قدرتی موسم کی تبدیلی کے ساتھ ملکی سیاسی موسم بھی تبدیل ہو رہا ہے گزرے ہوئے تین ماہ کی شدید گرمی اور حبس کے جاتے ہی سیاسی میدان دوبارہ سے سجنے شروع ہو گئے ہیں ہمارے سیاسی رہنما میدان سیاست میں زور آزمائی کے لیے ہلکی پھلکی ورزش میں مصروف ہیں عوام کے لیے اطلاع ہے کہ یہ معزز طبقہ اگلے چھ ماہ تک عوام پر شدت کے ساتھ مسلط رہے گا سیاست کے یہ مہرے عوام کو مختلف پیکج دیں گے ان میں ڈرائنگ روم کی سیاست سے لے کر کارنر میٹنگ خصوصی اجلاس سربراہی اجلاس کور کمیٹی اجلاس کارنر میٹنگ ریلیاں جماعتوں کے انفرادی جلسے اور لانگ مارچ جیسے کئی نام شامل ہوں گئے اور ان میلوں میں عوام کو حکومت جانے کی تاریخ کے ساتھ مہنگائی بیروز گاری عوام کے خواب ٹوٹنے کی ذمہ دار حکومت جیسے شعبدہ بازی کے فقرے سننے کو ملیں گے۔

پاکستان کی سیاسی تاریخ میں سیاسی جماعتیں ایسے ہی پروگرام ترتیب دیتی ہیں عوام کو یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ ہمارے لیڈر موسم کا بہت خیال رکھتے ہیں ان کو کسی خاص جاندار کے ساتھ تشبیہ دینا تو مناسب نہیں لیکن اتنا کہنے میں کوئی ہرج نہیں کہ ہمارے رہنما موسمی ہیں جب موسم سخت ہوتا ہے تو یہ صرف مزدور کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے مزدوری دینے کا بیان جاری کرنے پر اکتفا کرتے ہیں مزدور بھوکا تڑپتا رہے یہ اس کے ارمان یا خواہش پر میدان میں نہیں اترتے بلکہ ائر کنڈیشنڈ گاڑیوں اور ٹھنڈے کمروں میں بیٹھ کر ٹی وی چینلز پر لائیو شو میں حصہ لیتے ہوں عوام کو تاثر دیتے ہیں کہ وہ عوامی مسائل پر خون کے آنسو رو رہے ہیں یہ کیسا مذاق ہے کہ بات مزدور کی کرنی ہے اور خود کو پسینہ بھی نہیں آنے دینا۔

بات سیاسی جماعتوں کے عوام کے ساتھ رابطوں کی ہو رہی ہے موسم میں گرمی کی شدت کم ہوتے ہی اگست کے اخری ہفتے پہلے پیپلز پارٹی پھر سیاسی اتحاد نے جلسوں کا آغاز کیا اور رواں ماہ جیسے ست مگر بھی کہا جاتا ہے وہ عوام پر مہنگائی کا ستم ڈھا کر جا رہا ہے مہنگائی نے ڈالر کے ساتھ بلند ترین سطح کو چھو لیا عوام اپنی حالت زار کا رونا روتے رہے اور ٹی وی اسکرین عوام کی اہ و بکا کے ساتھ چلتی رہیں لیکن سیاسی جماعتیں مہنگائی میں پسے ہوئے عوام کی آواز نہ بن سکیں اور صرف روایتی بیانات پر اکتفا کیا۔

اب نومبر میں چیرمین نیب کی تعیناتی کا مسئلہ چلے گا اپوزیشن شور مچائے گی لیکن چیرمین جو بھی ہو حکومت کسی نہ کسی کو نامزد کر دے گی اپوزیشن شور مچاتی رہ جائے گی اور عوام مہنگائی مہنگائی کرتے رہیں گے۔ اسی شور میں دسمبر کی امد ہوگی تو سیاسی اتحاد کے لانگ مارچ کی چاپ سنائی دے گی اور سیاسی اتحاد کی کچھ جماعتیں حکومت کے جانے اور کچھ شفاف الیکشن کے نعرے لگائیں گی اور اس موقع پر حکومت عوام کو مہنگائی کم ہونے کی نوید سنائے گی حکومت کی جانب سے اپوزیشن کی چوریاں جو کہ وقت گزرنے کے ساتھ صرف نعرے تک محدود ہوتی جا رہی ہے۔

کرپشن کیس تفتیشی اداروں اور عدالتوں کے چکر لگانے تک محدود ہیں جن کو سزا ملی وہ بھی سکون سے سیر سپاٹے کر رہے ہیں، دسمبر کے گزرتے ہی مارچ کا شور سنائی دے گا یہ لانگ مارچ نہیں مارچ کے مہینے میں تبدیلی کا اعلان کیا جائے گا سیاسی جماعتیں جنوری میں شدید سردی کے باعث کچھ دن ارام کرنے کے بعد مارچ کی تیاری کریں گی اب دیکھنا ہو گا کہ یہ لانگ مارچ ہے یا کوئی اور مارچ۔ اب سوچنے کی بات ہے کہ اس دوران حکومت کیا حکمت عملی اختیار کرے گی تو حکومت اپوزیشن کو جواب دینے صرف پریس کانفرنس کرے گی اور ایک بار پھر عوام اس انتظار میں رہیں گے کہ کوئی ان کی دہلیز پر آ کر بھی پوچھے کہ کیسی گزر رہی ہے۔

یہ وہ خواب ہے جو عوام قیام پاکستان کے بعد سے اب تک کھلی انکھوں کے ساتھ دیکھ رہے ہیں یہ ایک ایسا ڈراونا خواب ہے جسے نہ عوام دیکھنے سے باز آتے ہیں اور نہ ہی سیاسی جماعتیں ایسے خواب عوام کو دکھانے میں شرمندگی محسوس کرتی ہیں۔ خیر مارچ کے بعد موسم پھر سے تبدیلی کی طرف دیکھے گا اور سیاست کے کھلاڑی بھی اپنے ارادے تبدیل کرتے نظر آئیں گے اپوزیشن کی کوشش ہو گی کہ بہار کے موسم میں ہی خزاں کا سما پیدا کریں اور بدلتی رتوں میں اپنا راگ الاپتے رہیں۔

ملکی سیاست کے اس پروگرام کو بتانے کا مقصد صرف اتنا تھا کہ عوام حکومت یا اپوزیشن کی باتوں کو دل پر نہ لیں یہ ڈگڈگی بجاتے رہیں گے اور یہ ہر سال اسی طرح پرانی فلم کو نئے ڈبوں میں ڈال کر عوام کے سامنے پیش کریں گے ان کے پاس ایسا کوئی پروگرام نہیں جس سے ملک کی حالت بدل سکے۔ ان حالات میں عوام کو اگر کچھ کرنا ہے تو وہ ان آزمودہ کھلاڑیوں کی فلمیں دیکھنے کی بجائے خود اپنی تقدیر بدلنے کی کوشش کریں اگر اسی طرح گھروں میں بیٹھ کر اچھے وقت کا انتظار کرتے رہے تو کچھ حاصل نہیں ہو گا یہ لیڈر ہر سال تماشا لگائیں گے اور عوام صرف تماشائی بنے رہے تو اپنی آنے والی نسلوں کی تباہی کا سامان پیدا کریں گے۔

تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ عوام بیدار ہوں تو ان کے سامنے تقریر کرتا ہوا لیڈر عوامی جذبات کی ترجمانی کرتا ہے اور اگر عوام صرف کسی کی شکل دیکھنے جایں تو حقائق کو پس پشت ڈال کر اپنے جذبات کا ہی اظہار کرتا ہے ایسے جذبات میں لیڈر کو اپنا مفاد زیادہ عزیز ہوتا ہے اور وہ عوام کے جذبات کی عکاسی نہیں کرتا اس لیے عوام ہوشیار باش ہو جایں ان کو کسی بھی وقت حکومت یا اپوزیشن کی جانب سے آواز پڑ سکتی ہے ان کے کی طرف دوڑنے کی کوشش میں کسی گہری کھائی میں گرنے سے بہتر ہے کہ اپنے مسائل کے حل کے لیے متحد ہوں اور ان موسمی لیڈروں کو جھنڈی دکھا دیں کیونکہ دنیا موسمیاتی تبدیلیوں کی زد میں ہے