تحریر لکھنے کا ذاتی تجربہ


میں نے ایک زمانے سے کاغذ قلم نہیں پکڑا۔ شاید دس پندرہ سالوں سے ۔ قلم کا غذ بس چھوٹے چھوٹے نوٹس بنانے کے کام ضرور آتے ہیں، یا کوئی اچھوتا خیال قلم بند کرنا ہو اور کمپیوٹر پر بیٹھنا ممکن نہ ہو تب یہ کام آتے ہیں، ورنہ کی بورڈ اور اسکرین ہی لکھنے کا واحد ذریعہ بنا ہوا ہے ۔ اس میں مجھے سب سے بڑی آسانی یہ معلوم ہوتی ہے کہ ناپسندیدہ جملے مٹانے میں آسانی ہوتی ہے اور کسی بھی تحریر کو ری رائٹ کرنا بھی قدرے سہل ہوتا اور پھر اسے ایڈٹ کرنا بھی۔ پھر اس سے بڑی بات یہ کہ خفت بھی نہیں رہتی کہ بار بار مٹانا پڑ رہا ہے کیونکہ مٹا ہوا نظر کے سامنے نہیں رہتا۔

میں کسی بھی وقت لکھتا ہوں بس تھوڑی توجہ اور تھوڑا سکون درکار ہوتا ہے ۔ میرے ذہن میں خیالات دو تین وقتوں میں زیادہ موجزن رہتے ہیں۔ ایک سحر کے وقت، دوسرے سفر کے دوران اور تیسرے ہر اس تنہائی کی جگہ پر ، جہاں جسم کو متحرک رکھنے والا کوئی عمل نہیں کیا جاسکتا، صرف سوچا ہی جاسکتا ہے ۔ ویسے سفر میں بھی شاید اسی وجہ سے خیالات کا بہاؤ تیز رہتا ہے ، کیونکہ جب ہم سفر میں ہوتے ہیں، بس میں، ٹرین میں یا ہوائی جہاز میں، کہیں بھی تو ہمارے پاس کوئی بھی جسمانی مصروفیت یا ایکٹیویٹی نہیں ہوتی، اس لیے ذہن تیزی کے ساتھ چلتا ہے ۔

میرا اپنا خیال ہے کہ جب ذہن تیز چلتا ہے تو جسم کی کارکردگی اور حرکت متاثر ہوجاتی ہے یعنی سست پڑ جاتی ہے اور جب جسم متحرک ہوتا ہے تو ذہن کی کارکردگی متاثر ہوتی ہے ، اس وقت ذہن میں نئے خیالات زیادہ نہیں آتے ، البتہ ٹرکس اور کسی مجرد اور انوکھے خیال کی بات الگ ہے ، کہ وہ جسمانی کام کے وقت بھی ذہن میں کلک کر جاتے ہیں۔

خیال کئی بار ایک نقطے بھر ہی ہوتا ہے ، بعد میں وہ مضمون یا کتاب بن جاتا ہے اور کبھی ایک خیال دوسرے نئے خیال کو جنم دیتا ہے ۔ زیادہ تر تو یہی ہوتا ہے کہ بہت ہی مختصر خیال اور آئیڈیاز ہمارے ذہن میں آتے ہیں پھر ہم انہیں اپنی مزید محنت، ریسرچ، تخلیقی قوت اور ترتیب و تزئین کے ہنر کے ذریعے طویل، محیط اور مکمل کرتے ہیں۔ بہت سے مضامین، کتابیں اور تھیوریز ایسی ہیں جو بنیادی طور پر ایک خیال ہی تھیں اور وہ بھی ایک نقطے بھر ہی۔

میں کئی بار برجستہ اچھی اور دلچسپ تحریر لکھ لیتا ہوں جبکہ زیادہ تر ایسا ہوتا ہے کہ کسی تحریر کو خوبصورت اور دلچسپ بنانے کے لیے اسے خاص اہتمام کے ساتھ لکھنا پڑتا ہے ، مطالعہ کرنا پڑتا ہے اور کسی خیال کو دیر تک ذہن میں پختہ کرنا پڑتا ہے پھر جب ایک بنیادی اسٹرکچر والی چھوٹی بڑی تحریر وجود میں آجاتی ہے تو اسے بار بار پڑھ کر اور ایڈیٹ کر کے خوبصورت بنانا ہوتا ہے ۔ بعض دفعہ کئی کئی جملے بلکہ پیرا گراف تک بھی حذف کرنا پڑ جاتے ہیں، انشا ء کمزور ہونے کے باعث یا خیال کو ایٹریکٹو اور متاثر کن جملوں اور الفاظ کا پیرہن نہ دے پانے کے باعث۔ یا یہ خیال آنے کے باعث کہ بات کچھ بنی نہیں یا بات لکھتے لکھتے ہیں آؤٹ آف ڈیٹ ہو چکی ہے ۔

میں نے مولانا ابوالکلام آزادؒ کے بارے میں کہیں پڑھا کہ مولانا اپنی تحریروں میں کانٹ چھانٹ بہت کرتے تھے ، کبھی کبھی پورے پورے پیرا گراف حذف کر دیتے تھے اور ان کی جگہ دوسرے پیراگراف لکھ دیتے تھے ۔ ان کے اخبار غالباً الہلال کے مدیر ان کے پاس آتے اور ان سے اداریے کے لیے کہتے ، مولانا فرماتے صبح لے لینا، صبح کو آتے تو رات کے لیے کہہ دیتے ، کئی بار ایسا بھی ہوتا کہ وہ پورا اخبار تیار کرلیتے اور اداریے کی جگہ چھوڑ دیتے ، پھر مولانا سے درخواست کی جاتی کہ اخبار پریس میں جانے کے لیے تیار ہے اور تاخیر ہو رہی ہے تو عین وقت پر مولانا کا مضمون آتا مگر وہ اخبار میں اداریے کے لیے چھوڑی ہوئی جگہ سے زیادہ ہوتا، اسٹاف کے لوگ کسی نہ کسی طرح اسے ایڈجسٹ کرنے کے جتن میں ہوتے کہ مولانا کا پیغام آ جاتا کہ اس مضمون سے فلاں اور فلاں لائن اور پیرا گراف حذف کر دیں۔ اور یہ لائن اور پیراگراف بڑھا دیں جو ان کی طرف سے بھیجے گئے کاغذ پر لکھے ہوتے تھے ۔

مولانا مرحوم کے متعلق میں نے یہ بات طالب علمی کے زمانے میں ہی پڑھ لی تھی، اس لیے مجھے بھی اپنی تحریروں میں کانٹ چھانٹ کرنے میں دقت محسوس نہیں ہوتی۔ یہ درست ہے کہ کئی بار اپنے لکھے ہوئے جملے مٹانے میں بہت تکلیف ہوتی ہے بطور خاص ایسے جملے جو اپنی نظر میں خوبصورت دکھائی دیتے ہوں، مگر میں اس تکلیف کی پروا نہیں کرتا اور بے تکلف انہیں مٹا دیتا ہوں۔

ایک اور بات میں نے اپنے طالب علمی کے زمانے میں پڑھی تھی یہ غالباً مولانا عبدالماجد دریا بادی ؒسے متعلق ہے یا انہوں نے کسی کے بارے میں لکھی ہے کہ انہوں نے یا متعلقہ شخص نے اپنی غزلیں اپنے استاد کو تصحیح کے لیے دیں تو استاد نے انہیں یہ مشورہ دیا کہ غزل کہہ کر کچھ دنوں کے لیے رکھ لیا کرو یعنی اسے فوراً پبلک میں عام مت کیا کرو، تین چار دن یا ہفتے مہینے بھر بعد اسے نکال کر دوبارہ پڑھا کرو اور یہ پرکھنے کی کوشش کیا کر و کہ تم نے کتنا اچھا، کتنا صحیح اور کتنا غلط اور بد مزہ لکھا ہے ۔

ایسا کرنے سے تمہارے کلام کے حسن و قبح کسی نہ کسی حد تک خود ہی تم پر واضح ہوجائیں گے ۔ یہ بات بھی مجھے بہت بھلی لگی اور میں بھی اپنی تحریروں کے لیے یہی ٹرک اپنانے لگا، میں بھی مضمون لکھ کر رکھ لیتا ہوں پھر کئی دن بعد اسے دوبارہ پڑھتا ہوں اور تصحیح کرتا ہوں۔ مگر ظاہر ہے کہ ہر تحریر کے ساتھ تو ایسا نہیں کیا جاسکتا، کچھ تحریریں جلد بازی میں ہی لکھی جاتی ہیں اور انہیں پبلک میں عام کرنے کی جلدی بھی ہوتی ہیں۔ (نوٹ: ان دونوں حوالوں میں جن کا حوالہ فی الوقت دستیاب نہیں ہے ، الفاظ میرے ہیں اور بات ان کی ہے ۔ )

اگر تحریر بہت زیادہ فکری ہوتی ہے اور اس میں اسی نوے فیصد اپنی ہی سوچ کا عمل دخل ہوتا ہے ، اس میں کاپی کرنے جیسا کچھ نہیں ہوتا اور کسی سابق خیال کو اپنے جملوں میں نقل کرنا نہیں ہوتا تو میں ایسی کسی تحریر کو کئی قسطوں میں لکھتا ہوں، جیسے جیسے پوائنٹ ذہن میں آتے جاتے ہیں انہیں لکھتا جاتا ہوں، کئی بار ایسا بھی ہوتا ہے کہ یکبارگی اتنے سارے خیالات، پوائنٹس اور جملے ذہن میں آ جاتے ہیں کہ ان سب کو لکھ پانا ممکن نہیں ہوتا، نتیجے میں چند خیال اور پوائنٹ ہی قلم بند کر پاتا ہوں حالانکہ ٹائپنگ کی اسپیڈ اچھی خاصی ہے ۔

پھر ایسی کسی تحریر کو اگر قلم سے لکھ رہا ہوتا ہوں تو انگلیاں اور قلم ساتھ نہیں دیتے ، نتیجے میں جملوں کے درمیان کے کئی کئی الفاظ چھوٹ جاتے ہیں، بطور خاص کا ، کی، کے ، میں، ہیں، نے ، سے ، اب، تب، تھا اور تھے وغیرہ، اسی طرح نکتے رہ جاتے ہیں اور کہیں کے نکتے کہیں لگ جاتے ہیں، جنہیں بعد میں درست کرنا پڑتا ہے ۔ قلم سے ایسی تحریر لکھتے وقت دوسری پیچیدگی یہ ہوتی ہے کہ تحریر کی ظاہری شکل ایسی ہوجاتی ہے کہ اسے صرف میں ہی پڑھ سکتا ہوں، دوسرا کوئی بھی نہیں پڑھ سکتا۔ جبکہ بعض الفاظ خود میں بھی بدقت تمام ہی پڑھ پاتا ہوں اور جو پڑھ اور سمجھ پاتا ہوں وہ حافظے کے زور پر ہی سمجھ اور پڑھ پاتا ہوں۔

کوئی بھی تحریر لکھتے وقت ایسا بہت ہوتا ہے کہ بعض خیالات اور پوائنٹس اس طرح دماغ سے پھسل جاتے ہیں جس طرح مچھلیاں ہاتھ سے پھسل جاتی ہیں۔ پھر ان میں سے بعض کبھی خود بخود اور کبھی ذہن پر تھوڑا زور ڈالنے سے دوبارہ ذہن میں آ جاتے ہیں، گرچہ پہلی صورت میں نہیں آتے اور بعض دوسرے خیال ہمیشہ کے لیے رخصت ہو جاتے ہیں، کم از کم اس تحریر کو مکمل کرنے تک دوبارہ ذہن میں نہیں آتے ۔ کئی بار تو میں بعد والا جملہ یا پوائنٹ پہلے لکھ لیتا ہوں اس خوف سے کہ کہیں وہ ذہن سے پھسل نہ جائے ۔

لکھنا اور اچھا لکھنا واقعی اعلیٰ درجے کا ذہنی عمل ہے اور میرا خیال ہے کہ کسی بھی زبان میں اور کسی بھی ٹاپک پر جو لوگ اچھا اور معیاری لکھ سکتے ہیں وہ کسی بھی فیلڈ میں چلے جائیں وہاں بھی کمال ہی کریں گے ۔ انسانی تاریخ میں جو اعلیٰ درجے کے قلم کار ہوئے ہیں اور انہوں نے قلم و قرطاس کے میدان میں کوئی کمال کیا ہے اگر وہ قلم کار نہ ہو کر سائنٹسٹ، انجینئرز یا ڈاکٹرز ہوتے تو وہ ان میدانوں میں بھی کمال ہی کرتے ۔ ویسے یہ کوئی لازمی بات تو نہیں ہے ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments