انسانی دماغ تصویروں میں سوچتا ہے


ذرا لمحہ بھر کے لیے اپنی والدہ کے بارے میں سوچیے تو جھٹ سے ان کا چہرہ آپ کے سامنے آ جائے گا۔ بالکل اسی طرح مختلف اشیاء کی شبیہ ذہن میں ابھرتی ہے، اور انسانی دماغ کا سادہ سا کلیہ سمجھ میں آتا ہے۔

ہم چاہے کوئی تحریر پڑھیں یہ کوئی دھن سنے ہمیں ہر لمحہ کسی تصویر کی ضرورت ہوتی ہے کہ ہم اس احساس کو کوئی شکل دے سکیں۔

مثال کے طور پر مینار پاکستان، مسئلہ فیثا غورس یا عقیدہ وحدت الوجود سب کی ہی شکل ہمارے ذہن میں نقش ہے۔ اسی چیز کا استعمال کر کے ہم ثقیل اور گنجلک مضامین اور مسائل کو آسان بنا سکتے ہیں اور ضرورت پڑنے پر آسانی سے اپنے کام میں لا سکتے ہیں۔ اس چیز کو انگریزی اصطلاح میں مائنڈ میپس/ mind map کہتے ہیں۔ اس تکنیک کو فلکیات، طب، ریاضی الغرض ہر شعبہ ہائے حیات میں استعمال کر سکتے ہیں۔ اسی لیے آج کل ضخیم کتب کی بجائے ایسے خلاصہ جات کی مانگ بڑھ رہی ہے جن میں ٹیبل، ڈائیگرامز کی مدد سے آسان اور کم الفاظ میں بات واضح کی جاتی ہے۔

مثال کے طور پر ہارٹ اٹیک کی وجوہات کو سادہ صفحہ پر یوں لکھا جا سکتا ہے کہ عنوان درمیان میں ہو اور نکات (بڑھتی عمر، سگریٹ نوشی، فشار خون، نمک کا استعمال وغیرہ) خطوط کھینچ کر لکھ لیے جائیں۔ آج طلب علموں کو معلومات کی زیادتی کی وجہ سے ایسی مہارتوں کی ضرورت ہے جنہیں استعمال میں کا کر وہ کم وقت میں زیادہ کام کر سکیں اور ان کے اذہان پر بے جا بوجھ بھی نہ بنے۔

بالکل اسی طرح نیمونکس/ pnemonics بھی ہوتے ہیں۔ یعنی مشکل تراکیب کو ایک جملے میں فٹ کرنا اور اس منتر کو رٹ لینا، یہ مہارت طب کے طالب علموں کے لیے نعمت خداوندی ہے۔ مان لیجیے کہ آپ کو دائیں جانب پسلیوں میں درد کی وجوہات یاد کرنے ہیں اور آپ گز بھر لمبے مضمون کو ایک بامعنی یا مہمل ترکیب میں ڈھال لیں اور ہر مریض پر اسٹیپ بائے اسٹیپ آزماتے جائیں، گویا یہ آپ کے اپنے وضع کیے ہوئے خفیہ نوٹس ہیں۔

نئے دور کے نے چیلینج ہیں تو ہمیں بھی نئی تراکیب بنانی چاہیے ان سے ہماری ذہنی، طبیعی، جذباتی مشکلات حل نہیں بھی ہوں، ایک نئی سمت کا تعین تو ضرور ہو گا۔

نئے انداز سے سوچتے رہیے، کیونکہ سوچ حقیقت بن جاتی ہے۔

عثمان ارشد
Latest posts by عثمان ارشد (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments