دنیا کی نئی سیاسی تقسیم۔ ایک نیا موقعہ


نائن الیون جہاں بہت سے ممالک کے لیے ایک زحمت اور عذاب کی صورت ثابت ہوا وہیں پہ بہت سے ممالک کے لیے نعمت بھی ثابت ہوا۔ یہ واقعہ جھوٹا تھا یا سچا اس سے قطع نظر اگر اس کے اثرات پہ نظر ڈالی جائے تو بہت سے ممالک اس کے باعث نیچے گرے اور بہت سے ممالک اوپر اٹھے۔ بہت سے ممالک کے لیے یہ ایک کٹھن امتحان اور بہت سے ممالک کے لیے یہ ایک نادر موقعہ ثابت ہوا۔

افغانستان، عراق اور لیبیا براہ راست امریکی غضب کا نشانہ بنے۔ جہاں پہ ناصرف ایک طویل عرصے سے قائم حکومتیں اپنے اختتام کو پہنچیں وہیں پہ خانہ جنگی کی صورت میں ایک نئی لڑائی کی ابتدا بھی ہوئی۔ عراق اور لیبیا طویل پابندیوں کے باوجود اپنے تیل کی دولت کے باعث ملک میں قائم جدید انفراسٹرکچر قائم کرنے میں کامیاب ہوئے تھے لیکن اس جنگ میں ہر طرح کا انفراسٹرکچر تباہ ہو گیا اور انسانی جانوں کا نقصان اس کے علاوہ تھا۔ امریکی مہم کے دوران شام اور پاکستان میں خانہ جنگی کے باعث وہاں پہ اگرچہ حکومتی تبدیلیاں تو نہیں آئیں لیکن ان معیشت کے بیٹھ جانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی۔

امریکہ نے اپنے انخلا کے وقت جب سو دو زیاں کا گوشوارہ بنایا تو اپنے حصے میں صرف خسارہ ہی خسارہ پایا۔ کیونکہ گزشتہ 20 سالوں میں امریکی جنگی جنون میں امریکہ اپنے اسلحہ کو کامیابی سے ٹیسٹ کرنے اور دنیا کے سامنے نمائش میں تو کامیاب ہو گیا اور اس سے اسے دنیا کو اپنا اسلحہ بیچنے میں کامیابی بھی مل گئی لیکن اس جنگ کے نتیجے میں بھاری معاشی بوجھ کے باعث امریکہ اندورنی طور پہ بہت بکھر گیا۔ معاشی خوشحالی کے باعث بہت سی چیزوں پہ پردہ تھا جو کہ آہستہ آہستہ سرکنا شروع ہوا۔ سب سے بڑا امریکی نقصان امریکی بالادستی کو ہوا۔ سرد جنگ کے خاتمے اور سویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد امریکہ دنیا کی واحد سپر پاور تھا لیکن نائن الیون کے بعد کی امریکی حکمت عملی نے یہ صورت حال بھی یکسر تبدیل کردی ہے۔

امریکی جنگی مہم کا فائدہ بھی بہت سے ممالک نے اٹھایا۔ نوے کی دہائی میں روس شدید معاشی اور سیاسی بحران کا شکار تھا۔ گوربا چوف کے بعد بننے والے صدر بورس یلسن آئے روز حکومتیں توڑتے اور نئی بناتے۔ لیکن امریکی توجہ اور وسائل کے افغان جنگ میں لگ جانے کے باعث روس امریکہ کی ترجیح نہ رہا۔ اور بیس سالوں میں ولادی میر پوتین کی قیادت میں روس سیاسی اور معاشی اعتبار سے بہت زیادہ مستحکم حالت میں امریکی مخالف کیمپ کا رکن بن چکا ہے۔

اگر بیس سال پہلے کے چین کو بھی دیکھا جائے تو آج کے مقابلے میں وہ بھی بہت پیچھے تھا۔ اس نے بھی خاموشی سے بڑھتے رہو اور کسی کو مشتعل نہ کرو کی پالیسی اختیار کی۔ امریکہ وار آن ٹیرر میں اپنی مصروفیات کے باعث اسے روک نہ سکا۔ اب امریکہ کو سب سے زیادہ خطرہ اسی چین سے ہے۔ جس نے انہی بیس سالوں میں مشرق سے مغرب تک اپنا ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کے تحت پوری دنیا کو اپنی معاشی لپیٹ میں لے لیا۔ یہاں تک کہ خود امریکہ بھی چین کی بہت بڑی منڈی کے طور پہ سامنے آیا۔ لیکن امریکی توجہ اپنے جنگی عزائم پہ تھی اور اس بات کا ادراک ہوتے ہوتے پانی سر سے گزر چکا تھا۔ معاملہ یہاں تک پہنچ گیا کہ اس کے اپنے ہی اتحادی اسے دنیا کی اکلوتی سپر پاور تسلیم کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہیں۔

دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان نے امریکی اتحاد میں خود کو ضم کیا تو اپنا سارا دھیان مغربی بارڈر پہ لگا دیا۔ مشرقی بارڈر پہ بھارت میں 2004 میں کانگریس نے اتحاد سے حکومت بنائی تو سونیا گاندھی نے وزارت عظمیٰ کی ذمہ داری لینے سے انکار کر دیا تو یہ کرہ ڈاکٹر من موہن سنگھ کے نام نکل آیا۔ وہ ایک ماہر اور تجربہ کار اکانومسٹ ہیں۔ انہوں نے پاک بھارت بارڈر پہ سکون کا فائدہ اٹھایا اور اپنے ہاں بہت سی معاشی اصلاحات کیں۔

جس کے باعث جب وہ دس سال کے بعد گھر گئے تو 2014 میں انڈیا کا جی۔ ڈی۔ پی گروتھ ریٹ سات اعشاریہ پانچ کی بلند ترین سطح کو چھو رہا تھا۔ انڈیا نے اس دوران پاکستان کے ساتھ بیک ڈاؤ ڈپلومیسی کی مد میں تعلقات کو بہتر بنانے کی حکمت عملی اختیار کی۔ پاکستان نے اس دورانیے میں کشمیر میں سر گرم تنظیموں کی حمایت سے ہاتھ کھینچ لیا اور بدلے میں بلوچستان میں بھی بھارتی مداخلت میں کمی کے اشارے دیکھنے کو ملے۔ لیکن پاکستان کی دہشت گردی کی جنگ میں مصروفیت کے باعث انڈیا نے اس دورانیے کو اپنے لیے ایک غنیمت کے طور پہ لیا اور اپنی معیشت کو سیدھا کر لیا۔

یہ فہرست بہت لمبی مرتب کی جا سکتی ہے۔ لیکن اگر ہم غور کریں کہ جن ممالک کے لیے یہ موقعہ ایک عذاب کی صورت ثابت ہوا ان میں ایک قدر مشترک تھی۔ ان کی لیڈر شپ نے اپنی رعونت ظاہری طاقت کے باعث حالات کا صحیح سے ادراک نہیں کیا۔ افغانستان عراق اور لیبیا نے موقعہ کی نزاکت کو سمجھنے میں غلطی کی اور امریکی طاقت نے انہیں دھول چٹا دی۔ لیکن جن ممالک کے لیے یہ موقعہ ایک اپرچیونٹی کے طور پہ سامنے آیا ان میں بھی ایک قدر مشترک ہے۔

کہ اس وقت ان ملکوں کی قیادت سلجھی ہوئی لیڈر شپ کے ہاتھ میں تھی۔ روس کے صدر ولادی میر پوتن نے اس موقعہ کو امریکہ سے پچھلی روس افغان جنگ کا بدلہ لینے کا موقعہ نہیں سمجھا بلکہ آہنی حالات کا صحیح اندازہ کیا اور اپنی سیاسی اور معاشی طاقت کو بڑھانے کی پالیسی اپنائی۔ چین کی ہمسائیگی میں امریکہ دنیا کی خطر ناک جنگ لے کر آ گیا تھا اس نے بھی اس سے مشتعل ہونے یا اس جنگ میں کودنے کی غلطی کرنے کی بجائے ناک کی سیدھ میں چلنے کی حکمت عملی اپنائی۔

چینی صدر شی۔ جن پنگ کی یہ حکمت عملی بھی درست ثابت ہوئی۔ انڈیا کے پاس بھی بہت بڑا موقعہ تھا کہ جن دنوں میں ٹی۔ ٹی۔ پی پاکستان کے طول و عرض میں خود کش بم دھماکے کر کے پاکستان کو نڈھال کر رکھا تھا انڈیا اپنے مغربی بارڈر پہ جنگ کی صورت میں پاکستان کے لیے دوہری مشکل کھڑی کر سکتا تھا لیکن اس کی من موہن سنگھ حکومت نے اس کی طرف جانے بجائے معیشت پہ ہی دھیان دیا۔

دنیا میں ایک مرتبہ پھر عالمی طاقتوں مابین حالات بگڑنے کی سمت میں جا رہے ہیں۔ حالیہ جی۔ 7 کے اجلاس میں امریکہ چین کی طرز پہ دنیا کو ون۔ بیلٹ ون روڈ منصوبے کے مقابلے میں بڑا منصوبہ آفر کرنے کی تیاری کر رہا ہے۔ یہ ایک موقعہ پھر سے دنیا کے ممالک کو ایک امتحان میں بھی مبتلا کر سکتا ہے اور بہت سے ممالک کے لیے ایک موقعہ غنیمت بھی بن سکتا۔ پاکستان چینی منصوبے کا پہلے سے ہی حصہ ہے اور سی پیک اپنے تکمیل کے مراحل میں ہے۔

امریکہ یقیناً پاکستان کو اپنے منصوبے میں شمولیت کے لیے دعوت بھی دے گا۔ اب بھی وہ ہی قومیں اس موقعہ غنیمت سے فائدہ اٹھا سکیں گی جن کی قیادت سلجھی ہوئی، دور اندیش اور حقیقت پسندانہ ہو گی۔ جن ملکوں نے سستی جذباتیت، وقتی عوامی مقبولیت اور بغیر منصوبہ بندی کے تحت کام کیا ان کے لیے یہ موقعہ ایک نئے عذاب کی صورت ثابت ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments