چین پاکستان تعلقات: کیا سب اچھا ہے؟


یہ طے شدہ امر ہے کہ سفارتی امور میں دوستی دشمنی کوئی معنی نہیں رکھتی ہے آپ کی دوستی ہو یا معاملہ دشمنی کی جانب چل پڑے بنیادی وجہ مفادات اور ان کے حصول کے امکانات سے جڑی ہوتی ہے اور وطن عزیز بھی اس ہی کلیہ کی بنیاد پر ہی اپنے مفادات کی نگہبانی و نگہداشت کر سکتا ہے۔ کسی بھی ملک کا سب سے بڑا مسئلہ وہاں کے عوام کے معیار زندگی کو بہتر بنانا ہوتا ہے جس کے لئے وسائل اور تجربہ مہیا کرنے والا ملک آپ کی نظر میں دوست ہوتا ہے اور چین اس وقت یہ کردار نبھانے کی کوشش کر رہا ہے جبکہ ہمارے موجودہ کرتا دھرتاؤں کی جانب سے اس حوالے سے ایک مستقل سردمہری کا رویہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔

سی پیک وطن عزیز میں کاروباری معاملات میں بہتری لانے کی جانب ایک غیر معمولی قدم تھا مگر اب تو صورتحال یہاں تک آ پہنچی ہے کہ صاحبان اقتدار اپنے پسندیدہ اینکر صاحبان سے بجلی کے کارخانے لگانے تک پر بے جا تنقید کروا رہے ہیں کہ گزشتہ حکومت نے بجلی کے کارخانے کیوں لگائے تھے اور ملک کو اندھیروں میں ہی کیوں نہیں بھٹکنے دیا گیا تھا۔ کاروبار اور انرجی کی فراوانی کسی ملک میں غربت کو خیرباد کہنے کا بنیادی طریقہ ہے اور یہی طریقہ کار چین نے اپنی آبادی کو غربت سے نکالنے کے لیے اختیار کیا ہے۔

صدر شی جب 2012 میں اقتدار میں آئے تو چین میں جس رفتار سے غربت کا خاتمہ کیا جا رہا تھا اس کے لحاظ سے اقوام متحدہ نے 2030 کو چین میں غربت کے خاتمے کا سال قرار دیا تھا مگر صدر شی کی قیادت میں یہ ہدف 2021 میں حاصل کر لیا گیا اور انہوں نے اپنے عرصہ صدارت میں سات سو ستر ملین افراد کو خط غربت سے نکالا جو دنیا میں غربت کے خاتمے میں 70 فیصد ہے جبکہ باقی دنیا نے مجموعی طور پر 30 فیصد غربت کے خاتمے میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔

یہ بہت بڑی کامیابی ہے اور اسی کامیابی کا مطالعہ کرنے اور پاکستان چین کے اس تجربے سے مستفید ہوتے ہوئے اپنی عوام کو کیسے غربت کے عفریت سے نجات دلا سکتا ہے، کو سمجھنے کے لئے میں نے ایک سیمینار کا انعقاد کروایا جس میں لاہور میں تعینات چینی قونصل جنرل مسٹر پینگ، مسٹر ڈو، خالد قیوم سینئر صحافی ایکسپریس، امجد محمود روزنامہ ڈان، ڈاکٹر امان اللہ ڈین پنجاب یونیورسٹی، ڈاکٹر قیس عالم ماہر اقتصادیات، ڈاکٹر صلاح الدین ایوبی ایف سی کالج یونیورسٹی، ڈاکٹر امجد مگسی پنجاب یونیورسٹی، یاسر حبیب خان صدر آئی آئی آر ایم آر، عدنان خان کاکڑ معروف بلاگر، گوہر علی معروف صحافی، محمد کریم ریڈیو پاکستان، بیرسٹر اسلم شیخ، مجتبیٰ نقوی روزنامہ جنگ، طیب قریشی اردو ڈائجسٹ، گوہر بٹ سینئر صحافی، محمد ضیا الحق نقشبندی معروف مذہبی شخصیت اور کالم نگار، یاسر عابدی اور سابق ایڈیشنل سیکریٹری خارجہ نزیر حسین نے شرکت کیں اور چین کی اس کامیابی سے پاکستان کیسے مستفید ہو سکتا ہے پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔

چین بڑی طاقت ہونے کے باوجود دوسرے ممالک میں عدم مداخلت کی پالیسی پر گامزن ہے اس لیے اس سے کوئی معاہدہ کرتے ہوئے خوف نہیں آتا ہے اور سی پیک اسی نوعیت کا ایک معاہدہ ہے۔ اس معاہدے کو صرف دو ریاستوں کے مختلف امور کو آپس میں جوڑنے تک محدود نہیں کیا جاسکتا ہے بلکہ یہ تو ایک چھتری ہے کہ جس کے نیچے دونوں ممالک کے کاروباری افراد بڑے پیمانے پر ایک دوسرے کے ساتھ تجارت کر سکتے ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے اس وقت ایسے حالات قائم کر دیے گئے ہیں کہ جس کے سبب سے چینی بزنس مین پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے سے کترا رہے ہیں جس کی سب سے بڑی مثال یہ ہے کہ چین سے تین ہزار افراد کاروباری ویزے پر پاکستان آئے مگر ان میں سے کوئی ایک بھی سرمایہ کاری کرنے کی غرض سے پلٹ کر نہیں آیا اور اس کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ یہاں پر ابھی تک تو ملکیت اور لیز کے معاملات کو یہ طے نہیں کیا گیا ہے۔

داسو ڈیم سانحہ کے مجرمان کو کیفر کردار تک نہیں پہنچایا گیا ہے کہ جس سے چینی سیکورٹی کی بہتری محسوس کرتے بلکہ اسد عمر کہہ رہے ہیں کہ یہ تو سی پیک میں شامل پروگرام نہیں تھا جو خاص سیکورٹی دی جاتی۔ سر پیٹنے کو دل کرتا ہے کہ معاملات کس قسم کے ہاتھوں میں آ گئے ہیں۔ سی پیک میں دلچسپی کم ہونے کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ پہلے اس کے امور کو ایوان وزیراعظم براہ راست دیکھتا تھا مگر اب سی پیک اتھارٹی ہے کہ جس کا سی پیک کے معاہدے میں سرے سے کوئی ذکر ہی نہیں ہے خیال رہے کہ ان تمام امور کے سبب سے ہی صدر شی کا دورہ بار بار مؤخر ہو رہا ہے کیونکہ وہ ایم ایل ون کی تقریب میں شرکت کی غرض سے آتے مگر اس تقریب کا تو ابھی دور دور تک سان و گمان بھی نہیں ہے یہاں تو صدر بائیڈن سے ٹیلی فون پر گفتگو نہ ہونے کے متعلق بات چیت جاری ہے حالاں کہ اگر ہم غور کریں تو صدر شی سے بھی وزیراعظم عمران خان کی آخری بار گفتگو فروری 2020 میں ہوئی تھی اس کے بعد تو کوئی ٹیلی فون رابطہ بھی نہ ہو سکا۔

سی پیک معاہدے سے قبل پاکستان چین دوستی کا حلقہ اثر صرف سیکیورٹی کیں امور سے تھا کہ جس میں معاشی مفادات کا تعلق نہیں تھا۔ اگر خدا نخواستہ سی پیک سے وہ فوائد حاصل نہیں کیے گئے جو کیے جا سکتے ہیں تو ایسی صورت میں دوبارہ معاملات سکیورٹی امور تک ہی محدود ہو جائیں گے اور مل کر غربت کے خاتمے کا خواب صرف خواب ہی بن کر رہ جائے گا۔ مجھے سکیورٹی امور میں بھی تعاون کی افادیت سے انکار نہیں ہے بلکہ اگر ہم خطے کی موجودہ صورتحال پر نظر ڈالیں تو دیکھیں گے کہ نت نئے چیلنج سامنے آ رہے ہیں جن میں پاکستان کو غیر معمولی حالات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

مثال کے طور پر جس طرح امریکہ میں حال ہی میں کواڈ ممالک کی کانفرنس ہوئی ہے کہ جس میں نریندر مودی اور صدر بائیڈن ساتھ ساتھ نظر آ رہے ہیں ایک نیا منظر نامہ تشکیل دینے کی طرف ایک قدم ہے۔ اگر وطن عزیز ابھی بھی کوشش کریں تو امریکا سے بہت سارے امور پر گفتگو میں مثبت نتیجہ حاصل کیا جاسکتا ہے کیونکہ امریکہ بہرحال خطے اور دنیا کو اپنی نظر سے دیکھتا ہے لیکن بھارت کی طرف سے اٹھائے گئے ہر قدم کا مطالعہ اس بات کی دعوت دیتا ہے کہ بھارت کے اقدامات کو وطن عزیز کے تناظر میں دیکھا جائے کواڈ اتحاد بھی اسی نوعیت کا ایک قدم ہے کہ جس سے صرف چین کو نہیں بلکہ وطن عزیز کو بھی مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے چین تو اس حوالے سے تیار ہے اسی لئے میرے ذاتی عزیز ترین دوست اور چینی وزارت خارجہ کے ترجمان مسٹر ژاؤ نے کواڈ پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ ”ناکامی ان کا مقدر ہے“ تیاری ہمیں بھی کرنی چاہیے لیکن شرط صلاحیت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments