ان نصیبوں پر ہوئے اختر شناس…


یاروں نے پی ڈی ایم کے بننے سے جانے کون کون سی توقعات وابستہ کر لی تھیں۔ ہمیں تو پی ڈی ایم سے بھٹو صاحب اور قومی اتحاد ہی یاد آیا۔ بات یہ ہے کہ جب حکومت سیاسی حریفوں کو ریاستی قوت کا جائز و ناجائز استعما ل کر کے جینا دوبھر کر دے تو پھر جان بچانے کے لیے یہ نہیں دیکھا جا سکتا کہ جبر کا شکار دوسرے سیاسی و غیر سیاسی لوگ آپ کے نظریات کے حامی ہیں یا مخالف۔ بھٹو صاحب کے دور میں جان کا خطرہ حقیقی بھی تھا اور یقینی بھی۔ اس دفعہ بھی نیت بالکل واضح ہے۔ لیکن عمل میں بھونڈا پن اور واردات میں جعلسازی مضحکہ خیز حد تک نمایاں ہے۔ جناب نواز شریف تو جان بچا کر لندن جا پہنچے۔ اس طرح انہیں ایک اور لڑائی میں حصہ لینے کا موقع تو مل ہی گیا۔ اگر وہ اپنے ’ووٹ کو عزت دو‘ والے نظریے پر قائم رہتے ہیں تو انتخابات سے پہلے وطن واپسی ان کے ہاتھ میں ترپ کا پتہ ہے۔ لیکن ایک بات ہے۔ عمران خان اور پی ٹی آئی جس فخر سے بیمار نواز شریف کے ہاتھوں احمق بن جانے کا ذکر کرتے ہیں وہ کسی عام آدمی یا جماعت کا کام نہیں۔

پی ڈی ایم پارٹ ون میں سب سے عجیب وغریب سین وہ تھا جہاں مسلم لیگ نواز اور مولانا کا اصرار تھا کہ استعفے پیش کر دیے جائیں۔ جبکہ جناب بلاول کا موقف تھا کہ کیسے استعفے، کون سے استعفے، کہاں کے استعفے اور سب سے بڑھ کر کیوں استعفے! مزے کی بات یہ تھی اور ہے کہ جس مسلم لیگ کے ڈھیر سارے لیڈران کرام 1985میں پی پی پی کے انتخابی بائیکاٹ کی وجہ سے آج اس مقام پر ہیں ان کا بھی یہی مطالبہ تھا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پی پی پی نے تو 85 کے بائیکاٹ سے سبق سیکھ لیا ہے کہ انتخابی میدان خالی نہیں چھوڑنا۔ لیکن میاں نواز شریف کا دل

بار بار بائیکاٹ مانگتا ہے۔ 2008 میں بھی جناب آصف زرداری نے بالآخر میاں صاحب کو سمجھا لیا تھا۔ تاہم پی پی پی خصوصاً جناب آصف زرداری کچی گولیاں کھیل کے بڑے نہیں ہوئے۔ سینیٹ، قومی اسمبلی بالخصوص سندھ کو اس طرح اپنے ہاتھوں سے مقتدرہ کے حوالے کر دینا؟ بات سمجھ نہیں آئی! جو کچھ آپ کرنا چاہتے ہیں، از قسم احتجاج وغیرہ؛ تو بغیر استعفیٰ دیے کون سا کام بند ہے؟

کسی بھی احتجاجی تحریک کو چلانے کے لیے نظریہ، استقامت اور دھن کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن جان پڑتی ہے رہنما اور کارکن کی جسمانی شراکت سے۔ اور اس شعبے میں مسلم لیگ نواز اور موجودہ پی پی پی دونوں فارغ ہیں۔ پی پی پی کے جیالے بی بی شہید کے زمانے سے کچرا، کچرا محسوس ہو رہے تھے۔ زیادہ مر گئے اور جو زندہ ہیں، ان کی زندگی بھی کوئی زندگی ہے للو۔ مسلم لیگ کے لیے تو اور بھی حیرت کی بات ہے کہ موقع پرستوں کی برانڈڈ جماعت ایک ایسی سیاسی اکائی میں تبدیل ہو گئی جس کے ارکان کو توڑنے میں مقتدرہ کو بنیادی طور پر ناکامی ہوئی۔

بلکہ پی ڈی ایم کی وجہ سے زرداری صاحب کو ایک ایسا پلیٹ فارم مل گیا جس کی بنیاد پر وہ بہتر بھاؤ تاؤ کر سکتے تھے۔ حالانکہ بازار میں خدمات فروخت کرنے والے وہ اکیلے نہیں تھے۔ نون لیگ نے بھی دل و جان سے، نظریں جھکا کر، آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے بہانے اپنا آپ پیش کیا تھا۔ تاہم سرکار برطانیہ اور اس کے جانشین، سرکشوں کو معاف نہیں کیا کرتے۔ مولانا فضل الرحمان کو مجاہد جمہوریت بنانے کے لیے جس اعلیٰ ظرفی کی ضرورت ہے وہ ہم میں نہیں پائی جاتی۔ مولانا، پی ڈی ایم کے بہانے اپنے سیاسی قد کاٹھ میں اضافہ چاہتے ہیں۔ کچھ جذباتی لوگوں نے تو انہیں صف اول کے رہنماؤں میں شامل بھی کر لیا تھا۔ تو پیارے بڑو، جب یہ امر واضح ہو گیا کہ کٹھ پتلی نری کٹھ پتلی ہی ہے تو پھر ووٹ کو بے عزت کرنے کا سب سے آسان طریقہ کیا رہ جاتا ہے ؟ موجودہ سیٹ اپ۔ یعنی حاضر ہائبرڈ سسٹم۔ اس میں مقتدرہ کو وہ مزے میسر ہیں، جس کے پرانے آمر محض خواب ہی دیکھتے رہے ہیں۔ وہ جو زید، بکر سے بڑا تنگ ہے؛ والی کہانی ہے۔ وہ بس کہانی ہی ہے۔

اس کہانی کے چکر میں مقتدرہ والے اپنی طرف سے پی پی پی کو چکر دے کر چیزے لے رہے ہیں۔ اسی لیے تو وعدے پورے نہیں ہورہے۔ البتہ مقتدرہ کے پاس اب ایک بی ٹیم بھی موجود ہے۔ جناب بلاول بھٹو کے پوسٹر کے ساتھ۔ جناب آصف زرداری نے 2013 کے انتخابات سے پہلے حساب لگایا تھا کہ پی ٹی آئی مسلم لیگ نون کے ووٹ کاٹے گی۔ اپنی کارکردگی پر کبھی پی پی پی کی نظرگئی ہی نہیں۔ پی پی پی کے آخری دور میں ادویات کی مانگ میں بھی کمی ہو گئی تھی۔ جس کو غیر لچکدار طلب میں شمار کیا جاتا ہے۔ چنانچہ نتیجہ وہ نہیں نکلا جو اس حساب سے بنتا تھا۔ 2018 سے بہت پہلے جناب زرداری نے یہ حساب لگا لیا تھا کہ نواز شریف کو نکالنے کے بعد، مستقل سیاست سے باہر رکھنے کے لیے مقتدرہ کوپی پی پی کی ضرورت ہو گی۔ (اگرچہ مقتدرہ نے اس دفعہ شرم و حجاب کو بالائے طاق رکھ کر ایک کٹھ پتلی کو تن من دھن اور آن بان شان کی بازی لگا کر سنگھاسن پر بٹھا تو دیا ہے)۔ نواز شریف اور آصف زرداری دونوں کوسیاست سے باہر رکھنے کے لیے۔

یہ اصل منصوبہ تھا۔ لیکن اب زرداری صاحب کا حساب کتاب ٹھیک لگتا ہے۔ جناب ثنا اللہ زہری کی پی پی پی میں شمولیت بادشاہ گروں کی بدلی سوچ ہی کا ایک اشارہ ہے۔

تاہم سابق صدر کا کھیل اس سے بڑا ہے۔ پی پی پی کے سندھ تک محدود ہو جانے کے بعد بھی جناب بلاول کو وزیر اعظم بنانے کا خواب دیکھنا: یہ زرداری صاحب کے کھلاڑیوں کا کھلاڑی ہونے کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔ جبکہ مقتدرہ اس وقت یہ سوچ کر مزے میں ہے کہ تمام گھوڑے اس کے اپنے ہیں۔

اس رچے رچائے اور جمے جمائے کھیل کو صرف ایک شخص الٹ پلٹ کر سکتا ہے۔ ٹھیک وقت پر پاکستان واپسی والا نواز شریف۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments