اگر آپ کے ہاں تیسری جنس پیدا ہو جائے تو؟


وہ کتابوں کی دکان سے نکلی، سڑک پار کی اور اپنی گاڑی کا دروازہ کھولنے لگی۔ کہ اتنے میں ایک ہیجڑا فقیر نے اسے روکنے کو آواز دی۔ اسی اثنا میں وہ گاڑی میں بیٹھ چکی تھی۔ جس میں پہلے ہی اندر ڈرائیونگ سیٹ پر اس کا شوہر اور پیچھے تین بچے موجود تھے۔ یہ بہت ہجوم والا بازار تھا جہاں پارکنگ موجود نہ ہونے کی وجہ سے، سڑک کے ایک طرف گاڑی، چلانے والے سمیت کھڑی کرنا پڑتی ہے اور با عجلت اپنا کام پورا کیا جاتا ہے۔ رش یہاں کا معمول ہے کیونکہ نامی گرامی کتابوں کی دکان پر آنا ہر شہری کی مجبوری ہے۔

بوجوہ اس سب کے، وہ اس کی منتظر ہے اور بٹوے سے پیسے نکال رہی ہے۔ اتنے میں اس کی طرف کی کھڑکی میں وہ آ جاتا ہے۔ وہ اسے کچھ پیسے پکڑاتی ہے، جس کے جواب میں وہ ہیجڑا فقیر اسے دعائیں دیتا چلا جاتا ہے۔ اور گاڑی چل پڑتی ہے۔

دو چار منٹ کے مختصر وقفے سے پچھلی سیٹ سے اس کے گیارہ سالہ، بڑے بیٹے کی آواز آتی ہے :
بیٹا: ایک سوال پوچھنا ہے؟
وہ: کیا؟

بیٹا: یہ لوگ جو عورت بھی ہوتے ہیں اور مرد بھی۔ وہ ہمیشہ غریب کیوں ہوتے ہیں؟ ان کے پاس اتنے وسائل کیوں نہیں ہوتے؟ سڑکوں پر مانگتے کیوں رہتے ہیں؟

وہ: کیونکہ ان کے لئے زندگی آسان نہیں۔
بیٹا: کیوں؟ اگر وہ اسکول جاتے تو پڑھ لکھ کر کچھ بہتر کما سکتے ہیں۔

وہ: بچے وہ اسکول بھی نہیں جاتے۔ وہ تو اس ملک کے شہری بھی نہیں مانے جاتے تھے۔ اب تھوڑی آسانی ہوئی ہے۔ لیکن پھر بھی بہت مشکل ہے۔ ان کے تو والدین بھی انھیں ساتھ نہیں رکھتے۔ تو پھر کون ان کی دیکھ بھال کرے؟ ان کی تعلیم تربیت پر توجہ دے؟

بیٹا: ان کے ماں، باپ ان کو پاس کیوں نہیں رکھتے؟ کیا وہ اپنے بچوں سے پیار نہیں کرتے؟
وہ: پیار تو کرتے ہوں گے لیکن ساتھ نہیں رکھتے۔ بے شمار وجوہات ہیں جن کی آپ کو ابھی سمجھ نہیں۔
بیٹا: میں تو بڑا ہو رہا ہوں۔ میں کیوں نہیں سمجھوں گا؟

وہ خاموش ہے۔ کبھی کبھی کسی کو مطمئن کرنا کتنا مشکل ہو جاتا ہے جب کہ پوچھنے والے کے سوال بھی بر حق ہوں۔ تھوڑی دیر بعد بچہ پھر ماں سے مخاطب ہے۔

بیٹا: اچھا مما! اگر آپ کا کوئی بچہ ایسا پیدا ہوتا، تو کیا آپ اسے پیار کرتیں؟ کیا آپ؟
اس کی بات پوری ہونے سے پہلے ہی وہ بول اٹھی، اللہ رحم کرے۔ اس طرح کی آزمائش سے بچائے۔
بیٹا: مما! آپ ایسے کیوں کہہ رہی ہیں؟ کیا ان کا ہونا برا ہے؟

وہ: برے یا اچھے کا تو مجھے پتہ نہیں۔ لیکن ان کا ہونا بہت تکلیف دہ ہے۔ نا صرف ماں باپ کے لئے بلکہ خود ان کے لئے بھی۔ معاشرے کی تلخ حقیقتیں دونوں فریقین کو زندہ درگور کر دیتی ہیں۔ ان کو پالنا، اسکول بھیجنا، ہر چیز کرنے میں رکاوٹ ہوتی ہے۔

بیٹا: کیوں؟

وہ: کیونکہ وہ عام انسانوں سے دکھنے میں مختلف لگتے ہیں اور تربیت کے فقدان کی وجہ سے دوسرے بچے انھیں تنگ کرتے ہیں۔ ان کے دوست نہیں بنتے۔ ان کا مذاق اڑاتے ہیں۔

بیٹا: آپ ایسے بچوں کو گھر پر بھی تو رکھ سکتے ہیں۔ خود پڑھا سکتے ہیں۔ تاکہ وہ ہرٹ نہ ہوں اور پڑھتے بھی رہیں۔

اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔ اس کا بیٹا بار بار ایسے سوال پوچھتا رہا لیکن اس سے ایک لفظ نہ کہا گیا۔ اس نے تھک کر آنکھیں بند کیں اور سیٹ کی پشت پر سر ٹکا لیا۔ تھکن جسمانی نہیں ذہنی تھی اور اتنے سالوں کی جمع شدہ ہے کہ بچپن سے اب تک اسے ڈھوتے ڈھوتے، اس کے کندھے جھک گئے ہیں۔ اور دل بوجھل ہے۔ وہ اسے کیا کہتی کہ کچھ موضوع ایسے ہوتے ہیں جن کو جانتے اور مانتے ہوئے بھی ہم ان سے نظریں چراتے ہیں۔ چاہتے ہوئے بھی جب کوئی ایسا تذکرہ ہو، تو بات بدل دیتے ہیں۔

کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرلیتے ہیں۔ وہ کیا بتاتی کہ اس کی مما جب جب ماں بننے کے مرحلے سے گزری ہے۔ اس کا سب سے بڑا ڈر کیا تھا؟ اس نے نہ بیٹی کی فرمائش کی، نہ مولا سے بیٹے کی دعائیں مانگیں۔ اس کی دن، رات، ہر گھڑی، ہر پل بس ایک ہی التجا رہی کہ اس کی اولاد صحت مند ہو۔ جب بھی اس کا واسطہ کسی ڈفرنٹلی ایبل چائلڈ سے پڑا یا اس نے کسی ہیجڑے کو دیکھا۔ اس نے یہی دعا کی اللہ اس کو ایسی اذیت نہ دینا۔ وہ ایسی با ہمت نہیں اور نہ ہی ایسی مضبوط کہ اپنی اولاد کو یوں دیکھے یا اپنے سے جدا کر سکے۔ وہ اسے کیا کہے کہ اسے تو لفظ ہیجڑا اور ان سے جڑے تمام نام بڑے نا معتبر لگتے ہیں۔ ان کی دربدری اس کا دل دکھاتی ہے۔ ان کے والدین کی تکلیف اس کو مارتی ہے۔

وہ کیا بولتی کہ میرے پیارے، معصوم بیٹے، کاش! تمہارے جیسا حساس دل سبھی کے پاس ہوتا۔ کاش! ایسے نرم جذبات مستقل ہوتے اور زمانے کی تپش انھیں کبھی سرد نہ ہونے دیتی۔ کاش! یہ محبت ہر خوف اور دباؤ سے مبرا یونہی سلامت رہتی۔ کاش انسان کی تکریم جنس، صحت اور مرتبوں سے بلند ہوتی۔ کاش! میں بہادر ہوتی۔ کاش! ہم سب یہ سمجھ لیتے کہ نامکمل وجود کے پیدا ہونے میں قصور وار ماں، باپ نہیں لیکن ایسے تمام لوگوں کی نا آسودہ زندگی کے ہم سب ضرور ذمہ دار ہیں۔ کاش! یہ بہت سے کاش ہماری زندگی میں نہ ہوتے۔ اور تب تم مجھ سے یہ سوال پوچھتے کہ اگر میرے گھر میں ایسا بچہ پیدا ہوتا تو کیا میں اس کو پیار کرتی؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments