من کہ مسمی منیر نسیم… (3)


دوسری قسط کا آخری حصہ

یہاں کے مرد کڑیل، عورتیں حسین، گھوڑے اور بیل ناچنے کے شوقین ہوتے ہیں۔ قتل کا بدلہ ضرور لیتے ہیں۔ اس میں بھی ایک شان رکھ رکھاؤ ہے۔ بیٹی گھر میں کنواری بیٹھی ہے تو بدلہ موقوف رہے گا۔ بیٹی سب کی سانجھی ہے۔ اس بے چاری کو اپنے گھر کی ہو لینے دو۔ دشمن کی بیٹی رخصت ہو کر جائے گی تو اسے رخصت کرنے گاؤں کی سرحد تک دیگر گھر والوں کے ساتھ آئیں گے۔ شادی موت پر مہمان بھی ساجھے ہوں گے۔ رخصت ہو کر گاؤں کی سرحد سے نکل جائے گی تو ایک نائی، جولاہا یا میراثی آن کر کہے گا مغرب کی نماز پر اپنا بندوبست رکھیں۔ اول تو لڑکی کسی لڑکے سے سیٹ نہیں ہوگی اور اگر سیٹ ہو جائے تو درمیان میں رکنے کا نام نہیں لے گی۔ ڈیٹ پر آئے ہوئے محبوب کے حفاظت پر مامور دوست کا بھی دل خوش کردے گی۔ معاملہ خراب ہونے کی صورت میں گھر کی سیانیاں جڑی بوٹیوں کی مدد سے اسقاط حمل میں مدد کریں گی۔

٭٭٭                     ٭٭٭

علی اشرف کو میں نے ہی درخواست کی تھی کہ قادر آباد اڈہ، بس اسٹاپ خوشاب میں ایک بس کھڑی ہے جس کا مالک ہمارا ٹرانسپورٹر دوست امیر اعوان ہے۔ اس کی اپنے علاقے میں دشمنی چل رہی ہے۔ دشمن ان دونوں زور آور ہیں۔ تھانے کچہری سب پر ان کا قبضہ ہے۔ وہ خود نہیں آ پا رہا۔ اس بس کا ڈرائیور کسی جرم میں بند ہو گیا ہے۔ اسی وجہ سے علی اشرف سواریاں لے کر آ جائے۔ سواریوں کی ٹکٹوں سے حاصل ہونے والی آمدنی، راستے کا خرچہ نکال کر اس کی ہوگی۔ کام سونپے جانے کی صورت میں علی اشرف کو پہلی فکر یہ ہوتی تھی کہ کوئی بیلوں کی دوڑ یا گھوڑوں کے ناچ یا نیزہ بازی کا مقابلہ تو اس ہفتے اس کے چکوال یا گرد و نواح میں منعقد نہیں ہو رہا۔

گھوڑے کا ناچ، بیلوں کی دوڑ، نیزہ بازی اور عورتیں علی اشرف کے بس چار ہی شوق تھے۔ امریکہ اگر احمد آباد پر ہائیڈروجن بم گرا دے تو بھی علی اشرف کی جان پر اس کا ککھ اثر نہیں ہونا تھا۔ ان چار ابواب سے جان چھوٹتی تو وہ لوگوں کے پھڈے سلجھاتا تھا۔ اسے فرمائش کر کے جرگوں میں لے جایا جاتا۔

دیکھنے میں وجیہہ تھا اور خوش پوش تھا، طبیعت میں دلداری اور دوستانہ بہت تھا۔ لڑائی میں کئی مخالفین پر بھاری پڑتا تھا۔ گفتگو کا انداز مبلغین کا سا تھا، سمجھا سمجھا کر، رانوں اور سر پر ہاتھ مار مار کر رقت طاری کرنے والا۔ ٹی وی پر اگر اس کو کھانا پکانے کے پروگرام میں ڈال دیا جاتا تو یقین مانیں پیاز کاٹنے سے کی وجہ سے اس کی پیروکار خواتین کو اتنا رونا نہ آتا جتنا اس کی زعفرانی کھیر اور کشمیری پلاؤ کی ڈش کی ترکیب سن کر آتا۔ داستان اور ڈرامائی سسپنس سے بھرپور۔ ہلاکو نے بغداد آتے ہوئے اگر کسی خاتون کو 1257 عیسوی کے کرماں شاہ (ایران) میں ریپ کیا ہوتا تو اس کا ذکر اس قدر رقت آمیز انداز میں چھیڑتا تھا کہ آپ گھر کے نزدیکی تھانے میں واقعے کی رپورٹ درج کرانے چل پڑتے۔ الفاظ کا چناؤ دھیما اور دل خوش کن ہوتا تھا۔ کسی بھی ایسے خیال کو جو وہ کسی دوسرے سے منوانا چاہتا تھا اس خیال کے لیے وہ مخاطب کے ذہن میں ایک تفاخر بھرا احساس ملکیت پیدا کرتا تھا۔

کرمان (ایران)

اس نے یہ ہنر برطانیہ کی ایک سابق اور بہت ہی فولادی خاتون وزیر اعظم مارگریٹ تھیچر سے سیکھا تھا۔ برطانیہ میں قیام پذیر کوئی طالب علم مسافر اسے بس میں آتے جاتے مل گیا تھا۔ وہ بتا رہا تھا کہ مارگریٹ تھیچر سے کسی نے پوچھا تھا کہ وہ اپنی سرکش کابینہ سے اپنی بات اتنی آسانی سے کیسے منوا لیتی ہیں جب کہ برطانیہ میں اپنے مخالفین کو پولیس ہی کی مدد سے خودکش دھماکوں سے اڑانے، بوریوں میں بند کرنے یا ٹارگیٹ کلنگ کی سہولت بھی نہیں وہاں تو راؤ انوار، عزیر بلوچ اور حماد صدیقی بھی نہیں دستیاب۔ وہ کہنے لگیں یہ فن تو ہر سمجھدار عورت جانتی ہے۔ وہ جب بچے کی ماں بننے والی ہوتی ہے تو سج دھج کر شرما کر میاں کو کہتی ہے  ”آپ اس پیٹ کے بچے کے باپ بننے والے ہیں“ ۔ وہ یہ ہرگز نہیں کہتی کہ  ”بھوتنی کے یہ کیا کیا؟ میں تیرے بچے کی ماں بننے والی ہوں۔“ یہ بات علی اشرف نے پلے باندھ لی

کسی کے دل میں جگہ بنانے والی اس سے اچھی Ownership بتائیے پیدا کرنے کا اور کون سا بھلا طریقہ ہو گا۔ دنیا بھر میں اشتہار انڈسٹری اسی Concept Ownership پر چلتی ہے۔ ہر مزہ آپ کے لیے ہے، کپڑے آپ کے اجلے ہوں گے، رنگ آپ کا گورا ہو گا۔ بچہ آپ کا صحت مند رہے گا، دانت آپ کے سفید ہوں گے۔ ان حرکتوں کو کرتے وقت آپ وسیم اکرم، ایشوریا رائے اور شاہ رخ خان کی ٹکر کے ہو جائیں گے۔ یہ کبھی نہیں کہیں گے کہ اس پروڈکٹ کی خریداری سے آپ کی جیب میں اتنے سوراخ ہوں گے کہ آپ بھول جائیں گے کہ آواز کہاں سے نکالیں اور رقم کہاں چھپائیں۔

علی اشرف بس لے کر چلا تو اسے کوٹ عیسی شاہ کی بستی کے قریب سے کچھ لوگ سڑک پر دیوانہ وار ہاتھ ہلاتے دکھائی دیے۔ بس روکی تو تین سواریاں بس میں سوار ہونے کی منتظر تھیں یہ تینوں یعنی ایک حسین نوجوان لڑکی، ایک بڑی بی اور ایک ملازم بسم اللہ بول کر سوار ہو گئے۔ ایک سوزوکی میں کچھ لوگ انہیں رخصت کرنے آئے تھے۔ سواریاں دیکھ کر علی اشرف کو حیرت ہوئی۔ یہ معمول کے مسافر نہ تھے۔ بس ڈرائیور کا اتا پتہ پوچھ کر مطمئن ہو گئے، کرایہ ادا کیا اور سوار ہوتے وقت علی اشرف کو بتایا گیا تھا کہ انہیں لینے تاج کمپلیکس کے پاس لاری اڈے پر لوگ آ جائیں گے۔ ڈرائیور کے پیچھے ایک نشست خالی تھی۔ نوجوان لڑکی عین ڈرائیور علی اشرف کے پیچھے بیٹھ گئی۔ سب سے آخیرلی سیٹ پر کونے میں بڑی بی نے ڈیرہ جما لیا۔ بچہ بھی اس کے قریب دروازے کی سیڑھی پر رکھے اسٹول پر براجمان ہو گیا۔

تقریباً سبھی مسافر کراچی کے تھے۔ علی اشرف بتا رہا تھا کہ نگاہوں ہی نگاہوں میں ڈرائیور سیٹ کے سامنے اوپر لگے آئینے میں بے گانگی کے کئی پردے ہر نئے موڑ پر چاک ہوتے رہے۔ سیاہ سوتی چادر پر رنگ برنگے دھاگوں کی کشیدہ کاری، بڑی آنکھوں میں تیرتا دل کے مندر میں چراغ جلاتا کاجل، ہرے رنگ کے ریشمی سوٹ کے گلے کے ناپ میں علی اشرف کو لگا کہ کچھ کوتاہی ہوئی ہے۔ کوٹ عیسی شاہ کا درزی نالائق تھا اپنے ہنر کی جان لیوا کوتاہی سے کرتے کا گلہ کھینچ کر ذرا زیادہ ہی نیچے لے گیا تھا۔ چادر گردن سے ادھر ادھر ہوتی تو سبز کرتی کے گلے سے باہر موتیے کی رنگت کے دودھیا جام چھلکنے لگتے تھے۔

علی اشرف کو چونکہ کسی قسم کا کلینر وغیرہ چابی کے ساتھ لاری اڈے والوں نے نہیں دیا تھا۔ اسی لیے اس نے کرایہ بھی خود وصول کیا۔ ایک مسافر کے جس کے پاس ٹکٹ کی رقم نہ تھی اس کی ڈیوٹی لگائی کہ وہ خدمت مسافران کراچی کا فریضہ سر انجام دے گا۔ کچھ دور جاکر آئس بکس میں سے اس نے دل پذیر مسافر حسینہ کو ڈبہ پیک فروٹ جوس دیا تو انسیت کی ایک نئی بنیاد پڑی۔ راستے بھر کھانے پینے اور سستانے کے دیگر مراحل میں علی اشرف نے ان کی میزبانی کا فریضہ اپنے پر لاد لیا۔

ہلاکو خان خلیفہ معتصم باللہ کو خزانے میں دفن کرتے ہوئے

ہم سفر بڑی بی، لڑکی کی بیوہ پھوپھی تھی۔ لڑکی کا نام نوراں تھا۔ کوٹ عیسی شاہ میں وہ چاچا کے گھر میرے میں پلی بڑھی تھی۔ اب چچا نے دوسری شادی کرلی تھی۔ خاندان نے بہتر سمجھا کہ اس حسینہ کے بھی ہاتھ پیلے کر دیں۔ اس کا اپنا باپ وہاں کراچی میں پورٹ ٹرسٹ پر مزدوروں کا ٹھیکیدار تھا۔ اس نے نوراں کی والدہ کی گاؤں میں وفات کے بعد کسی سندھی گھرانے کراچی میں شادی کرلی تھی اور اب کیماڑی کے کسی محلے میں رہتا تھا۔ نوراں جس کی ساری عمر کوٹ عیسی شاہ میں گزری تھی اسے کراچی جاکر اجنبی قوم کے سوتیلے عزیزوں میں شادی کے خیال سے کچھ خاص لگاؤ نہ تھا۔ علی اشرف کو لگا کہ اس کی حالت اس پھول کی سی ہے جسے گلشن میں اپنی شاخ سے کٹ جانے کے بعد اس بات سے کوئی دل چسپی نہ ہو کہ وہ ناز عروساں کا حقدار ٹھہرتا ہے کہ کسی کی ارتھی کے ساتھ جلا دیا جاتا ہے۔ پھر جو بھی در ملا ہے اسی در کے ہو گئے کا سا معاملہ تھا۔

نوراں کو پھوپھی کی رفاقت میں باپ نے ہی کراچی بلوایا تھا۔ اس کے سسرالی عزیزوں میں اس کی خوشحالی کے باعث کئی نوجوان اس کا داماد بننے کے لیے کلپ رہے تھے۔ رات کے کھانے کے لیے وہ سڑک کے کنارے ایک بڑے سے ڈھابے پر رکے۔ اس دوران جب پھوپھی ملازم لڑکے کو ساتھ لے کر باتھ روم گئی تھی تو علی اشرف نے لڑکی کو سمجھا دیا کہ اس کے غائب ہونے کا کیا طریقہ ہو گا۔

وہ کراچی صبح چھ بجے کے قریب پہنچیں گے۔ اس کے غائب ہونے کا مرحلہ کراچی میں سپر ہائی وے پر آئے گا۔ یہ صبح چار بجے کا ویلا ہو گا۔ اگر وہ سو بھی گئی ہوگی تو وہ اسے مقام واردات سے کچھ دیر پہلے پانی کی بوتل دے گا۔ یہ ہشیار باش کا سگنل ہے۔ مقام مقصود پر اس کا یار عزیز منیر نسیم کراچی پولیس کا حاضر سروس ایے ایس آئی کسی ملزم کی تلاش میں علاقے کی موبائل کے ہمراہ وہاں کھڑا ہو گا۔ بس کے پاس ہی ایک سماجی مذہبی تنظیم ایمبولنس بھی پاس ہی کھڑی ہوگی۔

اس کا کام صرف اتنا تھا کہ جیسے ہی من کہ مسمی منیر نسیم بس کو ٹارچ دکھا کر روکے گا۔ علی اشرف بس کی لائٹیں بند کردے گا۔ دوران تلاشی نوراں ڈرائیور والی سائیڈ سے خاموشی سے اتر جائے اور چپکے سے جا کر ایمبولنس میں کفن اوڑھ کر لیٹ جائے۔ ایمبولنس خاموشی سے نکل لے گی۔ ایمبولنس کے اس استعمال پر باخبر نوراں کچھ فکرمند ہوئی لیکن علی اشرف کو منیر نسیم نے عرصہ پہلے بتا دیا تھا کہ کراچی میں جرائم کے کامیاب ارتکاب لیے ایمبولینس اور پولیس موبائل سے محفوظ، قابل بھروسا اور بہتر کوئی اور ذریعہ آمد و رفت نہیں۔ کراچی میں جیسے ہی فسادات یا گڑبڑ شروع ہوتی ہے۔ ملک دشمن عناصر ایمبولنس میں اسلحہ، کارکنان اور جاسوسی کے مختلف آلات کی ترسیل کا کام سنبھال لیتے ہیں۔ نوراں مطمئن ہو گئی۔

پھوپھی جو ملازم کی رفاقت میں باتھ روم گئی تھی اس کی واپسی سے قبل علی اشرف نوراں کو کچن کے پیچھے جہاں چاندنی کے علاوہ کوئی اور روشنی نہ تھی ایک اوٹ میں لے گیا۔ اسے دیر تک چومتا اور قول قرار کرتا رہا۔ شادی، بچے، گھر یہ سارے سماجی اور انسانی بندھن بوس کنار کی مستند سیل سے تصدیق ہوتے رہے۔ نوراں نے صرف ماں کی قسم دے کر ایک قول مانگا کہ دل بھر جائے تو مار دینا مگر دھندے کے لیے یا کسی اور مقصد کے لیے کسی اور مرد کو مت سونپنا اگر ایسی ہوا تو وہ خود کو اللہ کو گواہ بنا کر خودکشی کر لے گی اور قتل کا مقدمہ قیامت کے دن علی اشرف پر دائر ہو گا۔

اس کی تلاش میں سرگرداں ملازم لڑکے کے نام پکارنے پر نوراں الگ ہو کر دوسری جانب نکل گئی۔ علی اشرف خاموشی سے کچن میں چلا گیا۔ باہر نکل کر اس نے نوراں کو اپنی نشست پر براجمان ہونے تک لڑکے کا شک مٹانے کے لیے اسے دو منٹ روک لیا۔ جب علی اشرف بس کا انجن اسٹارٹ کر رہا تھا اور بس کی بتیاں روشن ہوئیں تو اس نے دیکھا کہ بے احتیاطی سے ڈھلکی سیاہ چادر کے درمیاں نوراں کے گریبان سے کچھ اوپر اس کی انگلیوں کے نشان بہت واضح تھے۔ بس چلی تو تھوڑی ہی دیر بعد بوسوں کی ایسی پھوار (جسے مشہور انگریزی مصنفہ Jane Austen نے mizzle کہہ کر پکارا ہے یہ ایسی برسات ہوتی ہے جس ایک نم آلود خوابیدہ سی دھند کی کیفیت ہوتی ہے میں کہتے ہیں) جھما جھم نہائی اور ہم آغوشی کے نرم و گرم لحاف کو یاد کرتے کرتے نوراں نیند کی وادیوں میں کچھ دنوں پہلے سنے شنکر لال حسین کے نغمے آپ یوں فاصلوں سے گزرتے رہے، دل میں قدموں کی آواز آتی رہی۔ سنتے سنتے سو گئی۔ اس کی سوتیلی امی کو بھی کوٹ عیسی شاہ میں ہندوستانی نغمے سننے کا بہت شوق تھا۔ وہاں اب سی ڈیاں عام تھیں۔

بوسوں کی دھند

چار بج کر دس منٹ پر علی اشرف کی بس کو سپر ہائی وے پر کراچی سے کچھ دور رکنے کا اشارہ ہوا۔ موبائل سے کولہے جوڑے ایک ایمبولنس خاموشی سے پہلے ہی اسٹارٹ تھی۔ بتیاں بجھ گئیں تو نوراں اپنی سیٹ سے چپ چاپ سٹک گئی۔ اس کے روانہ ہوتے ہی سہراب گوٹھ کی چوکی پر موجود میرا پیٹی بند بھائی اور سابقہ گرائیں گلبرگ تھانے کا ہیڈ کانسٹبل عبدالمنان جو بہ لباس سادہ چوکی کے ساتھ ہی کھڑا تھا وہ نوراں کو ایمبولنس سے اتار کر ایک رکشے میں بٹھا کر اپنے علاقے بھلوال کے ایک امام صاحب کے گھر علاقہ سرجانی لے گیا۔ ارے یہ عبدالمنان وہی ہے جس نے زر تاج کو مجسٹریٹ اللہ ڈینو شاہانی صاحب کے گھر سے بھگایا تھا۔

من کہ مسمی منیر نسیم نے بس میں داخل ہوتے ہی فوجی اعلان کیا کہ بس سے کسی کو اترنے کی اجازت نہیں۔ ہر فرد اپنی سیٹ پر خاموشی سے بیٹھا رہے۔ تمباکو نوشی سے پرہیز کریں۔ موبائل فون کا استعمال ہرگز نہ کریں۔ پنجاب سے آنے والے ایک دہشت گرد کی تلاش ہے۔ دوران تلاشی بس کی بتیاں بجھا دی جائیں (جو کہ پہلے ہی بجھا دی گئیں)۔ ڈرائیور گاڑی بند کر کے نیچے گیٹ کے پاس کھڑا ہو جائے۔ من کہ مسمی منیر نسیم نے سسپنس پیدا کرنے کے لیے اندھیاری بس میں ٹارچ کا استعمال کھل کر کیا۔ عقبی نشستوں سے جاری تلاشی کا عمل جب ڈرائیور کی سیٹ تک دراز ہوا اور خالی سیٹ پر اسپاٹ لائٹ پڑی تو من کہ مسی منیر نسیم نے بہت تحکمانہ لہجے میں پوچھا ”ایتھے کون بیٹھا سی؟“ علی اشرف نے ممیاتے ہوئے جواب دیا کہ  ”اک کڑی سی“۔ خاکسار نے بچپن کے دوست علی اشرف کو ڈانٹتے ہوئے کہا کہ ”کڑی سی کہ کڑی دے لباس وچ کوئی دہشت گرد۔“

اب اس کی ڈھنڈیا پڑ گئی۔ کوئی کہہ رہا تھا شاید رات میں جہاں کھانا کھا رہے تھے وہاں پیچھے رہ گئی ہو۔ اسے جھٹلانے کے لیے ایک خبر خلیدی قسم کی ادھیڑ عمر کی عورت کہنے لگی کہ ڈرائیور صاحب نے کچھ دیر پہلے ہی اسے پانی دیا تھا میں نے خود اپنی آنکھ سے دیکھا ہے۔ یہ وہ عورتیں ہوتی ہیں جو عمر کہ کسی حصے بھی سونے کی کوشش کریں ایک آنکھ ضرور کھلی رکھتی ہیں۔ جب ہی تو سسری بجائے خود اپنی آنکھوں سے کی بجائے میں نے خود اپنی آنکھ سے دیکھا ہے کہہ رہی تھی۔ علی اشرف ڈرا کہ کہیں اب یہ اعلان نہ کردے کہ اس نے اپنی دوسری آنکھ سے اسے ایک مذہبی سیاسی جماعت کی ایمبولنس میں کفن اوڑھے خود جاتے دیکھا ہے۔ مجھے ایسی چاچی خواہ مخواہ قسم کی عورتیں زہر لگتی ہیں۔ خود کے تو سری پائے درست نہیں ہوں گے مگر ہر موت میت شادی بیاہ کی تقریب پر سب سے زیادہ زنانے مردانے، پردے، لڑکے لڑکیوں کے میل جول پر یہی بھوتنیاں اودھم مچاتی دکھائی دیں گی۔ اسی ہڑا ہڑی میں من کہ مسمی منیر نسیم نے ایک دھماکہ کیا اور اعلان کیا وہ ایمبولنس کو بھی ڈھونڈ لو۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ لڑکی ایمبولنس میں بیٹھ کر بھاگ گئی ہے۔

لیاری ،میوہ شاہ قبرستان، گودام

کچھ دیر بعد اس ہنگامے میں کمی آئی تو میں نے پھوپھی جان کو پیشکش کی آپ لڑکی کے والد کے ساتھ جوہر آباد تھانے آ جائیں خاکسار آپ کی ہر ممکن مدد کرے گا۔ آپ چاہیں تو ڈرائیور کو بھی آپ کے ساتھ آنے کا پابند کیا جا سکتا ہے۔ جس پر علی اشرف نے شور مچایا کہ وہ صرف مسافروں کو بہ خیریت منزل پر کا پابند ہے وہ کس کے ساتھ آتے جاتے ہیں یہ اس کی ذمہ داری نہیں۔ میں نے تو پہلے بھی انہیں بیچ سڑک پر بس میں بغیر اسٹاپ کے کوٹ عیسی شاہ سے بٹھایا۔ اچھی نیکی کی میرے گلے پڑ رہی ہے۔ میرے ایجنٹ کے پاس دوبئی میں ڈرائیور کا ویزہ پڑا ہے۔ میری ڈیوٹی آئی ہوئی ہے۔ روزی روٹی کا معاملہ ہے۔ میں اپنے کام کروں گا کہ سواریاں ڈھونڈنے میں پولیس کے ساتھ خواری کروں گا۔ اس دوران خاکسار نے وائرلیس پر ایک ایمبولنس کی تلاشی کا پیغام جاری کیا۔

یہ نشریہ بے چاری پھوپھی جان کی جانب سے کچھ یوں تھا  ”مسمات کریمہ بی بی سکنہ کوٹ عیسی شاہ ضلع سرگودھا نے بس رکوا کر خصوصی طور پر درخواست کی ہے کہ اس کی بھتیجی مسمات نوراں عمری سترہ برس، رنگت اجلی شہابی، سرو قد، خوش اندام رات آٹھ بجے آخری مرتبہ دیگر مسافروں کے ساتھ نواب شاہ کے ایک ڈھابے پر دیکھی گئی تھی۔ پنجابی زبان روانی سے اور اردو قدرے سوچ سمجھ کر بولتی ہے۔ اطلاع برائے گمشدگی بر حوالہ روزنامچہ اندراج تھانہ جوہر آباد مشتہر کی جاتی ہے۔ سہراب گوٹھ چوکی سے درخواست ہے کہ ٹرسٹ کی ایمبولنس کی جانچ پڑتال بھی بہ صد احترام و احتیاط مسمات کریمہ بی بی کے اظہار شک پر کی جائے۔ دوران پڑتال ہر مستعد ناکے سے درخواست ہے کہ ایمبولنس میں سوار افراد کی سہولت کا خصوصی خیال رکھا جائے“ ۔ من کہ مسمی منیر نسیم نے چالاکی یہ کہ اس نشریے میں سیاسی تنظیم کی ایمبولنس کی بجائے خالصتاً ایک نئی سماجی تنظیم چھیپا ٹرسٹ کی ایمبولنس کا نام ڈال دیا۔ جس کے روح رواں پہلے رنگ ریز تھے۔

امید تو نہ تھی سندھ پولیس کا کوئی افسر ساڑھے چار بجے صبح وائرلیس پر میرا اعلامیہ سنتا ہو گا مگر بھلا ہو ہمارے نئے ڈی ایس پی صاحب جو تہجد کی نماز سے بھی محلے کی مسجد میں پڑھا کرتے تھے۔ وہ کچھ دیر پہلے ہی موبائل میں گھر سے نکلے تھے کہ مسجد ان کے علاقے فیز فائیو ڈیفنس کراچی میں کچھ فاصلے پر تھی انہوں نے وائرلیس پر اطلاع سن کر فرمایا۔ اے ایس آئی صاحب کی زبان دانی، شائستگی اور فرض شناسی کی داد دیتے ہوئے بھی اس بات کا خاص خیال رکھا جائے کہ کسی ایمبولنس کو نہیں روکا جائے گا۔ یوں خاکسار ہر قسم کے خدشے سے بے غم ہو گیا۔

نوراں اب میرے یار علی اشرف کی تھی۔

چلو علی اشرف کا یہ قصہ یہ کہہ کر لپیٹ دیتے ہیں کہ پہلے بچے کی پیدائش پر نوراں کی اپنے والد سے معافی کے لیے نوراں کی ملاقات میری اور علی اشرف کی رفاقت میں ہوئی۔ عرصہ تین سال سے اوپر ہو چکا تھا۔ نوراں کا باپ خود نئی سندھی بیگم اور اس کے بطن سے پیدا ہونے والے بال بچوں کے نئے سیٹ اپ کے ساتھ اپنے گھر میں خوش تھا۔ ایک نظر علی اشرف اور نوراں پر ڈالی۔ غیرت کا پرانا تھیلا وہ گاؤں ہی میں چھوڑ آیا تھا۔ اس نے خود بھی کیماڑی کی ایک سندھن سے شادی کی جسارت اپنے علاقے میں کی ہوتی تو مار دھاڑ کا خدشہ تھا۔ یوں بھی غیرت، ڈومیسائل کا مسئلہ ہے۔ حمیت اور عزت کے معیار اور پیمانے کراچی اور دوسرے بڑے شہروں میں آن کر بدل جاتے ہیں۔ میرے سامنے کوئی ایسی بحث کرتا اور اپنے علاقے کی ثقافت کو دوسروں سے بہتر ثابت کرنے اور اپنے غیرت اور حمیت کے سستے پھریرے (جھنڈے) لہراتا تو میں ان سے کہتا تھا کہ کراچی قاہرہ، کوالالمپور، ڈھاکہ، استنبول اور بوسنیا کے لوگ بھی باعصمت و باکردار ہیں۔ وہاں تو غیر برادری اور غیر زبان میں شادی ہونے پر قتل نہیں ہوتے۔ یہ تمہارا مسئلہ جہالت اور جھوٹ اور تکبر کا ہے، عزت، خودداری اور پاکیزگی کا نہیں۔ اپنی زنگ زدہ جہالت پر تقدیس اور دین کے سونے کا پانی مت چڑھاؤ۔

پولیس کی ملازمت میں خاکسار نے مشاہدہ کیا کہ اپنے علاقوں میں کسی نامحرم بیل یا اونٹ کے بھی اپنی خواتین کو دیکھنے پر کارو کاری (بالائی سندھ میں سیاہ مرد اور عورت جسے قتل کر دیتے ہیں) اور قتل و غارت گری پر اتر آتے ہیں وہ کراچی میں اس کراس کنکشن اور عشق و شادی کو غم روزگار سے جڑا مسئلہ جان کر برداشت کر لیتے ہیں۔ نوراں تیسرے بچے کی پیدائش پر پنجاب واپس ایسی گئی کہ مڑ کر نہیں آئی۔ سدوال کی کچھ زمین بیچ کر علی اشرف نے کوٹ عیسی شاہ میں آدھا مربع خرید لیا تھا۔ نوراں کو علی اشرف نے گھڑسواری بھی سکھا دی اور گھوڑی نچانا اور ڈھول بجانا بھی۔ گو اس کا مظاہرہ وہ علاقے کی خواتین کی محافل میں بمشکل اور بے حد اصرار پر کرتی تھی۔ اس کی نئی چچی بھی انتقال کر چکی تھی۔ وہ واپس آئی تو بیوہ پھوپھی اسے واپس پا کر بہت خوش ہوئی۔ چچا کا بیٹا کامل حسین بھی وہاں اپنی بیوی بچوں کے ساتھ موجود تھا۔ ان سب کا مل جل کر زمیندارہ تھا۔ مزید مدد علی اشرف کے رشتہ دار کر دیتے تھے۔ وہ سدوال اور کوٹ عیسی شاہ میں نوراں بیگم کے پاس میں سال چھ مہینے کے بعد چکر لگا کر آ جاتا۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ اس کے رشتہ زمینوں کی آمدنی میں ڈنڈی مارتے تھے۔ تین بچوں کی ماں نوراں اور علی اشرف کو کوئی اعتراض نہ تھا۔

علی اشرف نے لیاری کے علاقے میں اپنا گھر، ڈیرہ اور کاروبار آباد کر لیا۔

اس علاقے میں اور اس سے ملحقہ آبادیوں میں جہاں انسان ٹھونس ٹھونس کر آباد ہو گئے تھے۔ یہاں ہر طرح کے زبان بولنے والے موجود تھے۔ ایک آدھ گلی ادھر ادھر ہو جاؤ تو آگرے کی اردو اور ثقافت سے یکایک بوری خیل نیازیوں کی ملکی سرائیکی یا ہندکو سننے کو مل جاتی تھی۔ دو تین گلیاں ادھر ادھر ہوں تو کوئٹہ کے پٹھان، کراچی کے پرانے سندھی، بلوچ، مکرانی، ہر طرح کے لوگ آباد تھے، جادو ٹونے کے متوالے اور صلوة سے بے نیاز ذکری آباد تھے۔ چونکہ علی اشرف کا دستر خوان وسیع اور رویہ ہمدردانہ ہوتا تھا۔ سب کی خوشی، غمی میں بھی وہ جی جان سے شریک ہوتا تھا لہذا گھروں سے آوک جاوک اور خواتین سے راہ و رسم بھی تھی۔ اس راہ و رسم کے حساب سے وہ جنسی طور پر بہت آسودہ تھا۔

یہاں آباد کچھ بیبیوں کو دیکھ کر یقین نہ آتا تھا کہ ان کے جنسی رویے اداکارہ میرا اور کم کردیشیاں جیسے آزاد اور دلداری سے لدے پھندے ہوں گے۔ علی اشرف کے یہ مراسم خالہ بھانجیوں، بھابی نند، اور ہم زبان سہیلیوں تک دراز تھے۔ کسی کو جوڑا لینا ہوتا کسی کو موبائل فون میں بیلنس ڈلوانا ہوتا تھا تو کسی کو بچے کے علاج یا میکے کا دورہ کرنا ہوتا تو علی اشرف ایک ایسی اے ٹی ایم مشین بن جاتا جس استعمال کر کے جز وقتی جنسی رفاقت کے عوض استعمال کیا جاسکتا تھا۔

علی اشرف کا لوہے کے کباڑ کا خاصا عمدہ کاروبار تھا۔ اس کے عزیز و اقارب مشرق وسطی سے پرانے لوہے کے ڈھیر، حادثات میں برباد گاڑیوں کے پارٹس بھجواتے تھے۔ یہ ان کا منافع پیشگی ادا کر کے ایک طرف رکھ کر دیتا تھا۔ لیاری میں میوہ شاہ قبرستان کے قرب و جوار میں ایسے کئی گودام تھے۔ اس نے بھی تین گودام وہاں کرائے پر لے رکھے تھے جہاں ہر ایک میں اس کا اپنا عیش کدہ بھی موجود ہوتا۔ زندگی کے سب سے بے باک مزے موت کے دامن میں ملتے تھے۔ وہاں اس کی جاننے والی خواتین اپنے لوزر (نکھٹو) قسم کے رشتہ داروں کو ملازم رکھوا دیتی تھیں، کسی کا شوہر، کسی کا بیٹا، کسی کا بھائی، کسی کا بہنوئی وہاں کباڑ سے دھاتیں اور مختلف اشیا علیحدہ کرتے تھے۔ وہ ان کی نوکری پکی کرنے اور علی اشرف سے ملنے طے شدہ پروگرام کے مطابق پہنچ جاتی تھیں اس کا بہانہ ان کے پاس مزار پر فاتحہ پڑھنے اور منت مانگنے کا ہوتا تھا۔ زیادہ دلیر بیبیاں وہاں ڈیرے یا گھر پر آ جاتی تھیں۔

خواتین کے اس حرم میں اس کی پسندیدہ زرینہ تھی۔ سرو قد، مضبوط بدن، دھیما لہجہ، نیلے سرمئی شیشے کے چراغ جیسی روشن بڑی خوابیدہ آنکھیں۔ زرینہ کا تعلق افغانستان کے علاقے توتا خیل سے تھا جہاں سے اس کا گھرانا پہلے تو کے۔ پی۔ کے۔ میں کرم ایجنسی کے علاقے شبلان آیا اور پھر ذرا قدم جم گئے تو سہراب گوٹھ کراچی میں آباد ہو گیا۔ 12 دسمبر سن 1986 میں جب گورنر جنرل جہاں داد اور چیف منسٹر غوث علی شاہ نے یہاں آباد پختون آبادی کو بے دخل کیا تو یہ گھرانا اٹھ کر لیاری میں آباد ہو گیا۔ یہ گھرانا علی اشرف کا پڑوسی تھا۔ ان کی مہمان داری بہت تھی۔ اس کا پہلا میاں شادی کے ایک ماہ بعد فساد میں مر گیا تو علی اشرف نے اس کے نئے میاں طور خان کو جو اس کے پاس ڈرائیور تھا شادی کے لیے زرینہ کے والد کو پچاس ہزار روپے زرینہ کے ایما پر دیے تھے وہ اس کے پرانے علاقے توتا خیل۔ افغانستان سے تعلق رکھتا تھا۔ عمر میں اس سے پورے پچیس سال بڑے شوہر کو علی اشرف نے جو ایک سوزوکی لے رکھی تھی اس پر ڈرائیور رکھ لیا۔ اس نے یہ سوزوکی سپر ہائی وے اور بھینس کالونی سے پولٹری اور گوشت کے کام کی سپلائی کا کام کرنے پر لگا رکھی تھی۔

بمشکل انیس برس کی زرینہ کو جلد ہی پتہ چل گیا کہ میاں کا جنسی دھیان عورتوں کی طرف نہ ہونے کے برابر ہے۔ باپ کا انتقال ہو گیا تو شبلان سے اس کا بھائی سلیمان اس کے ساتھ رہنے آ گیا۔ اس کو کام دھندے سے پر لگانے کے لیے علی اشرف نے ایک اور سوزوکی کرائے پر لے لی جو اس کے مزدوروں کے ٹھیکیدار سسر کے لیے پورٹ کے مزدوروں اور بعد میں پولٹری سے انڈے لے کر ایمپریس مارکیٹ میں سپلائی کرتی تھی۔ یہ دونوں سالا بہنوئی طور خان اور سلیمان صبح چار بجے گھر سے نکل جاتے تھے۔ دونوں کو ہدایت تھی کہ اپنی ڈیوٹی پر پہنچ کر یہ وہاں متعلقہ افراد سے علی اشرف کی بات کرائیں گے۔ اس کال سے یہ تصدیق ہوجاتی کہ زرینہ کے یہ دونوں رکھوالے مقام واردات سے بہت دور موجود ہیں اور مطلع بالکل صاف ہے۔ اس کے بعد ہی علی اشرف اور زرینہ عشق کی سیڑھیاں ٹاپ و ٹاپ چڑھتے تھے۔ علی اشرف کی ایک سوزوکی تو لیاری میں ہی ماما مجید کے گیراج میں رات کو پارک ہوتی تھی۔ اسے زرینہ کا میاں طور خان چلاتا تھا۔ دوسری سوزوکی جسے زرینہ کا بھائی سلیمان چلاتا تھا۔ وہ بھی لیاری میں میان والی کے خاور زمان خان کے گھر کے اندر کھڑی رہتی تھی۔

صبح سویرے خاور خان کی بیٹی رفیقہ اسے چابی دیتی تو وہ یہ سوزوکی لے کر کام پر چلاجاتا۔

چابی کی اس لین دین میں سلیمان کا رفیقہ سے کچھ معاملہ سیٹ ہو گیا۔ دونوں ہی بے حد خوب صورت تھے۔ سلیمان خان تو بالکل بھارتی اداکار رنبیر کپور لگتا تھا اور آپ رفیقہ کو بھی اس کی کزن کرینہ کپور ہی سمجھ لیں۔

علی اشرف کو اس افیئر کا علم مسجد میں ہوا۔ میاںوالی کے کئی لوگ وہاں مسجد میں آتے تھے۔ رفیقہ کے چچا نے اسے بتایا کہ معاملہ کچھ گڑبڑ ہے۔ اس کا ملازم یعنی زرینہ کا بھائی سلیمان اس کی بھتیجی پر ڈورے ڈال رہا ہے۔ علی اشرف نے پہلو بچایا کہ وہ اس کا ملازم ضرور ہے مگر اس سے زیادہ اس کے معاملات میں وہ کوئی مداخلت کرنے سے قاصر ہے۔ پھر بھی وہ موقع دیکھ کر سلیمان کو ضرور سمجھائے گا۔ خاور خان اگر ناخوش ہے تو وہ سوزوکی کہیں اور کھڑی کر لے گا۔ (جاری ہے)

اقبال دیوان
Latest posts by اقبال دیوان (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

اقبال دیوان

محمد اقبال دیوان نے جوناگڑھ سے آنے والے ایک میمن گھرانے میں آنکھ کھولی۔ نام کی سخن سازی اور کار سرکار سے وابستگی کا دوگونہ بھرم رکھنے کے لیے محمد اقبال نے شہر کے سنگ و خشت سے تعلق جوڑا۔ کچھ طبیعتیں سرکاری منصب کے بوجھ سے گراں بار ہو جاتی ہیں۔ اقبال دیوان نےاس تہمت کا جشن منایا کہ ساری ملازمت رقص بسمل میں گزاری۔ اس سیاحی میں جو کنکر موتی ہاتھ آئے، انہیں چار کتابوں میں سمو دیا۔ افسانوں کا ایک مجموعہ زیر طبع ہے۔ زندگی کو گلے لگا کر جئیے اور رنگ و بو پہ ایک نگہ، جو بظاہر نگاہ سے کم ہے، رکھی۔ تحریر انگریزی اور اردو ادب کا ایک سموچا ہوا لطف دیتی ہے۔ نثر میں رچی ہوئی شوخی کی لٹک ایسی کارگر ہے کہ پڑھنے والا کشاں کشاں محمد اقبال دیوان کی دنیا میں کھنچا چلا جاتا ہے۔

iqbal-diwan has 99 posts and counting.See all posts by iqbal-diwan

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments