔ کون مانے گا۔

دوسروں کی زندگیوں میں جھانکنا بہت بری بات سنتے آئے ہیں، اب ایسا کچھ نہیں، خاص طور پر خبروں میں رہنے والی شخصیات خود اپنی اچھی بری حرکات کو میڈیا میں لاکر بحث کا موقع فراہم کرتی ہیں۔ کسی فنکارہ نے اگر دینی بندے سے شادی کرلی ہے، اس کی قسمت کب تک نبھا کر پائے، کسی اپنے تئیں پیش گوئی کر ڈالی، وہ تین ماہ سے زیادہ دیر ساتھ نہیں رہ پائیں گے۔

مجموعی طور پر زندگی کے معمولات کچھ بھی ہوں، ہم بظاہر مصروف ہوں، لیکن دوسرے کو نصیحت اور مشورے دینے، اسے اچھے برے کی تمیز یاد دلانے، اختیار کی صورت سرزنش کرنے میں تاخیر نہیں کرتے، خود پیچھے مڑ کر دیکھنے کا مزاج نہیں، دائیں بائیں پر نگاہ رکھنے کی عادت بگڑتی جا رہی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ چیزیں سدھرنے کے بجائے کہیں اور سے اور ہوتی جا رہی ہیں۔

نعمان یاور

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

نعمان یاور

نعمان یاور پرنٹ اور الیکٹرانک صحافت میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں اور ان دنوں ایک نجی ٹی وی چینل سے وابستہ ہیں

nauman-yawar has 140 posts and counting.See all posts by nauman-yawar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments