افغان پالیسی: پاکستان تاریخ کے دوراہے پر


پاکستان کا مستقبل افغانستان کے ساتھ جڑا ہے۔ اور خود افغانستان کی کشتی اگرچہ تاحال، بظاہر کافی حد تک ہموار پانی پر تیر رہی ہے، مگر تہ میں موجود تلاطم نے سطح پر بلبلے پیدا کرنا شروع کر دیے ہیں، جن کا بپھری موجوں میں تبدیل ہونے کا خدشہ ہے۔ خوش قسمتی یا بدقسمتی سے یہ خوبصورت ملک انتہائی اہم جغرافیائی خطے میں واقع ہونے کے سبب سامراجی دخل اندازیوں کا محور رہا ہے۔ داخلی عوامل کے علاوہ ان مہم جوئیوں نے افغان معاشرے میں متنوع، گہرا اور وسیع بگاڑ پیدا کیا ہے، جس کے سدھار کے لئے دیومالائی دانائی، قوت عزم اور صبر کی ضرورت ہے۔

امریکہ افغانستان میں دو عشروں کی مہم جوئی کے بعد اپنے پیچھے، فضا میں بارودی الودگی اور زمین پر خونی دھبوں کے علاوہ کچھ چھوڑ کر نہیں گیا۔ بلکہ نئے تنازعات اور کشت و خون کے لئے حالات کو انتہائی ناہموار اور پیچیدہ بنا کر چھوڑا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ اپنی سرشت سے مجبور سامراجی قوتوں کا یہی طرز عمل رہا ہے۔ جاتے وقت امریکی قیادت میں نیٹو ممالک نے تمام مسائل طالبان کی جھولی میں ڈال کر اس خطے کے باسیوں کے ساتھ انتہائی بھدا مذاق کیا ہے۔

تادم تحریر طالبان حکومت کو کسی ایک ملک نے بھی تسلیم نہیں کیا۔ عمومی طور پر دنیا کے یہ مطالبات بالکل جائز ہیں کہ افغانستان میں ایسی وسیع البنیاد حکومت ہونی چاہیے جو عالمی سطح پر تسلیم شدہ بنیادی انسانی حقوق، خصوصاً خواتین کی بھلائی کو یقینی بنائے اور انتہا پسندی کو معدوم کرنے کے لئے ضروری اقدامات کی ضمانت دے۔ لیکن زندہ ضمیروں کا تمدنی شعور سوال اٹھاتا ہے کہ کیا طالبان سے ایسے تقاضے عملاً جائز ہیں؟ اس کا جواب واضح نفی میں ہے۔

مستقبل میں بدامنی کو یقینی بنانے کے لئے یہی وہ بنیادی انتظام ہے جو امریکہ نے بے ہنگم انخلا کے ذریعہ کیا ہے۔ طالبان کی فتح کے بعد ایک ٹی وی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے، امریکہ میں سابق سفیر شیری رحمن نے بتایا تھا کہ 2010 سے پاکستانی حکام امریکیوں سے یہ مطالبہ کرتے آئے ہیں کہ امن کی خاطر امریکہ کے انخلا سے قبل، افغانستان میں قابل عمل سیاسی و انتظامی ڈھانچے کا قیام ناگزیر ہے، لیکن انہوں نے ان باتوں پر کبھی کان نہیں دھرا۔

اب صورت احوال یوں بنتی جا رہی ہے کہ افغانستان کے بعض علاقوں میں ہاتھ کاٹنے اور سرعام پھانسیوں کے بعد لاشوں کو لٹکائے رکھنے جیسی سزاؤں کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ سزائیں دینے والے حکام کا کہنا ہے کہ بتدریج ان سزاؤں کا اطلاق پورے ملک میں کیا جائے گا۔ طالبان کی مرکزی قیادت اگرچہ ریاستی امور کی انجام دہی کے لئے بین الاقوامی حمایت کی ضرورت کا ادراک رکھتی ہے، لیکن ان کے لشکری فتح کے نشے اور اپنی توجیحات کے مطابق، نفاذ شریعت کے عزم سے سرشار ہیں، اور ان کے منہ زور جذبات کے سامنے بند باندھنا قیادت کے لئے بھی اسان نہیں ہو گا۔

لہذا مغربی دنیا کے مطالبات کے برعکس اقدامات کے ردعمل میں شدید خدشہ ہے کہ نہ صرف بیرون ملک افغانستان کا سرمایہ منجمد رکھا جائے گا بلکہ مزید پابندیوں کے علاوہ فضائی حملوں میں بھی اضافہ کیا جائے گا۔ اطلاعات ہیں کہ پاکستان کی طرف سے بنیادی ضروریات کی ترسیل جاری ہے، مقامی سطح کی دو طرفہ تجارت بھی جاری ہے اور لوگوں کی آمد و رفت بھی ہو رہی ہے۔ چین اور روس کی جانب سے بھی زیر دست امداد کا بھرپور امکان ہے، لیکن اس سب کے باوجود ملک چلانے کی لئے منجمد اثاثوں کا اجرا اور آزاد بین الاقوامی تجارت، زندگی معمول پر لانے اور ریاستی اداروں کی تعمیر کے لئے ناگزیر ہیں۔ بصورت دیگر غربت اور امراض پھیلنے کا قوی اندیشہ ہے، اور یہ دونوں عوامل جرائم اور جتھہ بندی و تصادم کے آزمودہ ذرائع ہیں۔

دوسری جانب چند روز قبل دو شنبہ میں شنگھائی تعاون تنظیم اور روس کی قیادت میں عسکری اتحاد سی ایس ٹی او کے پہلی مرتبہ مشترکہ سربراہ اجلاس میں، چین اور روس کے راہنماؤں نے افغانستان پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے، افغانستان اور ارد گرد خطے میں امن کے قیام کو علاقائی سلامتی کے لیے ناگزیر قرار دیا ہے۔ اس کے علاوہ روس اور چین نے ان مقاصد کے حصول کے لئے خفیہ اطلاعات کے تبادلے، اور دونوں ممالک کے حکام کے درمیان مرحلہ وار ملاقاتوں پر بھی اتفاق کیا ہے۔ یعنی افغانستان میں مستقبل میں پیدا ہونے والی ممکنہ مخدوش صورتحال سے نبرد آزما ہونے کے لئے امریکہ اور چین کے درمیان صف بندی کا آغاز ہو چکا۔

بالائی سطروں میں کی گئی بحث کے بعد اس مضمون کا مرکزی سوال کے اس صورتحال میں پاکستان کو کیا حکمت عملی اپنانا چاہیے۔ پاکستان میں سرگرم عمل ٹی ٹی پی اور حقانی گروپ نے افغانستان میں طالبان کے امیر کے ہاتھ پر بیعت کر رکھی ہے۔ لیکن کوئٹہ کے مضافاتی قصبے کچلاک میں پانچ سال تک ایک مسجد میں امامت کے فرائض ادا کرنے والے سپریم کمانڈر ملا ہیبت اللہ اخوند زادہ پراسراریت کے پردوں میں گم ہیں۔ کابل پر قبضے کے بعد انہوں نے کسی اجلاس میں شرکت کی اور نہ ہی کوئی صوتی پیغام جاری کیا۔

افغانستان کی جیلوں سے ٹی ٹی پی کے تقریباً 2300 جنگجوؤں کی رہائی سے تقویت پاتے ہوئے صوفی نور ولی محسود نے پاکستان میں نفاذ شریعت کے لئے جدوجہد کا اعلان کیا ہے۔ جس کے بعد سابق فاٹا کے علاقوں اور بلوچستان میں پاکستانی فوجیوں اور چینیوں پر بعض حملے دیکھنے میں آئے ہیں۔ اس کے علاوہ ٹی ٹی پی نے قابل قتل اہم پاکستانی شخصیات کی فہرست بھی جاری کی ہے۔ علاوہ ازیں پاک افغان سرحدوں پر بھی بعض جھڑپوں کی اطلاعات ہیں۔ اور اطلاعات یہ بھی ہیں کہ افغانستان کے پندرہ صوبوں میں القاعدہ کے جنگجو موجود ہیں۔

لیکن طالبان پاکستان میں فوجی و نیم فوجی دستوں، اور چینی افراد اور ان کے مفادات پر حملے کیوں کر رہے ہیں؟ ایسا اس لئے ہے کہ مجاہدین اور طالبان کی تاریخ سے واقف حال لوگ خوب جانتے ہیں کہ متحارب رہنے کے باوجود کسی مرحلے پر بھی امریکہ اور طالبان کے روابط منقطع نہیں رہے۔ طالبان کے متعدد دھڑوں میں امریکہ کے دوست موجود ہیں اور انہیں کو مسلح رکھنے کے لئے، انخلا کے وقت امریکی اربوں ڈالر مالیت کا جدید اسلحہ افغانستان میں چھوڑ گئے تھے۔

اس کے علاوہ یہ امر بھی پیش نظر رکھنا چاہیے کہ طالبان کے خلاف جنگ میں پاکستان کی طرف سے امریکہ کی مدد کو طالبان مذہبی غداری سمجھتے ہیں۔ دوسری طرف سوویت انخلا کے بعد ، پاکستان کی جانب سے مجاہدین کی امداد، اور نجیب حکومت کے خاتمے اور نجیب اللہ کے طالبان کے ہاتھوں وحشیانہ قتل کے لئے قوم پرست افغان بھی پاکستان کو ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔

ایک جانب مغربی سرحد پر مہیب سائے منڈلا رہے، اور خود ملک کے اندر روبہ زوال معیشت اور سیاسی کھوکھلے پن نے داخلی صورتحال کو بھی پریشان کر رکھا ہے۔ موجودہ حکومت نے سی پیک منصوبوں، یعنی چین کو پس پشت ڈال رکھا ہے اور عالمی مالیاتی اداروں کے مطالبات بھی پورے نہیں کر پا رہی۔ امریکی صدر جو بائیڈن ہمارے وزیراعظم سے رسمی سفارتی گفتگو کے لئے بھی آمادہ نہیں ہو رہے، اور اطلاعات کے مطابق چینی قیادت کے ساتھ بھی اعلی ترین حکومتی سطح پر رابطہ نہیں ہو پا رہا۔ خیر اس کی وجہ تو سمجھ اتی ہے کہ یہ دونوں ممالک پاکستانی امور میں صرف ہماری مقتدرہ کو اہم سمجھتے ہیں، اور اس کے ساتھ رابطے میں بھی ہیں۔ لیکن سول حکومت کی عالمی طاقتوں کی طرف سے بے توقیری بہت بڑا سیاسی نقصان ہے۔

آج پاکستان تاریخ کے دو راہے پر کھڑا ہے۔ یہ بہت مشکل صورتحال ہے۔ پاکستان انکھیں بند کر کے نہیں رہ سکتا۔ امریکہ اور چین کے درمیان سرد جنگ کا آغاز ہو چکا ہے۔ پاکستان کی مقتدرہ دونوں عالمی طاقتوں کو بہ یک وقت خوش نہیں رکھ سکتی۔ ماضی میں ایسی ہی معصومانہ کاوشوں کے باعث ہم نے دونوں ممالک کا اعتبار کھویا ہے۔ یہ سفارتکاری ناکام ہو چکی۔ مزید براں، اب تنازع دروازے پر آ پہنچا ہے اور تضاد کی دھار بھی تیز ہوتی جا رہی ہے۔ امریکہ بھارت کے مقابل پاکستان کی کوئی مدد نہیں کرے گا۔ صرف دو سال قبل، بھارتی آئین میں ترمیم کے ذریعہ کشمیر کا بھارت سے قانونی الحاق، امریکہ کی اشیرباد کے بغیر ممکن نہیں تھا۔ جبکہ چین نے مشترکہ مفاد کے باعث تب بھی پاکستان کے موقف کی حمایت کی تھی۔

ان تمام حقائق کی روشنی میں چین کے ساتھ مستحکم اور دیرپا دوستی پاکستان کے بنیادی مفادات کا تقاضا ہے۔ امریکہ اور برطانیہ و دیگر مغربی ممالک کے ساتھ قریبی مراسم اگرچہ ہماری مقتدرہ کو ہمیشہ عزیز رہے ہیں لیکن حالات کی بے رحمی نے ایسے دو راہے پر لا کھڑا کیا ہے، جہاں دونوں میں سے ایک کا انتخاب کرنا ہو گا۔ ایک طرف دل کو لبھانے والے مغرب کے ساتھ دیرینہ تعلقات ہیں، تو دوسری جانب پاکستان کی سلامتی کے تقاضے۔ فیصلہ ناگزیر ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments