دانائی کا سفر


یہ امر لائق تحسین ہے کہ ڈاکٹر خالد سہیل اور ڈاکٹر بلند اقبال نے قریب ایک سو کتابوں کا مطالعہ کر کے کینیڈا کے ایک ٹی وی چینل پر چھتیس اقساط پر مشتمل ایک میراتھن علمی مکالمہ کیا۔ اس مکالمے میں، گزشتہ تین ہزار برس میں علم و دانش کے ارتقاء پر سیر حاصل بات کی گئی۔ عبدالستار صاحب نے اس مکالمے کو سنا، سمجھا اور اس کی تدوین و ترتیب کر ڈالی۔ اس کتاب کو سانجھ پبلشرز لاہور نے حال ہی میں شائع کیا ہے۔

ڈاکٹر بلند اقبال سے میری بالمشافہ ملاقات تو نہیں۔ مگر میں نے ان سرچ آف وزڈم کے ذریعے یو ٹیوب پر کم از کم چھتیس دفعہ ان سے ملاقات کی اور ہر دفعہ ان کو ایک کمٹڈ ریسرچر کے طور پر دیکھا۔ انھوں نے دراصل اس ڈائیلاگ میں ایک سٹیمولس کا کردار ادا کیا۔

عبدالستار صاحب نے ایک علمی مکالمے کا ایک ایک لفظ اپنے قلم سے صفحہ قرطاس پر منتقل کیا۔ یہ کوئی آسان کام نہ تھا۔ یہ اس مشقت کا نتیجہ ہے کہ سو کتابوں کا نچوڑ جو ویڈیو پروگرام کی شکل میں تھا۔ ان کی دن رات محنت کے بعد آج ایک مستند کتاب۔ دانائی کا سفر۔ کی صورت ہمارے سامنے موجود ہے۔

دانائی کسی ایک معاشرے، قبیلے یا قوم تک محدود نہیں۔ یہ انسانیت کا مشترکہ اثاثہ ہے۔ ایک کلیکٹو وزڈم ہے۔ سدا بہتا ہوا دریا ہے جس سے ہر وقت ہر علاقے اور رنگ و نسل کے لوگ مستفید ہو سکتے ہیں۔ یوں دانائی کا سفر نامی یہ کتاب بھی ایک ایسا تاریخی کام ہے۔ جس سے نہ صرف تاریخ اور فلسفے کے طالب علم بلکہ مستقبل کے منصوبہ ساز بھی صدیوں تک مستفید ہوں گے ۔ میں اس تاریخ ساز کاوش پر تینوں افراد کو مبارک باد پیش کرتا ہوں۔

زندگی کی حقیقت کیا ہے؟ سچ کیا ہے؟ اور دانائی کس کو کہتے ہیں؟ انسان دکھوں میں مبتلا کیوں رہتے ہیں، اور وہ اپنے دکھوں کو سکھوں میں کیسے بدل سکتے ہیں۔ انسانوں کو دھرتی ماں کی اولاد ہونے کے ناتے ایسا کیا کرنا چاہیے کہ کہ کرہ ارض پرامن آشتی اور خوشحالی کا دور دورہ ہو جائے؟

یہ وہ سوالات ہیں جو انسان کے دماغ میں اس وقت سے جاگزین ہیں جب سے انسان باشعور ہوا ہے۔ اور یہی سوالات دانائی کے اس طویل سفر کی بنیاد بھی ہیں۔

جب ہم انسانی شعور کے ارتقا کا گہری نظر سے جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں چار باتیں بہت نمایاں نظر آتی ہیں :۔

1۔ پرانے نظریات رواج اور روایات کو چھوڑ کر نئے نظریات اور روشن راہوں پر چلنا انسان کے لیے ہمیشہ سے دشوار رہا ہے۔

2۔ شعور کے ارتقائی عمل میں سائنس اور فلسفے کا کردار بہت نمایاں رہا ہے۔

3۔ کائنات کے اندر ہمیں جو قدرتی نظم نظر آتا ہے وہ دراصل قوانین فطرت ہیں۔ مگر کائنات کا نظام اس بات سے بے نیاز ہے کہ کرہ ارض کے باسیوں پر کیا بیت رہی ہے۔ ازل سے ہی دھرتی ماں کی اولاد نے فطرت کے بے رحم تھپیڑوں کے سامنے خود اپنا تحفظ کیا۔ اور اپنی بقاء کی جنگ لڑی اس بقاء کی ضرورت کے احساس سے سارا ارتقائی عمل روح پذیر ہوا۔

4۔ گزشتہ دو تین سو سالوں میں شعوری ارتقاء کی رفتار سب سے زیادہ دیکھی گئی۔
اب اگر ہم دانائی کے سفر کو وقت کے پیمانے پر دیکھیں تو ہمیں تین بڑے ادوار نظر آتے ہیں :

پہلا دور ایک ہزار سال قبل مسیح سے حضرت عیسی کی پیدائش تک کا دور ہے۔ اور اسی پہلے دور میں دانائی کی چار روایات کا بھی پتہ ملتا ہے۔ جن کا ذکر زیر نظر کتاب میں بہت تفصیل سے درج ہے۔

دانائی کی پہلی روایت سیکولر روایت ہے اس روایت کا بانی چینی دانشور کنفیوشیس کو سمجھا جاتا ہے۔ چین کی اکثر آبادی آج بھی کنفیوشیس کے بتائے گئے اصولقں پر کاربند ہے۔ مگر کنفیوشیس نے کبھی خدا، جنت، دوزخ یا حیات بعد الموت کی بات نہیں کی بلکہ یہ تعلیم دی کہ آپ دوسروں کے ساتھ ویسا ہی سلوک کریں جو آپ چاہتے کہ دوسرے آپ کے ساتھ کریں۔ لیڈر شپ کے بارے میں انھوں نے بتایا کہ ایک قابل رہنما کو ثابت قدم ہونا چاہیے کیونکہ اس کے کندھوں پر ذمہ داریوں کا بوجھ ہوتا ہے اور اس نے دور تک جانا ہوتا ہے۔ سیکولر روایت چین اور پھر باقی دنیا میں آج بھی تیزی سے پھیل رہی ہے۔

دانائی کی دوسری روایت روحانی روایت کا اس کا تعلق بدھا اور مہاویرہ سے ہے۔ اس روایت کو روحانی روایت کا نام دیا گیا ہے۔ اس فلسفے کے مطابق آپ اپنی زندگی کو ترک کر کے جنگلوں میں جا کر اپنی ذات کی تنہائی میں اتر جائیں اور زندگی کا گیان حاصل کریں اسی روایت کے تحت سنت، سادھو اور صوفی پیدا ہوئے۔ بظاہر اس روایت میں کوئی دانائی نظر نہیں آتی کیونکہ دنیا کے سارے انسان اگر دنیا سے کنارہ کشی کا رویہ اپنا لیں تو شعوری ترقی اور تنوع کا سفر بھی رک جائے گا۔

لیکن اسی بات کو ذرا غور سے دیکھا جائے تو ہمیں یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ روحانیت دراصل باہر سے اندر کا سفر ہے۔ اگر اندرونی سکون حاصل ہو جائے تو دنیا کے بیچ میں رہ کر بھی انسان ایک خوشگوار اور با معنی زندگی گزار سکتا ہے۔ اور پھر گوتم بدھ نے جو چار سچ بتائے اور اس کے بعد جو آٹھ نوبل پاتھ ویز بتائے وہ دنیا اور اس میں بسنے والے لوگوں سے کنارہ کش ہو کر عملی صورت اختیار نہیں کر سکتے۔ لہذا روحانیت اصل میں دنیا کے اندر ہی رہ کر اقبال کے بقول اپنے من میں ڈوب کر سراغ زندگی پانے کا سفر ہے جو یقیناً بہت بڑی دانائی کی بات ہے۔

دانائی کی تیسری روایت مذہبی روایت ہے اس روایت کا سرا ذرتشت سے منسوب ہے۔ جو ایران کے شہر ”یزد“ میں سن 628 ء قبل مسیح میں پیدا ہوئے۔ ذرتشت نے سب سے پہلے خدا، وحی، جنت دوزخ نیکی بدی اور حیات بعد الموت کا تصور پیش کیا۔ اور اپنی الہامی کتاب گاتھاز پیش کی۔ بعد از یہ سلسلہ ابراہیمی مذاہب یہودیت، عیسائیت اور اسلام میں چلتا دکھائی دیتا ہے۔

مگر ذرتشت وہ پہلا فلسفی تھا جس نے کہا تھا کہ ایک خدا آہورا مزدا کی صورت میں موجود ہے۔ اسی فلسفے نے پہلی دفعہ نیکی اور بدی کے تصورات بھی دیے اور انسان کو دونوں راستوں کو چننے کی آزادی بھی دی۔

دانائی کی چوتھی روایت سائنسی روایت ہے جو پانچ چھ سو سال قبل مسیح میں یونان سے شروع ہوتی ہے۔ اور انسانی شعور کے ارتقاء میں سب سے اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اس میں افلاطون، سقراط، بقراط اور ارسطو پیدا ہوتے ہیں۔ جن کی تحقیقات اور تعلیمات نے آنے والی صدیوں میں انسانی زندگی میں فلسفے، طب، ریاضی، سیاست اور معاشیات میں انقلاب برپا کر دیے تھے۔

دانائی کا ہزار سالہ دوسرا بڑا دور حضرت عیسی کی وفات سے ایک ہزار سال بعد تک کا ہے اس دور میں ابراہیمی مذاہب کو خوب فروغ ملا۔ مسلم تہذیب کو عروج ملا اس کے ساتھ ساتھ فلسفے، سائنس، ریاضی اور طب نے گو نا گوں ترقی کی۔

اسی دور میں مسلم تہذیب کا سائنسی عروج جس کو مسلم گولڈن ایج بھی کہا جاتا ہے۔ آٹھویں صدی سے شروع ہوتا ہے مگر چلتے چلتے تیرہویں صدی عیسوی تک جا پہنچتا ہے۔ اس پانچ سو سالہ دور میں مسلم تہذیب جو اس وقت عباسی خلافت کی شکل میں رونما ہوئی علمی و ثقافتی عروج حاصل کیا۔ اسی دور نے الکندی، الرازی۔ الفارابی، بوعلی سینا، غزالی، ابن رشد، ابن تیمیہ سید قطب اور جلالاالدین رومی جیسے روحانی گرو علماء عظیم سائنسدان اور فلسفی پیدا کئیے۔

بالآخر یہ دور باہ سو اٹھاون میں تاراج بغداد پر جا کر اختتام پذیر ہوتا ہے۔ منگولوں کا حملہ مسلمانوں کے علمی اور تحقیقی ورثے کو نیست و نابود کر دیتا ہے۔ اور دریائے دجلہ کتابوں کی سیاہی سے بالکل سیاہ ہو جاتا ہے۔

دانائی کے ارتقائی سفر کا تیسرا دور گزشتہ ایک ہزار سے ذرا اوپر عرصے پر محیط ہے۔ اس دور میں یورپ کے اندر رینے سانس اور صنعتی انقلاب نے ارتقائی عمل کو نئے زاویئے دیے صدیوں پرانی روایات اور توہم پرستی چکنا چور ہوئی انقلاب فرانس، انقلاب روس اور امریکہ کی آزادی کی تحاریک نے اس عمل کو مزید تیز تر کیا۔ لہذا ہم کہہ سکتے کہ انسانی کے شعوری ارتقاء کے اور دانائی کے سفر میں گزشتہ ایک ہزار سال سب سے زیادہ ہنگامہ خیز ہیں۔

یہاں یہ بات میرے لئے بہت حیران کن اور دلچسپ تھی کہ صنعتی انقلاب کے فوراً بعد یعنی انیسویں صدی کی آخری نصف حصے نے دنیا میں عظیم سیاسی لیڈر، ادیب، فلاسفر، شاعر پیدا کیے جو دنیا میں سیاسی معاشی معاشرتی اور علمی انقلاب برپا کرتے نظر آتے ہیں جو شعوری ارتقاء کو نئی منزلوں تک لے جاتے ہیں اور دنیا میں بڑی بڑی تبدیلیوں کا باعث بنتے ہیں :

سیاست کے میدان میں ابراہم لنکن، ولادے میر لینن، جوزف سٹالن، ماوزے تنگ، مسولینی، ونسٹن چرچل، نیلسن مینڈیلا مصطفی کمال پاشا، محمد علی جناح اور موہن داس گاندھی جیسے نابغہ روزگار صرف چند نام ہیں۔

سائنس کے میدان میں چارلس ڈارون، البرٹ آئن سٹائن، میری کیوری، نیکولا ٹیسلا۔ ایک طویل فہرست میں سے چند نمایاں نام ہیں

معاشیات، نفسیات اور فلسفے کے میدان میں کارل مارکس، فریڈرک نطشے، ژان پال سارتر سگمنڈ فرائڈ، کارل ینگ اور برٹرینڈ رسل جیسے عظیم اذہان شامل ہیں۔ جنھوں نہ صرف سائنس بلکہ انسانی طرز فکر کو بالکل نئے زاویوں سے آشنا کیا۔

یہ ایک تحقیق طلب بات ہے کہ انیسویں کی آخری نصف صدی کے بیچ فطرت نے عظیم ذہن پیدا کئیے اور ان پچاس سالوں میں بھی ستر کی دہائی بہت اہم ہے۔ جن میں پیدا ہونے والے ادیبوں شاعروں سائنسدانوں فلسفیوں اور سیاسی لیڈروں کی کثیر تعداد ہے جس پر ایک دلچسپ پیپر لکھا جا سکتا ہے۔

مگر یہاں ایک لمحہ فکریہ ہے۔ آج سائنس، میڈیکل سائنس اور ٹیکنالوجی اپنے عروج پر ہے۔ مگر دانش محاصرہ سے دوستی کیے بغیر ہر قسم کی سائنس اور ٹیکنالوجی ایک تباہ کن ہتھیار ہے۔

بحیثیت مجموعی انسان نے سائنس اور ٹیکنالوجی میں ترقی کر لینے کے باوجود اس دانائی سے زیادہ نہیں سیکھا جس کی بنیاد ہمارے پرکھوں نے رکھی تھی۔

آج انسان نے اپنی تباہی کے لیے اتنے مہلک اور تباہ کن ایٹمی، حیاتیاتی اور کیمیائی ہتھیار تیار کر رکھے ہیں کہ اگر وہ سارے کے سارے میزائلوں کے ذریعے کرہ ارض پر پھیلا کر چلا دیے جائیں تو چند لمحوں میں دنیا واپس پتھر کے دور میں چلی جائے گی۔

آج بھی ترقی یافتہ ممالک کے ہشیار لیڈر ترقی پذیر ممالک کی سر زمینیں اپنے سیاسی اور معاشی مقاصد کے لئے استعمال کرتے ہیں۔

آج بھی دنیا کے طاقتور ممالک اپنے ہی لوگوں کے خراج سے حاصل شدہ دولت کو ان کی فلاح و بہبود پر لگانے کی بجائے دنیا میں پولیس مین کا کردار ادا کرنے کے لئے صرف کرتے ہیں۔

آج بھی جنگی ٹیکنالوجی کی تجربہ گاہوں میں زندگی سوز وائرس پیدا کر کے پھر اس سے بچاؤ کے تدارک کے لئے ویکسین اور ادویات کی فروخت کے ذریعے شاطر ترقی یافتہ اقوام کھربوں ڈالر کما رہی ہیں۔ دنا میں اس وقت کرونا وائرس سے ہلاکتوں کی تعداد دس ملین ہونے ہے اور بڑھتی ہی جاتی ہے۔

یوں لگتا ہے کہ اپنی لائبریریوں میں دانائی کی دولت کی فراوانی ہونے کے باوجود انسان کی مجموعی ذہنی عمر لڑکپن سے بلوغت میں داخل نہیں ہو پائی۔

تو پھر آج کی دانائی کیا ہے؟

آج کی بڑی اور طاقتور اقوام کے لیڈران کو سوچنا ہے کہ وہ امن کی راہ اپنائیں گے یا تباہی کے خطرات کے منڈلاتے بادلوں میں اپنی اگلی نسلوں کو پروان چڑھائیں گے۔

اقوام عالم دنیا کو امن و آشتی کا گہوارا بنانے کے لئے سنجیدگی اور متانت کا مظاہرہ کریں۔ اور دنیا سے انسان کو نیست و نابود کرنے والے مہلک ہھتیاروں کو تلف کر نے کے لئے عمل اقدامات کریں۔ اپنے قیمتی وسائل کا استعمال انسانی فلاح و بہبود کے لئے کریں اور وائرس پیدا کرنے والی لیبارٹریز کو آباد کرنے کی بجائے دنیا سے بیماری ختم کرنے والی تجربہ گاہیں بنائیں۔

دنیا کے طاقتور ممالک کے لیڈر اس دانائی سے مزین دانشوروں کو اپنے مشیر مقرر کریں۔ ایسے افراد سے گریز کریں جو دنیا میں تنازعات پیدا کر کے جنگی ہتھیار بنانے والی فیکٹریوں کو رواں رکھنا چاہتے ہیں۔

دھرتی ماں کی کوکھ سے پیدا ہونے والے رزق کے تمام ذرائع تمام دنیا کے انسانوں کے مشترکہ وسائل ہیں ان کو آبادیوں کے لحاظ سے تقسیم کر دینا چاہیے۔

ترقی یافتہ اقوام، ترقی پذیر اور مفلوک الحال اقوام کو خوشحالی کے دھارے میں لانے کے لئے عملی اقدامات کریں۔ اور دنیا کے تمام ممالک اپنے مابین تنازعات بات چیت کے ذریعے ختم کر دیں۔

تو ہی ہم کہہ سکیں گے کہ دانائی کے سفر کا انجام بالخیر ہوا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments