طالبان کے دھمکی آمیز بیانات اور مستقبل کی صورتحال


چند دنوں پہلے سابقہ طالبان ترجمان اور آج کے نائب وزیر ذبیح اللہ مجاہد نے دنیا کو وارننگ دیتے ہوئے کہا تھا کہ اگر دنیا ہمیں تسلیم نہیں کرے گی تو بہت خطرناک ہوگا۔ کن کیلئے خطرناک ہوگا، دنیا کیلئے یا یرغمالی افغانوں کیلئے؟ اس کی وضاحت انہوں نے نہیں کی۔ لیکن دھمکی موجود ہے جو اس کو جیسا سمجھنا چاہے سمجھ سکتے ہیں۔
ساتھ طالبان کے وزیر دفاع مولوی محمد یعقوب نے ایک بیان میں اپنی حکومتی کار پردازوں کو تنبیہہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ طالبان حکومت نے ملک پر قبضہ کرنے کے بعد عام معافی کا اعلان کیا تھا جو سب کیلئے تھا، جبکہ تواتر سے ایسی خبریں مل رہی ہیں کہ سابقہ حکومت میں مختلف عہدوں پر کام کرنے والے اہلکاروں اور فوج و پولیس میں ملازمت کرنے والوں کو جگہ جگہ انتقامی طور پر قتل کیا جارہا ہے۔ بقول مولوی یعقوب، اس طرح حکومت کی بدنامی ہوتی ہے لہٰذا اس عمل سے احتراز کیا جائے۔
مولوی یعقوب ملا عمر کے صاحبزادے اور بہت اہم حکومتی عہدیدار ہیں، اگر وہ بذاتِ خود اعتراف کرتے ہیں کہ طالبان سابقہ حکومتی اہلکاروں کو معافی ملنے کے باوجود قتل کرنے میں ملوث ہیں تو افغانستان میں جاری انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں کیلئے کسی شہادت یا ثبوت کی ضرورت نہیں۔ لیکن رحم دل مولوی محمد یعقوب صاحب کو بھی افغانستان میں بہنے والے انسانی خون کی بجائے حکومتی بدنامی کی زیادہ فکر ہے۔
ایک اور مولوی اور افغان حکومت کے جیل خانہ جات کے انچارج ملا نورالدین ترابی کا کہنا ہے کہ ہاتھ پیر اور سر کاٹے جائیں گے کیونکہ یہ بقول ان کے شرعی سزائیں ہیں۔ ان کے ارادے کی پختگی کا ثبوت کرین سے لٹکی ہوئی تازہ لاشوں کی تصویریں ہیں جو سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہیں۔
افغان حکومت میں صرف ایک نسل کے مولوی لینا، لڑکیوں کے سکول بند کرنا، افغان عورتوں کو سڑکوں اور بازاروں میں چابک مارنا، ٹی وی انٹرویوز میں عمران خان کو لتاڑنا، اور اب یہ اعلان کہ ہم ہاتھ پیر اور سر کاٹیں گے، یہ سب قبضہ گروپ کی اگلی سٹریٹیجی ہے۔ اس طریقے سے وہ مہذب دنیا کو بلیک میل کرنے کی کوشش کررہے ہیں کہ اگر آپ ہمیں تسلیم نہیں کرینگے، آپ ہمیں امداد نہیں دینگے، آپ ہماری رجیم کو استحکام نہیں بخشو گے تو پھر ہماری مرضی ہے ہم یرغمال افغانوں کے ساتھ جو سلوک کرنا چاہیں گے آپ کو حق نہیں پہنچتا کہ ہمارے معاملات میں دخل اندازی کریں۔ یہ بلکل ویسا طرزِ عمل ہے جیسا کوئی مجرم یرغمال بنائے جانے والوں کو نقصان پہنچانے کی دھمکی دے کر اتھارٹیز سے اپنے ناجائز مطالبات زبردستی منظور کرانا چاہتے ہوں۔
طالبان کے پاس روس کو بلیک میل کرنے کیلئے ازبک اور سنٹرل ایشین ریپبلکس کے دہشت گرد موجود ہیں، چین کو بلیک میل کرنے کیلئے ایغور نسل کے شدت پسند ہیں، انڈیا کو سیدھا کرنے کیلئے افغانستان میں ان کی اربوں کی سرمایہ کاری کے ضیاع کا ڈر اور مسئلہ کشمیر ہے، ایران کیلئے یرغمالی ہزارہ اور دوسرے شیعہ گروپ اور پاکستان کیلئے ٹی ٹی پی کا پاکستان دشمن گروہ موجود ہے۔ جبکہ دوسری طرف عالمی برادری کو بلیک میل کرنے کی خاطر وہ افغانوں کو یرغمال بنا کر بھوک میں روٹی اور بیماری میں دوائی چرانے کے جرم میں ان کے ہاتھ پیر کاٹنے کی دھمکی دے رہے ہیں۔
ادھر طالبان حکومت کی سوشل میڈیا ٹیم کے انچارج کمانڈر مبین نے پاکستانی حکومت کو کچھ مفید مشورے اور اس کی اپنی حالت پر غور کرنے کے بارے میں تفصیلی انٹرویو دیا ہے جس میں وہ بتاتا ہے کہ پاکستان خود اپنے مسائل میں گھرا ہوا ہے اسے اس پر توجہ دینی چاہئے۔ عمران خان کو اس کے ملک میں وہاں کے لوگ منتخب وزیراعظم نہیں مانتے بلکہ وہ تو خود ایک کٹھ پتلی ہیں۔ آگے کہتا ہے کہ دوسری طرف تاجکستان کی حکومت کی حالت دیکھیں جب سے مجھے یاد ہے یہی نذر بایوف ہے اور تاجکستان ہے۔ ہم کسی کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرتے تو دوسروں کو بھی یہی رویہ ہمارے بارے میں اختیار کرنا چاہیے۔
رہے ہم ، تو ہمارا تو شروع دن سے ماننا ہے کہ طالبان “سلجھے ہوئے لوگ ہیں”، “ان کی نیت پر شک نہیں کرنی چاہیے” اور اب تو بین الاقوامی فورم پر ان کو پختون قوم پرست باور کرایا جا رہا ہے۔ کیونکہ وزیراعظم صاحب نے اقوام متحدہ میں اپنے ان لائن خطاب میں فرمایا ہے کہ طالبان کا تعلق پختون قوم پرستی سے ہے اسلام سے ان کو کوئی لینا دینا نہیں۔ وزیراعظم صاحب کی پہلی بات بلکل غلط ہے کہ طالبان کا تعلق پختون قوم پرستی سے ہے، کیونکہ انہوں نے اپنی پہلی حکومت اسامہ کی خاطر قربان کی تھی جو پختون نہیں بلکہ عرب تھا، افغانستان میں قوم پرست پختونوں کیلئے کوئی جگہ نہیں تھی جبکہ طالبان کے نام پر وہاں ازبک چیچن پنجابی عرب کشمیری یمنی امریکی اور یورپی شہریت رکھنے والے حکومت میں مکمل اختیار اور عزت رکھتے تھے، ہاں وزیراعظم صاحب کی دوسری بات بلکل صحیح ہے کہ طالبان کا اسلام سے کوئی لینا دینا نہیں۔
“سلجھے ہوئے لوگ” تو وہ واقعی ہیں کیونکہ ابھی تک بچوں کے پارکوں اور ہیلی کاپٹروں کے پروں کے ساتھ جھولے لے رہے ہیں۔ کبھی چڑیا گھر میں گھس کر جانوروں کو بندوق دکھاتے ہیں تو کبھی ایئرپورٹ میں کرسیوں کی لڑائی کے مقابلے کر رہے ہیں، جن سے ان کی سلجھی ہوئی طبیعت اور ذہنی بلوغت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ سلجھے ہوئے لوگوں کو ان کے بچپن کی نا آسودگیاں ان کو جوان ہی نہیں ہونے دیتیں۔ جھولے چڑیا گھر بچوں کے پارک دیکھ کر وہ اپنے گمشدہ بچپن کی تلاش میں بھول جاتے ہیں کہ وہ ایک خونخوار لشکر کے سپاہی ہیں جن کے بھائی انسانی سروں سے فٹ بال کھیلتے اور سکول کے بچوں کو قتل کرنے میں عار محسوس نہیں کرتے۔ ان کو جو چیز نئی لگتی ہے وہ اپنے بچکانہ تجسّس کی وجہ سے اس سے کھیل کر بور ہو جائے تو بعد میں اسے توڑ دیتے ہیں۔ یہی کچھ وہ پارک کے جھولوں، امریکہ کے چھوڑے ہوئے قابلِ مرمت ہیلی کاپٹروں اور انسانی جذبات کے ساتھ کر رہے ہیں۔ یہ بھی ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ زیر تربیت طالب مستقبل کا مولوی ہوتا ہے۔
پھر پتہ نہیں انکی کس بات پر شک نہ کریں، جب وہ لڑکیوں کے سکول بند کرتے ہیں، یا عورتوں کو بازاروں میں چابک مارتے ہیں یا پھر بھوکوں کے ہاتھ پیر اور سر کاٹنے کی بات کرتے ہیں؟
پہلے بھی تعلیم یافتہ آبادی اور سوچ و فکر کرنے والوں سے افغانستان کو خالی کرنے کی غرض سے وہاں پر تعلیمی ادارے بند کر دیئے گئے تھے اور آج بھی اسی پالیسی کے تسلسل کو برقرار رکھنے کی خاطر مساجد میں دم تعویذ کرنے والوں کو یونیورسٹیوں کے وائس چانسلر لگائے جا رہے ہیں تاکہ پڑھنے اور پڑھانے والوں کو “معیاری تعلیم” کی وجہ سے ملک چھوڑنا پڑے اور طالبان کے سامنے سوچنے اور سوال کرنے والے نہ رہیں تاکہ باقی لوگوں کو آسانی کے ساتھ اسلامی چابک سے جس طرف چاہے ہانکا جا سکے۔
ان کے ورود کے ساتھ، پاکستان میں ہونے والے حملوں کے بارے میں، میں یہ بھی سوچتا ہوں کہ کیا ہم دل سے ان کے ساتھ ہیں یا وہ ہمیں بھی بلیک میل کرتے ہیں؟ جبکہ ہماری کوتاہ بین پالیسی کی وجہ سے دنیا ہمیں قبضہ گیروں کے ساتھ بریکٹ کر رہی ہے۔ مسئلہ تب بنے گا جب ہم “دیرینہ دشمنوں” کی بجائے ان کو الزام دینا شروع کریں گے، لیکن دنیا پھر مانے گی نہیں، کیونکہ پاکستانی دفتر خارجہ ہو وزارت داخلہ ہو خفیہ ایجنسیوں کی علاقائی میٹنگ ہو یا اقوام متحدہ کی فورم، ہم اپنے مسائل اور وسائل پر بات کرنے کی بجائے ان کی وکالت اور سفارت کا حق ادا کرتے رہے ہیں۔
ہر صاحب استطاعت افغان جلد از جلد افغانستان چھوڑنے کی کوشش میں جتا ہوا ہے۔ جسکی وجہ سے دانش اور دولت دونوں، جب سے طالبان آئے ہیں، افغانستان سے نکل رہی ہے۔ لوگ گھروں کا سامان بیچ رہے ہیں تاکہ زیست کا سامان کرسکیں اور کل جانا پڑے تو ہلکے ہوں اور گھر بیچ رہے ہیں تاکہ زاد سفر بنا سکیں۔
روٹی کے تندوروں کے اردگرد خیراتی روٹی کے آسرے پر بیٹھی ہوئی بھوکی افغان عورتیں تو کب سے قبضہ گیروں کے اسلام سے مستفید ہورہی ہیں، وزیر جیل خانہ جات کے اعلان کے بعد ممکن ہے، ایک ایک ہاتھ اور پیر سے معذور افغان مرد بھی چند دنوں کے بعد بازاروں میں آخری بچا ہوا ہاتھ پھیلائے ہوئے نظر آئیں۔
حضرت علی رض کا فرمان ہے روٹی کی چوری پر چور کا نہیں حکمران کا ہاتھ کاٹنا چاہیئے۔
شازار جیلانی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

شازار جیلانی

مصنف کا تعارف وجاہت مسعود کچھ یوں کرواتے ہیں: "الحمدللہ، خاکسار کو شازار جیلانی نام کے شخص سے تعارف نہیں۔ یہ کوئی درجہ اول کا فتنہ پرور انسان ہے جو پاکستان کے بچوں کو علم، سیاسی شعور اور سماجی آگہی جیسی برائیوں میں مبتلا کرنا چاہتا ہے۔ یہ شخص چاہتا ہے کہ ہمارے ہونہار بچے عبدالغفار خان، حسین شہید سہروردی، غوث بخش بزنجو اور فیض احمد فیض جیسے افراد کو اچھا سمجھنے لگیں نیز ایوب خان، یحییٰ، ضیاالحق اور مشرف جیسے محسنین قوم کی عظمت سے انکار کریں۔ پڑھنے والے گواہ رہیں، میں نے سرعام شازار جیلانی نامی شخص کے گمراہ خیالات سے لاتعلقی کا اعلان کیا"۔

syed-shazar-jilani has 127 posts and counting.See all posts by syed-shazar-jilani

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments